جاپان بڑھاپے کی دہلیر پر پہنچ گیا٬ جاپانی خواتین ماں کیوں نہیں بننا چاہتیں؟ پاکستان ایک خوش قسمت ملک

image
 
جوان لوگ کسی بھی معاشرے کی افرادی قوت ہوتے ہیں۔ تصور کریں کسی معاشرے سے جوانوں کو ختم کر دیا جائے تو کیا ہوگا؟ کچھ اسی طرح کا خوف آجکل جاپانی حکومت کو لاحق ہے۔ جاپان کی آبادی تیزی کے ساتھ بوڑھی ہو رہی ہے جو ملک کو آبادیاتی بحران کے دہانے پر لا رہی ہے اور یقیناً اس کے اثرات مستقبل قریب میں ان کی معیشت اور معاشرے پر بری طرح اثر انداز ہوں گے۔
 
1980 کی دہائی کے آخر میں جاپانی حکومت کے لئے ایک دھچکا تھا جب ملک کی شرح پیدائش اس کی تاریخ کے نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی (2022 میں جاپان کی موجودہ شرح پیدائش فی 1000 افراد میں 7.109 پیدائش ہے، جو 2021 سے 1.33 فیصد کم ہے)-
 
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح جاپان میں بھی مرد عورت برابری کی سطح پر کیرئیر بنانے کی جدوجہد میں ہیں یہی وجہ ہے کہ جاپانی خواتین اب بچے پیدا کرنا نہیں چاہتیں اور حکومت فکر مند ہے کہ اس آبادی کی گھٹتی ہوئی شرح کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ یہ بات واضح کرتی ہے زندگی میں توازن کا ہونا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں جاپانی حکومت مختلف اقدامات کر رہی ہے اور انھیں سہولیات فراہم کر رہی ہے تاکہ عوام حکومت کے ساتھ مل کر قوم کے مستقبل کو بچائیں۔
 
image
 
جاپان کی بچوں پر سرمایہ کاری:
محسوس یہ ہو رہا ہے کہ جاپان زرخیزی کی شرح کو معنی خیز طور پر بڑھانے کے لیے اپنی جنگ ہار رہا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے 80 کی دہائی کے آخر میں "1.57 جھٹکا"( آبادی کی ریکارڈ توڑ شرح پیدائش میں کمی) کا تجربہ کیا تھا وہ شرح افزائش کا سامنا تو کر رہے ہیں لیکن سالانہ برتھ ریٹ مسلسل زوال کا شکار ہے۔ جاپان تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے۔ اس کا 'سپر ایجڈ' معاشرہ دنیا کا قدیم ترین معاشرہ ہے۔ جاپان میں دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بزرگ شہریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ 2014 کے تخمینوں کے مطابق، تقریباً 38% جاپانی آبادی 60 سال سے اوپر کی ہے، 25.9% کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہے، اور 12.5% کی عمر 75 سال یا اس سے زیادہ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے 2036 تک 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگ آبادی کی ایک تہائی نمائندگی کریں گے۔
 
2011 کے بعد سے جاپانی آبادی بھی کم ہو رہی ہے:
یہ ایک خوشحال ملک کا ایک غیر معمولی معاملہ ہے جس کو ملک کی بڑھتی عمر اور سکڑتی ہوئی آبادی کے نتائج میں معاشی بحران کا سامنا ہے۔ جاپان روبوٹ کی ترقی میں سب سے آگے ہے جس سے روزگار پر اثر پڑتا ہے۔ جب کام روبوٹ کے زریعے ہو سکتے ہیں تو کسی انسان کو کیوں نوکری فراہم کی جائے گی۔
 
جاپان کا آبادیاتی بحران کچھ عناصر کے امتزاج کا نتیجہ ہے:
طرز زندگی میں تبدیلی، بڑی عمر میں شادی کرنا یا بالکل شادی نہ کرنا، اور نوجوان نسل کا معاشی عدم تحفظ اس کے علاوہ اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑ ہے۔
 
