آج تعلیم کوحملوں سے محفوظ رکھنے کا عالمی دن منایا جارہا
ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد تنازعات سے متاثرہ ممالک میں رہنے والے لاکھوں
بچوں کی حالت زار کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ہے جس کی منظوری اقوامِ
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۲۸ مئی ۲۰۲۰ کو ایک قرادادA179/275 میں دی تھی،
بدقسمتی سے دشمن عناصر کی میلی نظریں ہمیشہ سے معصوم بچوں پر ان کی تعلیم
پر اور تعلیمی اداروں پر گڑی رہی ہیں،دنیا بھر میں کئی دل دہلا دینے والے
واقعات منظر ِعام پر آئے جن میں معصوم طالبعلموں کو نہایت ہی بے دردی سے
شہید کیا گیا،یہ واقعات اس قدردرد آگیں تھے کہ بے شک وہ دن گزر گیا ہو مگر
اس دن کو جب یاد کیا جاتا ہے تو لوگوں کی روح تک کانپ جاتی ہے، شر پسند
عناصر نے تعلیمی اداروں پر حملے کرکے ملک و قوم کے مستقبل کو بے حد نقصان
پہنچایا ہے،اگر ریکارڈ کیے گئے تعلیمی اداروں پر حملوں کی تعداد پر نظر
ڈالی جائے توایک رپورٹ کے مطابق پاکستان تمام حملوں میں 847 (23.15فیصد)
نمبر پر ہے۔جبکہ افغانستان6.29فیصدعراق 6.15 فیصد،تھائی
لینڈ5.88فیصد،امریکہ 4.46 فیصد،پیرو 4.13ٖٖ فیصد،ترکی3.47فیصد اور فلپائن
3.23 فیصد پرہے،
گزشتہ ایک دہائی سے تعلیمی اداروں پر حملے کرنے کا رجحان کافی تیزی سے
بڑھتا دکھائی دیا ہے،بعض دھشت گرد گروہ خاص طور پر تحریک طالبان
پاکستان،بوکو حرام،الشہاب،افغان دھشتگرد تنظیموں نے تعلیمی اداروں پرحملوں
کو دھشت گردی کا آلہ ہتھیار بنا کر تیزی سے استعمال کیا ہے۔
اگر صرف پاکستان میں ہونے والے تعلیمی اداروں پر حملوں کا ذکر کیا جائے تو
ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۸ سے ۲۰۱۰ کے درمیان صوبہ بلوچستان میں شر پسند
عناصر نے 22 استاتذہ اور دیگر تعلیمی پیشہ ور افراد کا قتل کیا ہے،تعلیمی
اداروں میں سب سے زیادہ حملے کے پی کے اور فاٹا میں ہوئے ہیں،کے پی کے میں
حملوں کی تعداد 439جبکہ فاٹا میں 255 رہی ہے،بلوچستان میں 70 حملے ہوئے ہیں
سندھ میں 53،پنجاب میں 26،اسلام آباد میں 3،جبکہ گلگت بلتستان میں ایک حملہ
ہوا ہے۔
پاکستان میں تعلیمی اداروں پر ہونے والے زیادہ تر حملوں کے ذمہ دار دھشت
گرد گروہ ہیں، جن میں بیس فیصد کا تعلق مذہبی انتہا پسند سے تھا تحریک
طالبان پاکستان نے 17 حملے کیے ہیں جبکہ0.8 فیصد حملوں کے ذمہ دار بلوچستان
شر پسند عناصر تھے، بلوچستان شر پسند عناصر نے 7بار حملے کیے،جن میں وہ
تمام ہلاکتوں کے 2.93فیصد ذمہ دار ہیں ۔
علاؤہ ازین 16 دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول میں پیش آنے والا واقعہ ان
تمام واقعات میں سب سے زیادہ خوف ناک تھا، اس دردناک سانحہ میں استاتذہ
سمیت بچوں کو نہایت بے دردی سے شہید کیا گیا، سلام ہو ان چھوٹے معصوم بچوں
کو جنہوں نے اس کھٹن وقت میں بھی نہایت ہمت و بہادری کا مظاہرہ کیا، بے
شمار ایسے بچے تھے جو اپنے دوستوں کی جان بچانے کے لئے دشمن کے آگے سینہ
تان کر کھڑے ہوگئے، اس سانحہ نے زندہ بچ جانے والے بچوں سمیت دنیا بھر کے
لوگوں کے دماغ میں گہرے نقش چھوڑے ہیں،آج بھی اس سانحہ کو یاد کرنے کے بعد
خون کھول اٹھتا ہے، یہ کیسے لوگ ہیں؟ کون لوگ ہیں؟ جو معصوم پھولوں کو اس
قدر بے دردی سے روند رہے ہیں؟ آخر ان لوگوں کو یہ اختیار کس نے دیا ہے؟ اس
واقعہ نے انسانی برداشت کی ہر حد کو پار کیا ہے،دنیا اس درد ناک واقعہ کو
ہمیشہ یاد رکھے گی،
اگر اب دیکھا جائے تو پاکستان میں تعلیمی اداروں پر حملوں کی تعداد میں
کافی حد تک کمی آئی ہے، اب اس طرح سے حملے نہیں ہوئے ہیں جس طرح سے ماضی
میں ہوئے تھے اور شاید تعلیمی اداروں پر حملے کرنے کا زور شدت اختیار کر
جاتا اگر فوج نہ ہوتی، ان حملوں کے خاتمے میں افواجِ پاکستان کا کافی اہم
کردار رہا ہے افواجِ پاکستا ن نے بے شمار آپریشنز کرکے ملکِ پاکستان میں
دھشت گردوں کے لئے زمین تنگ کردی ہے، افواجِ پاکستان کے جانباز سپوتوں کی
انتھک کاوشیں قابلِ تعریف ہیں۔
حکومت کوچاہیے تعلیمی اداروں کے اطراف سخت سے سخت سیکورٹی فراہم کرے،تعلیمی
اداروں کو محفوظ کیا جائے تاکہ وطن کے یہ مستقبل اپنی پڑھائی جارہی رکھتے
ہوئے،ملک و قوم کا نام روشن کریں،بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں پر شر پسند
عناصرتعلیم خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے سخت مخالف ہیں جس کے پیشِ نظر
طلبا و طلبات کو کئی روکاوٹیں درپیش ہوتی ہیں۔حکومت کو ان روکاوٹوں کو پیشِ
نظررکھتے ہوئے سنجیدگی سے بہتر اقدام کرنے چاہیے،
|