زیرِ فرمانِ زمین کے نافرمان مکین !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُلک ، اٰیت 15 تا 22 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھو
الذی جعل
لکم الارض ذلولا
فامشوا فی مناکبھا
و کلوا من رزقہ و الیہ
النشور 15 ءامنتم من فی
السماء ان یخسف بکم الرض
فاذا ھی تمور 16 ام امنتم من
فی السماء ان یرسل علیکم حاصبا
فستعلمون کیف نذیر 17 ولقد کذب
الذین من قبلھم فکیف کان نکیر 18 او
لم یروا الی الطیر فوقھم صٰفٰت و یقبضن
ما یمسکھن الا الرحمٰن انہ بکل شئی علیم 19
امن ھٰذالذی ھو جند لکم ینصرکم من دون الرحمٰن
ان الکٰفرون الا فی غرور 20 امن ھٰذالذی یرزقکم ان
امسک رزقہ بل لجوا فی عتو و نفور 21 افمن یمشی مکبا
علٰی وجھہ اھدٰی امن یمشی سویا علٰی صراط مستقیم 22
یہ اُسی مالکُ المُلک کی بے مثال قُوتوں اور لازوال قُدرتوں کا ایک ایمان پرور بیان ہے جس نے زمین کو تُمہارے زیرِ فرمان کیا ہوا ہے اور جس نے زمین کی ساری سمتوں میں تُم کو چلنے پھرنے کا راستہ بھی دیا ہوا ہے تاکہ تُم زمین کی راہوں پر چلو پھرو اور اِس کے بچھے ہوئے دستر خوان پر اپنے حصے کی روزی بھی تلاش کیا کرو اور زمین پر اپنی مُدتِ حیات پوری کرنے کے بعد اپنے خالق کے دُوسرے جہان میں حسابِ عمل کے لئے پُہنچ جاوؑ اور تُم اِس بات پر بھی غور کرو کہ تُم اُس مالکُ المُلک کے جہان میں اُس کی رحمت و مہربانی کے بغیر اتنے ہی بے بس ہو کہ اگر وہ اپنے دفترِاعلٰی کے مقامِ اعلٰی سے زمین پر تُمہارے جسموں کو نگل جانے کا حُکم نافذ کر دے یا پھر زلزلے کا ایک جٙھٹکا دے کر تُم کو زمین میں زندہ در گور کر دے تو تُم اپنے بچاوؑ کے لئے کُچھ بھی نہیں کر سکتے ہو ، اگر تُم اُس کی اِس سزا کو جانتے ہو تو پھر تُم اُس کی اِس سزا کو دیکھنے کے لئے اُس وقت کا کیوں انتظار کر رہے ہو کہ وہ تُم پر آسمان سے پتھر برساکر یا ایسی ہی کوئی دُوسری ناگہانی آفت ڈھا کر تُم کو یقین دلائے کہ وہ کس کو کب اور کس طرح سزا دیتا ہے حالانکہ اِس کتابِ ناطق نے تُم کو ماضی کی اُن اقوام کا احوال بھی سنا دیا ہے جو تُم سے پہلے تُمہاری ہی طرح باغی و سر کش ہو کر اپنے بُرے اٙنجام کو پُنچ چکی ہیں ، اگر تُم نے اپنی اِس ذہنی پستی اور اپنی اِس جانی ناتوانی سے جان چھڑانی ہے تو تُم فضائے بسیط میں تیرنے والے ہمارے اُن وزنی پرندوں کی طویل پرواز پر نگاہ ڈالو جو اپنے اِس یقین کے ساتھ ہوا میں تیرتے چلے جا رہے ہیں کہ اُن کا دیکھنے والا اِس فضا میں اُن کو دیکھ بھی لیتا ہے اور اُن کا تھامنے والا اِس فضا میں اُن کو تھام بھی لیتا ہے ، یقین جانو کہ پرندوں کو فضا میں اُڑانے اور خطرات سے بچانے والے اُس خالق و مالک کے اُن پوشیدہ لشکروں کے سوا کوئی بھی لشکر تُم کو آفاتِ جہان سے نہیں بچا سکتا تو پھر تُم مُنکر بن کر اُس کے منکروں کے ساتھ کیوں کھڑے ہو اور تُم ایک لحظے کے لئے کبھی اِس حقیقت پر بھی غور کرلو کہ اگر وہ اپنے منکروں پر غضبناک ہو کر تُمہاری رزق رسانی روک لے تو تُم رونے دھونے کے سوا کُچھ بھی نہیں کر سکتے ، پھر کیا وجہ ہے کہ تُم زمین پر انسانوں کی طرح سر اُٹھا کر جینے کے بجائے چوپائیوں کی طرح سر جُھکا کر جی رہے ہو ، تُم زمین کی اِس سربلند و سر نگوں مخلوق کی حالت دیکھو کہ اِن میں سے تُم کو سر اُٹھا کر چلنے والی مخلوق بھلی لگتی ہے یا سر جُھکا کر چلنے والی مخلوق بھلی لگتی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