موجودہ دور میں مرد عورت میں کوئی تفریق نہیں رہ گئی ہے دونوں یکساں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اپنا کیریئر بنا رہے ہیں اس کیریئر بنانے کی دوڑ میں وہ فیملی بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب اپنے معیار زندگی کو بہتر بنا لیتے ہیں تو وہ شادی کی طرف آتے ہیں۔ بڑی عمر میں شادی کا مطلب کم زرخیزی ہے۔
 
image
 
جوڑے جب بڑی عمر میں یا 30 کی عمر کراس کرنے کے بعد شادی کرتے ہیں تو وہ پر سکون زندگی کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ بچہ ہونے کا مقصد 7 سال تک بچے کی پرورش پر توجہ دینا ہوتا ہے۔ جاپان میں بچے کی پرورش پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ ماؤں کو 30 ہفتوں کی کام سے میٹرنٹی چھٹی ملتی ہے تاکہ وہ بچوں کو بھرپور وقت دیں اور ان کو ہر لحاظ سے معاشرے کا فعال شہری بنائیں۔ اب جن خواتین کے اچھے کیریئر ہوتے ہیں انھیں فیملی بنانے کے لئے بہت بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کیونکہ سات سال تک وہ اپنے کیریئر سے دور ہو جاتی ہیں اور کوئی اور ان کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ایک بچہ پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔ جاپانی حکومت اس سلسلے میں بہت اچھی مراعات دے رہی ہے اور ہر طرح سے کوشش کر رہی ہے کہ قوم کے رجحان کو بدلاجائے لیکن شاید یہ اب نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ جاپان بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سرکاری اسکول انتہائی معیاری ہیں اسی طرح ڈے کئیرز بھی سرکاری ہیں جہاں بہتریں ٹیچرز اور کئیر ٹیکرز کا انتظام ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے لئے بہتریں الاؤنسس مختص کیے گئے ہیں تاکہ والدیں کی حوصلہ افزائی ہو۔
 
عمر رسیدہ معاشرے کے مسائل کاکس طرح سامنا کیا جا رہا ہے:
جاپان کی حکومت ایک عمر سے پاک معاشرہ بنانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے جس میں ہر عمر کے لوگ اپنی اہلیت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ عمر رسیدہ لوگ حکومت کی طرف سے قائم کردہ سینٹرز میں اپنے ہنر سکھاتے ہیں کچھ نہیں تو وہ غیر ملکیوں کو جاپانی زبان سکھانے پر معمور کر دیے جاتے ہیں۔
 
جاپان کی کچھ بڑی صنعتیں جیسے موٹر گاڑیاں اور الیکٹرانکس کے پاس پیداوار کی موجودہ سطح پر جاری رکھنے کے لیے افرادی قوت نہیں ہے۔ اگر جاپان اپنی پیداوار کی سطح کو برقرار نہیں رکھ سکتا تو وہ کچھ عرصے میں وہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت کے طور پر اپنا مقام کھو سکتا ہے۔ وزیر اعظم شنزو آبے نے ایک نئی اصطلاح روشناس کروائی تھی جسے "وومنکس" کہا جاتا ہے، جہاں کمپنیوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خواتین کی خدمات حاصل کریں اور خواتین کو زیادہ قیادت کے عہدے دیں۔ لیکن بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ایسی صورت میں بھی نئی نسل کا پروان چڑھنا مشکل ہوگا۔ بچے ہوں گے تو وہ مستقبل میں افرادی قوت بنیں گے۔ آج یورپ کو بھی انھیں مسائل کا سامنا ہے۔
 
ان مسائل کے سامنے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے ہمارے پاس افرادی قوت ہے صرف اس قوت کو استعمال کرنے کے لئے بہترین اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارا نوجوان بے روزگاری کا شکار ہے ۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کا کام ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک افرادی قوت اور سستی لیبر کی وجہ سے تیسری دنیا میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ملک میں امن و امان کی صورتحال اچھی ہوگی تو اس سے ہماری معیشت کو ترقی ملے گی، صرف اور صرف جذبہ حب الوطنی کی ضرورت ہے!!!!!
YOU MAY ALSO LIKE: