حیات و حاکمِ حیات اور اٙحکامِ حیات !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُلک ، اٰیت 1 تا 14 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
تبٰرک الذی
بیدہ الملک و ھو
علٰی کل شئی قدیر 1
الذی خلق الموت والحیٰوة
لیبلوکم ایکم احسن عملا و ھو
العزیز الغفور 2 الذی خلق سبع سمٰوٰت
طباقا ما ترٰی فی خلق الرحمٰن من تفٰوت
فارجع البصر ھل ترٰی من فطور 3 ثم ارجع
البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا و ھو
حسیر 4 ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح و جعلنٰھا
رجوما للشیٰطین و اعتدنالھم عذاب السعیر 5 و للذین
کفروا بربھم عذاب جھنم و بئس المصیر 6 اذاالقوا فیھا
سمعولھا شھیقا و ھی تفور 7 تکاد تمیز من الغیظ کلما القی
فیھا فوج سالھم خزنتہا الم یاتکم نذیرا 8 قالوا بلٰی قد جاءنا
نذیر فکذبنا و قلنا ما نزل اللہ من شئی ان انتم الا فی ظلٰل کبیر 9
و قالوا لو کنا نسمع او نعقل ما کنا فی اصحٰب السعیر 10 فاعترفوا
بذنبھم فسحقا لاصحٰب السعیر 11 ان الذین یخشون ربھم بالغیب لھم
مغفرة و اجر کبیر 12 و اسروا قولکم او اجھروابہ انہ علیم بذات الصدور
13 الا یعلم من خلق و ھو الطیف الخبیر 14
یہ برکت بھرا جہان اپنے خالق کے اُس دستِ اختیار میں ہے جس دستِ اختیار کو اُس کی ہر تخلیق پر مُکمل اختیار ہے اور اُس غالب کار نے اپنی اِس مملکت میں تُمہاری موت و حیات کو اِس مصلحت کے تحت پیدا کیا ہے کہ وہ تُم کو موت حیات کے اِس حُسنِ عمل کے جہان سے گزار کر نتیجہِ عمل کے اُس جہان میں لے جائے جس میں تُمہارے ہر اعلٰی کام کا ایک اعلٰی انعام ہے ، تُم نظر اُٹھا کر اِس عالٙمِ نظر کو دیکھو تو سہی کہ اُس نے تُمہارے سر پر اُوپر نیچے جو سات آسمان بنائے اور اُٹھائے ہیں اُن میں تُم کو کہیں پر بھی کوئی نقصِ ترکیب نظر نہیں آئے گا اور اگر تُم بارِ دِگر دیکھو گے تو پھر بھی تُم کو اِس کے نقشِ ترتیب میں کوئی نقص نظر نہیں آئے گا یہاں تک اگر تُم اِس کو بار بار بلکہ ہزار بار بھی دیکھو گے تو تُمہاری نگاہِ پرواز کا پرندہ تلاشِ نقص میں ناکام ہو کر لوٹ آئے گا ، ہم نے تُمہارے آسمانِ دُنیا پر اپنے جن ستاروں اور سیاروں کو روشن کیا ہے اُن کا تُمہاری شب کو روشن کرنا تو صرف ایک کام ہے لیکن آسمان کے اِن ہی ستاروں اور سیاروں کے لا تعداد کاموں میں خلا کے شیطانی فتنوں کو خلا میں فنا کردینا بھی ایک کام ہے اور ہمارے اسی خلا خانے میں وہ جہنم خانے بھی ہیں جن کے تباہ کُن دھانے اپنی انتہائی تباہ کُن آوازوں سے اِس کے ماحول کو ہلائے اور دہلائے دیتے ہیں اور جب اُس کے کسی سزا خانے میں انکارِ حق کے مجرم ڈالے جاتے ہیں تو اُس وقت اُس سزا خانے کے نگران اُس میں ڈالے جانے والے مجرموں سے پوچھتے ہیں کہ تُمہارے اِس مقام پر آنے سے پہلے تُمہارے پاس اِس مقام کے شدائد سے ڈرانے کے لئے خُدا کا کوئی فرستادہ نہیں آیا تھا جو تُم کو اِس جگہ کے عذاب سے ڈاراکر اِس جگہ کے اِس عذاب سے بچالیتا تو اِس پر وہ مجرم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس تو ایک کے بعد ایک خُدا کا فرستادہ آیا تھا لیکن ہم نے اُس کے ہر ایک فرستادے کو یہ کہہ کر جُھٹلایا تھا کہ تُم پر خُدا کی کوئی وحی نازل نہیں ہوتی اور تُم وحی کے نام پر ہمارے سامنے بار بار اپنی جو باتیں دُہراتے ہو وہ تو تُمہاری مٙن گھڑت باتیں ہوتی ہیں جن کا تُم ہم پر رعب جماتے ہو لیکن اگر اُس وقت ہم اُن کی وہ سٙچی اور سُچی باتیں سنتے مانتے تو آج ہم اِس جہنم میں اِن جہنمی لوگوں کے ساتھ ہر گز شامل نہ ہوتے اور پھر جب وہ لوگ اقبالِ جرم کر لیتے ہیں تو جہنم کے وہ نگران کہتے ہیں اٙب تُم ہمارے سامنے سے دفع ہو کر اپنی اُس جہنم میں چلے جاوؑ جو تُمہارے بدترین اعمال کی ایک بدترین جگہ ہے لیکن اِن مجرموں کے برعکس جو لوگ اِس دُنیا میں اپنے خالقِ غائب کے اٙحکامِ حاضر کے تابع دار ہوتے ہیں تو اُن کے لئے خُدا کے اُس اعلٰی کارخانے میں وہ اعلٰی ٹھکانے ہوتے ہیں جن میں اُنہوں نے جانا اور رہنا ہوتا ہے اِس لئے تُم لوگ اپنے دل کی جو باتیں دل میں چھپاتے یا زبان پر لاتے ہو تو تُمہاری وہ تمام شنیدہ و پوشیدہ باتیں تُمہارے خالقِ عالٙم کے علم میں ہوتی ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآن کی اِس سُورت کا نام { الملک } ہے جو ہر جان و جہان کے اُس خالق و مالک کی اُس لا محدُود قُوت و قُدرت کا ترجمان ہے اُس کی جو قُوت و قُدرت اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بیان کی گئی ہے ، اِس سُورت میں جو دو مرکزی مضامین وارد ہوئے ہیں اُن میں سے پہلا مرکزی مضمون اِس سُورت کی پہلی اٰیت سے لے کر اِس سُورت کی چودھویں اٰیت تک آنے والی چودہ اٰیات کے چودہ ضمنی مضامین کا ایک نمائندہ مضمون ہے جبکہ اِس سُورت کا دُوسرا مرکزی مضمون جو اِس سُورت کی پندرھویں اٰیت سے لے کر اِس سُورت کی تیسویں اٰیت تک پھیلا ہوا ہے وہ بعد میں آنے والی اُن سولہ اٰیات کے اُن سولہ مضامین کا ایک نمائندہ مضمون ہے جو اُس مرکزی مضمون کے ضمن میں آئے ہیں اور اِس سُورت کے اِن دونوں نمائندہ مضامین کا مُشترکہ موضوعِ سُخن انسان کا زمین پر حیات بسر کرنا اور اِس عرصہِ حیات کے دوران اپنے حاکمِ حیات کے اٙحکامِ حیات پر عمل کرنا ہے ، اِس سُورت کی پہلی اٰیت کا پہلا لفظ { تبٰرک } بروزنِ { تقابل } ہے جو اُس کے بابِ { تفاعل } سے آیا ہے اور اُن دو عاملین کے اعمال کے اظہار کے لئے آیا ہے جن میں سے ایک عامل اور ایک معمول ہوتا ہے اور اِس عمل کے دوران اُس عامل کی ذات سے جو عمل ظاہر ہوتا ہے اُس عمل کو اُس کا وہ معمول بھی اِس بنا پر قبول کرلیتا ہے کہ اُس عامل کا وہ عمل اُس معمول کی خواہشِ حیات و بقائے خواہشِ حیات کے عین مطابق ہوتا ہے جس کی مثال اٙشیاء کی وہ معروف برکت ہے جو معروف برکت