گزشتہ اٰیات و مفہومِ اٰیات کے نتیجہِ کلام میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اُس مالکُ المُلک نے انسان کو اپنے جس مشروط ضابطے کے ساتھ اپنی اِس دُنیا میں رہنے کی اجازت دی ہے اُس ضابطے پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے انسان کو جس وقت دُنیا کے اِس گوشہِ زمین میں آنے اور رہنے کی اجازت دی تھی تو وقت انسان جس پرانے جہان سے اِس نئے جہان میں آیا تھا تو اِس کے پاس اُس جہان کی ایک فطری سیرت و بصیرت بھی موجُود تھی اِس لئے انسان کو اِس اٙمر کا پابند بنایا گیا تھا کہ اُس نے اِس زمین پر اپنے عرصہِ حیات کےدوران اُس پہلے جہان کی فطری سیرت و بصیرت کو اپنی پہلی حالت میں بچا کر رکھنا ہے کیونکہ اُس کی وہ فطری سیرت و بصیرت ہی اُس کی وہ پہچان ہے جس پہچان کی بنا پر اُس کو دوبارہ اُس جنت میں جانے کی اجازت دی جائے گی جہاں پر اس کے لئے وہی قلبی و رُوحانی راحت ہوگی جس کی اُس کے دل میں آرزُو ہے لیکن اگر اُس کے پاس اپنی وہ قدیم خُدائی پہچان نہیں ہوگی تو اِس کو اُس راحت بھری جنت میں جگہ دینے کے بجائے اُس رٙنج بھری جہنم میں جگہ دی جائے گی جس کا اِس کے دل میں خوف ہے اُس خوف کی بنا پر وہ اُس جہنم سے پناہ مانگتا ہے تاہم سُورٙةُالبقرة کی اٰیت 38 کے مطابق اُس وقت انسان کو یہ یقین دھانی بھی کرادی گئی تھی کہ دُنیا میں زیادہ دیر رہنے کے بعد چونکہ وہ اپنا پہلا احوال بُھول جائے گا اِس لئے اللہ تعالٰی حیاتِ دُنیا میں انسان کے پاس ایک مُدت تک اپنے وہ نمائندے بہیجتا رہے گا جو اُس کو اُس کی وہ قدیم فطری سیرت و بصیرت پر قائم رہنے کی تعلیم دیتے رہیں گے اور جو اہلِ زمین اُن پر ایمان لائیں گے اور اُن کی اُس عظیم تعلیم کو تسلیم کریں گے تو اُن کو رٙنجِ دُنیا سے آزاد اور راحتِ عُقبٰی سے شاد کردیا جائے گا بخلاف اس کے کہ جو لوگ اُن پر ایمان نہیں لائیں گے اور اُن کی اُس عظیم تعلیم کو تسلیم نہیں کریں گے تو اُن کے لئے دُنیا جہنم بنا دی جائے گی اور اِس زمین پر آنے والی موت کے بعد وہ جس زمین میں جائیں گے وہ اُن کی زمینی جہنم سے کہیں زیادہ ہولناک ہوگی اور اٙب اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اُس پہلے مضمون کے اِس کلمہِ تمہید کے بعد اِس دُوسرے مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ انسان اِس دُنیا کے جس ماحول میں رہ رہا ہے اِس ماحول میں اِس کے پاس اِس کےسوا کوئی چارہِ کار نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے اٙحکام پر عمل کر کے اِس جہان سے نکلنے اور دُوسرے جہان میں جانے کے لئے آزاد ہو کیونکہ اِس نے پہلے جہان میں جو غلطی کی تھی اُس غلطی کی سزا برائے اصلاح کے لئے اُس کو اِس زمین کے اِس ماحول میں لایا گیا ہے جہاں پر اس کے لِئے صورتِ حال اتنی غیر یقینی ہے کہ لٙمحہِ حاضر کے بعد کسی ایک لٙمحے کی صورتِ حال کے بارے میں کُچھ جاننا اِس کے بس کی بات نہیں ہے اِس لئے موجودہ اٰیات میں اِس کے سامنے یہ دو سوال رکھے گئے ہیں کہ اگر اِس کے موجُودہ جرائم کی سزا کے طور پر اِس کو زمین میں دھنسا دیا جائے یا زلزلے کے ایک جٙھٹکے سے اِس کو زندہ در گور کر دیا جائے تو وہ اِس سزا کے خلاف کیا کر سکتا ہے اور جواب یہی ہے کہ کُچھ نہیں کر سکتا اور پھر اس کے سامنے دُوسرا سوال یہ رکھا گیا ہے کہ اگر اس پر کوئی ناگہانی آسمانی آفت ڈال دی جائے تو وہ اس سے بچاوؑ کے لئے کیا کر سکتا ہے اور اس سوال کا بھی جواب یہی ہے کہ انسان کسی ناگہانی آسمانی آفت کے مقابلے میں کُچھ بھی نہیں کر سکتا اور پھر ان دو فطری و فکری سوالات کے بعد انسان کو فضا میں پرواز کرنے والے پرندوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ یہ پرندے کس طرح اپنے اُن وزنی جسموں کے ساتھ اس طرح تیر رہے ہیں جس طرح سمندر میں مچھلیاں تیرتی ہیں اور اِن میں سے بعض طاقت ور پرندے فضا میں بھی کم زور پرندوں کا شوقیہ شکار جاری رکھتے ہیں جن کو وہ خالق و مالک اُن طاقت ور پرندوں سے بچانے کے لئے اُس فضا میں بچانے کا بھی بر وقت انتظام کرتا ہے جس کی ایک دل چسپ مثال یہ بھی ہے کہ اُلّو جو اپنے قد کے دُوسرے پرندوں سے بوجوہ کم زور ہوتا ہے قُدرت نے اُس کی پروں کی آواز ہی ختم کر دی ہے تاکہ فضا میں وہ اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی وجہ سے کسی طاقت ور شکرے کا شکار نہ بن جائے اور فضا کے ہر پرندے کو اُس مالکُ المُلک نے یہ تعلیم بھی دے دی ہے کہ اُس نے فضا میں کس سمت سے کس سمت میں اُڑنا ہے اور کس رفتار سے اُڑنا ہے ، عام خیال اگرچہ یہی ہے کہ اللہ نے پرندوں کی اِس پر واز کا ذکر کر کے انسان کو اپنی قُوت و قُدرت کا یقین دلایا ہے لیکن انسانی مشاہدے میں عام طور پر آنے والی پرندوں کی یہ پرواز کوئی اتنی پیچیدہ بھی نہیں تھی کہ قُرآن میں اِس کے مادوں اور مصادر کا کم و بیش 28 بار ذکر کر کے اِس کو اتنی اہمیت کے ساتھ بیان کرنا لازم ہوتا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عام خیال کتنا بھی قوی کیوں نہ ہو اُس تفصیل کا حامل بہر حال نہیں ہے کہ اِس تفصیل سے ذکر کیا جائے سوائے اِس کے کہ ہے اللہ کا انسان کو یہ ترغیب دینا مقصود ہو کہ وہ بھی فضاوں اور ہواوں میں تیرنے والے ان پرندوں کی طرز پر اپنے لئے وہ سواریاں بنائے جن پر سوار ہو کر وہ دُور کے ایک مقام سے دُور کے ایک مقام تک جائے اور اپنی زندگی کو آسان سے آسان تر بنائے ، اِس سلسلہِ کلام کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے اُن نادیدہ لشکروں کا ذکر کیا ہے جو زمین و فضائے زمین میں اسی طرح انسان کی خدمات بجالانے پر مامور ہیں جس طرح یہ زمین اور یہ آسمان دونوں ہی انسان کی خدمات بجالانے پر ما مور ہیں اور انسان کو اِس ضمن میں قُرآن نے جو آخری ہدایت دی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر اپنے سیدھے اور کھڑے قد کے ساتھ چلنے پھرنے والی ایک با وقار مخلوق بنایا ہے اِس لئے وہ زمین پر حیوانِ ناقص کی طرح اُوندھا ہو کر چلنے کے بجائے حیوانِ ناطق کی طرح ہمیشہ سیدھے قد کے ساتھ چلے تاکہ اِس کے اِس کا زاویہِ خیال بھی اِس کی چال کی طرح سیدھا رہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461250 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More