سہل پسندی کبھی بھی سستی نہیں پڑتی بلکہ موقع جتنا بڑا ہو، قیمت بھی اس قدر
زیادہ چُکانا پڑتی ہے۔ بالخصوص جب فریقِ مخالف بھرپور محنت اور مکمل حکمتِ
عملی سے لیس ہو تو اسی سہل پسندی کو گلے کا طوق بنتے بھی دیر نہیں لگتی۔
گذشتہ چند ماہ سری لنکا کے لیے جس قدر جاں گسل اور صبر آزما رہے ہیں، ایشیا
کپ کی ٹرافی یقیناً ان غموں کا کچھ تو مداوا کر ہی جائے گی۔ نہ صرف یہ ٹیم
گذشتہ ورلڈ کپ میں خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا پائی تھی بلکہ یہ حقیقت ابھی
بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مہینہ بھر بعد آسٹریلیا میں کھیلے جانے والے ٹی
ٹونٹی ورلڈ کپ کے لیے بھی اسے کوالیفائی کرنا ہو گا۔
تاہم فی الحال کرس سلورووڈ نے کوالیفکیشن سے جڑے سبھی خدشات کو ہوا میں اڑا
دیا ہے۔ یہ گزرا سال سری لنکن کوچ کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ جس طرح
کی ٹیم مکی آرتھر ان کے حوالے کر کے گئے تھے، اسے بہت بہتر الفاظ میں بھی
محض ’دلچسپ‘ اور ’پُرجوش‘ قرار دیا جا سکتا تھا کیونکہ تمام تر ٹیلنٹ اور
پوٹینشل کے باوجود کریڈٹ پر دکھانے کو کچھ ایسی روشن فتوحات موجود نہ تھیں۔
مگر سلورووڈ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ٹیم بنانا جانتے ہیں۔ نہ صرف وہ
ٹیلنٹ اور صلاحیت سے بھرپور گروہ کو ایک یونٹ میں بدلنے کی مہارت رکھتے ہیں
بلکہ بڑے بین الاقوامی ایونٹس میں مخالف ٹیموں کو انگشت بدنداں کر چھوڑنے
میں بھی طاق ہوتے جا رہے ہیں۔
کل شب شاناکا کی ٹیم نے بابر اعظم کو انگشت بدنداں کر چھوڑا۔ اپنے سبھی
شائقین کی طرح بابر اعظم بھی بہت پُرامید تھے کہ وہ فائنل میں ایک بڑی
اننگز کھیل کر نہ صرف اپنی فارم بحال کریں گے بلکہ اپنی قیادت میں ایشیا کی
حکمرانی کا تاج بھی اپنی ٹیم کے سر سجائیں گے مگر ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔‘
لیگ سٹمپ سے باہر جاتی، پرامود نے وہ گیند بظاہر بہت بری لائن اور لینتھ پر
پھینکی تھی اور اس گیند میں کسی بھی اعتبار سے اتنی قیمتی وکٹ حاصل کرنے کی
صلاحیت نہ تھی مگر جس طرح سے اگلے ہی لمحے بابر اعظم کی فلِک نے گیند کو
ہوا میں معلق کیا اور فائن لیگ فیلڈر نے وہ کیچ تھاما، اس سے گماں ہوتا ہے
کہ یہ بُری گیند جان بوجھ کر ایک پلان کے تحت پھینکی گئی تھی۔
کیونکہ بعض اوقات کسی بہت اچھے بلے باز کو چِت کرنے کے لیے بہت اچھی کی
بجائے بہت ہی بری گیند کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
بابر اعظم مگر کافی دیر تک یقین ہی نہیں کر پائے۔ وہ مایوس نگاہوں اور سپاٹ
چہرے کے ساتھ دوسرے کنارے پہ موجود محمد رضوان کو تکتے رہے گویا شکوہ کر
رہے ہوں کہ یہ کیسے ہو گیا۔ اپنے تئیں انھوں نے لیگ سٹمپ سے باہر جاتی اس
گیند کو فائن لیگ باؤنڈری کے پار رسید کیا تھا مگر نجانے کیسے یہ مدھو شنکا
کے ہاتھوں میں منتج ہوئی اور بابر کو ڈریسنگ روم لوٹنا پڑا۔
مگر ذرا پیچھے دیکھا جائے تو یہاں بابر اعظم کی یہ بے بسی یہاں کچھ بے محل
سی دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ ان کی الجھن اور جھنجھلاہٹ تو اس سے گھنٹہ بھر
پہلے ہی شروع ہو چکی تھی جب پاکستانی پیسرز نے پوری طرح سری لنکن بیٹنگ کا
ٹینٹوا دبا رکھا تھا اور 150 تک رسائی بھی جوئے شیر لانے کے مترادف نظر آ
رہی تھی۔
تب وہاں ذرا سی اور جارحیت دکھا کر سری لنکن اننگز کا بستر گول کرنا ضروری
تھا۔
لیکن تب بابر اعظم نے اپنے طے شدہ پلان کی بقا کو ترجیح دی اور جو سوچ کر
ڈریسنگ روم سے نکلے تھے، اسی کے مطابق اپنے بولرز کا کوٹہ سنبھالتے چلے
گئے۔ حالانکہ غور طلب بات تو یہ ہے کہ جب ایک ناتجربہ کار بیٹنگ یونٹ پہلے
نو اوورز میں محض 58 رنز کے عوض پانچ وکٹیں گنوا چکا تھا تو وہاں فکر مزید
پانچ وکٹوں کے حصول کی ہونا چاہیے تھی یا آخری پانچ اوورز کے لیے بولرز کا
کوٹہ بچانے کی؟
مگر بابر نے اپنے پیسرز پہ اس اعتماد کا اظہار نہیں کیا جس کے وہ متقاضی
تھے۔ حارث رؤف نے سری لنکن ٹاپ آرڈر کے سارے پلان ملیامیٹ کر چھوڑے تھے مگر
بابر اعظم پہلا موقع ملتے ہی سپنرز کو اٹیک میں لے آئے۔ حالانکہ جب
ایکسپریس پیس سے سو فیصد نتائج مل رہے تھے تو سپنرز کو آزمانے کی کیا ضرورت
تھی؟
یہی وہ مرحلہ تھا جہاں پاکستان نے میچ پر اپنی گرفت ڈھیلی کی اور سری لنکا
کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ راجا پکسے ابھی کریز پر نئے نئے تھے اور
وہاں نسیم شاہ یا حارث رؤف کا مزید ایک اوور فیصلہ کن ثابت ہو سکتا تھا مگر
سپنرز کے سامنے انہیں بآسانی قدم جمانے کا موقع مل گیا۔
اس پہ طُرّہ یہ کہ فیلڈنگ نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ حالانکہ پاکستان
اپنی پلاننگ کی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود سری لنکن بیٹنگ کو 150 رنز تک
محدود کر سکتا تھا مگر فیلڈنگ میں سہل پسندی اور تن آسانی نے کم از کم بیس
اضافی رنز سری لنکا کی جھولی میں ڈال دیے۔
جبکہ سری لنکا نے پیس کے یکسر متضاد حکمت عملی اختیار کی اور پاکستانی بلے
بازوں کے عزائم پیس کی کمی کے سبب پروان ہی نہ چڑھنے پائے۔ سلورووڈ کے تھنک
ٹینک نے گویا نقشے کھینچ کھینچ کر ایک ایک پاکستانی بلے باز کے خلاف پوری
حکمتِ عملی طے کر رکھی تھی کہ کس کو کس لینتھ پہ کس پیس سے کون سی باؤنڈری
پہ کیچ کرنا ہے۔
اور ان کے بولرز نے سبھی پلان بخوبی نبھائے۔ پاکستان جس طرح کی فارم لے کر
اس ٹورنامنٹ میں چلا آ رہا تھا، اس کے لیے اس ٹرافی تک پہنچنا کوئی دشوار
گزار رستہ نہیں تھا مگر کپتان کی لگی بندھی کپتانی اور ٹیم کی سہل پسندی سے
معمور فیلڈنگ نے سری لنکا کے لیے راہ ہموار کر دی۔
|
|
Partner Content: BBC Urdu |