اُن اشیاء میں اُن اشیاء کا خالق پیدا کرتا ہے لیکن خالق کا یہ عمل مخلوق کے اُن تمام اٙفراد کی خواہش کے عین مطابق ہوتا ہے جن اٙفراد کے استعمال میں آنے والی اُن اشیاء میں وہ برکت پیدا ہوتی ہے ، اِس اٰیت کا دُوسرا لفظ اسمِ واحد { یٙد } بروزنِ حٙد ہے جو ہر زندہ وجُود کا وہ طاقت ور آلہِ استعمال ہوتا ہے جو ہر زندہ وجُود اپنے استعمال میں لاتا ہے لیکن اِس اٰیت کے اِس خاص مقام پر اِس سے اللہ کے دستِ قُدرت کی وہ قُوت و قُدرت مراد ہے جس قُوت و قُدرت سے وہ جہان پر جہان بنا رہا ہے اور جس قُوت و قُدرت سے اپنے ہر جہان کو چلا رہا ہے اور اِس اٰیت کا تیسرا لفظ اسمِ واحد مُلک ہے جو اپنے اِس مٙحلِ استعمال کے اعتبار سے جس مقصد کے لئے یہاں پر لایا گیا ہے اُس کا حاصل یہ ہے کہ اِس عالٙمِ نظر میں جو کُچھ دیکھا جا سکتا ہے اور اِس عالٙم کے ماورائے نظر کے حوالے سے جو کُچھ سوچا جا سکتا ہے وہ اللہ کا وہ دیدہ و پوشیدہ عالٙمِ بیکراں ہے جو اللہ ہی کی تخلیق کی گئی ایک مملکت ہے اور اِس مملکت کی ہر دیدہ و نادیدہ چیز اُسی کے دستِ قُدرت میں ہے اور اُس میں مُسلسل بڑھنے اور مُتواتر پھیلنے کا جو عمل جاری ہے اُس عمل کا عامل بھی اللہ ہے اور جن چیزوں میں بڑھنے اور پھیلنے کا یہ عمل جاری ہے وہ چزیں خود بھی چاہتی ہیں کہ اُن میں بڑھنے کا یہ عمل مُسلسل جاری رہے لیکن یہ بات صرف اللہ کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ کس وقت تک کس چیز کو بڑھانے اور پھیلانے کا عمل جاری رکھتا ہے اور کس وقت پر کس چیز کے گھٹانے یا فنا کر دینے کا فیصلہ نافذ کرتاہے ، اِس سُورت کے اِس خطاب کا مخاطب چونکہ انسان ہے اِس لئے انسان کو اِس خطاب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے اِس وسیع عالٙم کی جُملہ اشیائے عالٙم کا ایک مقام سے دُوسرے مقام تک جانے اور وسعت پانے کا اپنا اپنا ایک مقررہ طریقہِ عمل ہے اور انسان کے اِس ارتقائے عمل اور اِس وسعتِ عمل کا مقرر کیا گیا طریقہ موت و حیات ہے اور اِن میں حیات جتنی بڑی حقیقت ہے موت بھی اتنی ہی بڑی حقیقت ہے لیکن حیات کا وجُود ظاہر ہونے کے بعد انسان ایک مُدت تک اُس حیات کو اُس حیات میں رہ کر دیکھتا پرکھتا اور یاد رکھتا ہے بخلاف اِس کے کہ جس وقت اُس پر موت کا وجُود ظاہر ہوتا ہے تو اُس وقت بھی اگرچہ وہ موت کے وجُود کو حیات میں رہ کر حیات کی طرح ہی دیکھتا ہے لیکن اُس وقت وہ اِس دُنیا کے بجائے اُس دُنیا میں ہوتا ہے جو ہماری نظر میں نہیں ہوتی بلکہ خیالِ نظر میں ہی ہوتی ہے اِس لئے اگر انسان موت کے اُس ظہور کو یاد بھی رکھتا ہے تو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ہمارے حلقہِ بیان سے نکل کر ایک دُوسری دُنیا میں جا چکا ہوتا ہے ، حیات و موت کے اِن دونوں عملی و خیالی تجربوں میں فرق یہ ہے کہ حیات کسی جگہ پر کُچھ دیر تک رُکنے کا ایک فعال عمل ہے اور موت ایک جگہ سے دُوسری جگہ تک جانے کا ایک مُختصر سا غیر فعال عمل ہے اور انسان کے اِس سارے عملِ حیات میں خالقِ عالٙم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ جس انسان کو جس جگہ پر رُک کر جو عمل کرنے کا اور جس جگہ سے رُکنے کے بعد آگے بڑھنے کا جو حُکم دیا تھا اُس نے اسی طرح اُس پر عمل کر کے ارتقائے حیات کے اٙگلے مرحلے میں جانے کی تیاری کرلی ہے یا اُس نے عارضی طور پر رُکنے کی اُسی عارضی جگہ پر دل لگا کر خود کو اتنا خراب کر لیا ہے کہ جب ہم اُس کو اُس کے ارتقائے حیات کے اٙگلے مرحلے کی طرف بڑھانا چاہتے ہیں تو وہ اُس مرحلے کے وجُود سے ہی انکار کر دیتا ہے اور اگر وہ ہمارے حُکم کے برعکس واقعی ایسا ہی کرتا ہے تو وہ ہمارے نظام سے بغاوت کر کے ہماری اُس سزا کا مستحق ہو جاتا ہے جس سزا کا اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ہے ، انسان کا ایک جہان سے دُوسرے جہان میں جانے کا جو سفر ہے اُس سفر کا پہلا اصول لفظِ { وفا } ہے جس کو عرب اہلِ زبان اُس وقت بولتے ہیں جب ایک انسان دُوسرے انسان کو دل و جان کے اُن سارے جذبوں کے ساتھ چاہتا ہے جو اُس کے دل و جان کے بس میں ہوتے ہیں اور پھر اُس وفا میں کبھی وہ مقام بھی آجاتا ہے کہ دل و جان سے چاہنے والے انسان کے دل جان کُچھ اتنے ہٙلکان ہو جاتے ہیں کہ وہ کُچھ کرنے نہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا اور اُس کی اِس دُوسری کیفیت کا نام موت ہے ، قُرآن نے حیات و موت کی اِن دونوں انسانی کیفیات کو مُتفیت و ممیت کی معروف اصطلات کی صورت میں بیان کیا ہے ، قُرآن کی پہلی اصطلاح متوفی کا معنی کسی سے حاصل کی گئی پوری کی پوری چیز کو اُسی حالت میں واپس دینا ہوتا ہے اور اِس پوری کی پوری چیز سے مُراد اُس کی مقداری حالت نہیں ہوتی بلکہ اُس کی معیاری حالت ہوتی ہے اسی لئے اِس کے جسم کی مقدار زمین میں رہ جاتی ہے اور اُس کے جسمانی عمل کا معیار خُدا کے پاس چلا جاتا ہے ، اِس خُدائی ضابطے پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خُدا کا خُدائی ضابطہ صرف یہ ہے کہ انسان کو جس حال میں ہم نے دُنیا کے حوالے کیا ہے وہ اُسی حال میں ہمارے پاس واپس آئے اور ہم نے جو فطری سیرت و بصیرت اُس کو دی ہے وہی فطری سیرت و بصیرت لے کر ہمارے پاس آئے گا تو ہماری جنت میں داخل کیا جائے گا اور اگر وہ اپنی فطری سیرت کو بگاڑ کر آئے گا تو اُس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا ، بالفاظِ سہل اللہ نے انسان سے اِس سے زیادہ کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں ہے کہ ہم نے اُس کو جس فطری سیرت و بصیرت کے ساتھ دُنیا میں بہیجا ہے وہ اُسی فطری سیرت و بصیرت کے ساتھ ہمارے پاس واپس آئے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467368 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More