ہندوں معاشرے میں تو ستی کی رسم لیکن ہم بھی کسی سے کم نہیں... شادی اور طلاق پاکستانیوں کے لیے صرف ایک کھیل کیوں؟

image
 
کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی شادی کیوں کرتے ہیں؟ ہم ان کے لئے ایسا لائف پارٹنر ڈھونڈتے ہیں کہ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ جائے۔ وہ خوبصورت، امیر، پڑھا لکھا ہو اس کا رہن سہن شاندار ہو۔ یا دوسری طرف ایک مڈل کلاس سوچ یہ بھی ہے کہ لڑکی کی عمر نکلی جا رہی ہے پھر اچھے رشتے آنے بند ہو جائیں گے یا خاندان میں لڑکی کی عمر کی تمام لڑکیوں کی شادیاں ہو گئیں ہماری بچی کی ابھی تک نہیں ہوئی۔۔۔۔۔ وہ بچے جن کو ہم اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں پھر ہم معاشرتی دباؤ کے سامنے ہم ہار جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہندو معاشرت کے اثرات بہت گہرے ہیں اگر شادی کے بعد خدانخواستہ جوڑوں کی نبھ نہ سکے اور طلاق ہو جائے تو ہندو معاشرے میں تو ستی کی رسم ہے لیکن ہمارا معاشرہ بھی کچھ پیچھے نہیں ہے-
 
طلاق شدہ لڑکی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ درگزر کر کے زندگی کسی طرح گزار ہی لیتی یعنی طلاق کو ایک کلنگ کا ٹیکہ سمجھا جاتا ہے- یہ سوچ صرف لڑکیوں کے لئے ہے اور ان لڑکیوں کی دوبارہ شادی کا سوچنا تو درکنار ان کی زندگی کو نشان عبرت سمجھا جاتا ہے۔ یعنی اس بے چاری کو جیتے جی مار دیا جاتا ہے جبکہ اسلامی احکامات کے مطابق طلاق کے بعد دوسری شادی کو بالکل معیوب نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ نکاح کو ایک پاکیزہ معاشرے کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ آخر ہمارا معاشرہ اتنا مشکل کیوں ہے؟
 
بچے شادی کی عمر کو پہنچتے ہیں تو ان کی شادی کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہوتا ہے شکر ہے ابھی ہماری یہ روایات قائم ہیں کہ بچے شادی کے لئے والدین کی رضامندی چاہتے ہیں۔ عموماً ہمارے یہاں لڑکے والے لڑکی کے گھر رشتہ لے کر جاتے ہیں اس مقصد کے لئے بہت ساری لڑکیاں دیکھی جاتی ہیں کیونکہ اپنے مقصد کی لڑکی ملنا اتنا آسان تو نہیں ہوتا۔ کافی ساری لڑکیاں مسترد کرنے کے بعد تلاش میں کامیابی ہو ہی جاتی ہے۔ اب وہ ریجیکٹ کی ہوئی لڑکیوں کو کیسا لگتا ہوگا وہ تو لڑکے کے گھر والوں کا درد سر نہیں۔ اب لڑکی ملنے کے بعد شادی کی تیاریاں ہیں ایسی شادی کرنی ہے کہ لوگ دنگ رہ جائیں۔
 
image
 
اس مقصد کے لئے شادی کے جوڑوں سے لے کر شادی کے انتظامات تک ہر چیز پر اس طرح خرچہ کیا جاتا ہے کہ لگے کوئی شاہی خاندان ہے۔ لوگ شادی پر آتے ہیں جنہوں نے خوش ہونا ہوتا ہے ان کو آپ کے خرچے متاثر نہیں کرتے بلکہ وہ آپ کے خیر خواہ ہوتے ہیں اس لئے خوش ہوتے ہیں اور جو آپ کے خیرخواہ نہیں ہوتے وہ آپ کی ہر محنت کا جواب تنقید سے ہی دیتے ہیں۔ یعنی آپ یہ سب نمودو نمائش ان لوگوں کے لئے کرتے ہیں جنہوں نے کسی حال میں خوش نہیں ہونا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اسلامی روایات کے مطابق سادگی سے شادی کریں۔ شادی پر ہونے والے فضول اخراجات کو روک کر کیوں نہ لڑکا لڑکی کو عمرہ یا حج پر بھیج دیا جائے۔ اس طرح وہ جوانی کی عمر میں اپنے ایک مذہبی فرض کو صحیح وقت پر ادا کر سکیں گے اور نئی زندگی کا آغاز بھی اچھے طریقے سے ہو جائے گا۔ یہ کوئی آسمانی باتیں نہیں ہیں انڈؤنیشیا اور ملیشیا میں یہ ہی رواج ہے۔
 
اب شادی تو ہو گئی انتہائی شاندار اب نئے جوڑے کی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اگر دونوں میں اخلاقیات کی دولت سے مالا مال ہیں تب تو زندگی بہت اچھی نبھے گی لیکن خدانخواستہ کوئی ایک بھی اخلاقیات سے بے بہرہ ہے تو زندگی کی مشکلات شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ شادی کرتے ہوئے یہ چھان بین تو کی نہیں گئی تھی کی لڑکا یا لڑکی کی تربیت کس طرح سے کی گئی ہے۔ زمانہ اتنا مادیت پسند ہو گیا ہے کہ بس ظاہری نمودو نمائش ہی کافی ہے باقی لڑکے کی تربیت کے لئے اس کی بیوی آ تو رہی ہے۔ اب اس سے بھی آگے کا مرحلہ آتا ہے ضروری نہیں تمام شادیاں نبھ جائیں بعض اوقات حالات اتنے خراب ہو جاتے ہیں کہ بات طلاق کی نوبت تک آ جاتی ہے۔ اور طلاق ہو گئی تو ہمارے معاشرے میں ایسی عورت کی زندگی تو ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان تمام معاملات کی وہ خود ذمہ دار ہے وہ چاہتی تو صبر سے کام لے سکتی تھی۔
 
ایسی عورت دوسری شادی کا تو سوچ بھی نہیں سکتی وہ بچوں کے نام پر قربانی دیتی ہے بچوں کے باپ کو بھی تو طلاق ہوئی ہوتی ہے وہ تو ذوق و شوق سے دوسری شادی کر لیتا ہے۔ سوتیلا باپ یا ماں کا ہونا بچوں کے لئے ایک کڑا امتحان ہوتا ہے اگر سوسائٹی میں اس بات کو معیوب نہیں سمجھا جائے گا تو دوسرا شوہر یا دوسری بیوی ان بچوں کو بوجھ نہیں سمجھیں گے کیونکہ یہ بچے انکے لائف پارٹنر کا حصہ ہی تو ہوتے ہیں ہمارے نبی پاک ﷺ اور صحابہ کی زندگیوں پر نظر ڈالیں اسلامی معاشرت ہندو معاشرت سے بالکل مختلف ہے سعودی معاشرے میں سوتیلی اولاد کو خاندان کا حصہ سمجھا جاتا ہے حادثات تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں زندگی تو آگے گزارنی ہوتی ہے آخر طلاق یافتہ عورت اپنے تمام جذبات کو کیوں مار دیتی ہے؟ دنیا میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ ہیں اور انسان کو زندگی گزارنے کے لئے ایک مخلص ساتھی کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ ہمارا ملک تو اسلام کے نام پر بنا تھا۔
 
image
 
صورت اور دولت آج ہے کل نہیں بھی ہو سکتی ہے یا دولت آج نہیں ہے تو قسمت سے کل آ بھی سکتی ہے، لیکن جس انسان کی تربیت اچھی نہیں ہوئی ہے اس کا سدھرنا شاید ناممکن ہی ہوتا ہے۔ رشتے جوڑتے ہوئے ان چیزوں کو دیکھنا بہت اہم ہے کیونکہ ہم تو اپنی اولاد کو ہنستا بستا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ خود بھی خوش رہیں اور ان کی نسلیں بھی معاشرے کے لئے فعال ہوں۔ ہمیں شادی پر ہونے والے خرچوں کی پلاننگ سے نکل کر ایک بڑے کینوس پر سوچنے کی ضرورت ہے بہتر ہے کہ طویل مدتی منصوبہ بندی کی جائے اپنی سوچ کو بہت واضح رکھیں ،لائف پارٹنر کے اندر کن خصوصیات کا ہونا لازم ہے کیونکہ شادی زندگی کا ایک بہت اہم فیصلہ ہوتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: