وزیراعلی خیبر پختونخواہ و وزیر کھیل کے نام ٹینس کے خاتون کوچ کا خط
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
میں آپ کو یہ خط اپنے ساتھ ہونیوالے جانبدارانہ رویہ پر لکھ رہی ہوں ، اس لئے کہ آپ ا س صوبے کے چیف ایگزیکٹو بھی ہے ، جبکہ عاطف خان بطور وزیر کھیل بھی آپ اس میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں. محترم!
میرا تعلق ضلع مہمند سے ہے والد میرے پاک آرمی سے ریٹائرڈ ہیں اور میں بطور پروفیشنل ٹینس کھلاڑی کی تین سال تک سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں کام کرتی رہی ہوں.حال ہی میں آنیوالے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس نے کوچز کی بھرتی کیلئے دوبارہ پراسیس شروع کیا گیا جس کا میں بھی حصہ ہوں اور انتظار میں ہوں کہ کب اس پراسیس کو مکمل کیا جائیگا گذشتہ دو ماہ سے مجھے تنخواہ ادا نہیں کی گئی جبکہ میرے ساتھ کام کرنے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے تمام کوچز کو تنخواہیں ادا کردی گئی. وجوہات معلومات کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہیں بتایا جارہا..
جناب عالی! میں نے اپنی ابتدائی تعلیم مہمند کے علاقے غلنئی سے مکمل کی ایف اے نیشنل کالج آف مینجمنٹ کمپیوٹر سائنس پشاور سے کیا ، تین سالہ ڈپلومہ کے علاوہ ڈی آئی ٹی میں بھی سرٹیفیکیٹ کورس بھی کیا. نہ صرف پاکستان بلکہ ملائیشیااور دبئی میں بین الاقوامی فرمز کیساتھ مختلف پوزیشن پر رہی ہوں. بلکہ میںنے سال 2015 سے بطور پروفیشنل ٹینس کھلاڑی کے پاکستان بلکہ بین الاقوامی مقابلوں میں بھی حصہ لیا ، جن میں ملائیشیاء اور شارجہ میں ہونیوالے مقابلے شامل ہیں.جن میں کچھ میں فاتح کھلاڑی رہی سال 2015 میں میری پوزیشن پاکستان میں تیسری رہی ، چوتھے بین الصوبائی مقابلوں سمیت انڈر 23 مقابلوں میں بھی حصہ لیا ۔
نیشنل گیمز میں بھی بطور کھلاڑی حصہ لیا .اسلام آباد سمیت پشاور میں مختلف مقابلوں میں حصہ لیا یوم آزادی سمیت قائد اعظم ٹرافی میں لیڈیز مقابلوں میں بطور کھلاڑی حصہ لیتی رہی ہوں.جس کی تفصیلات زیادہ تر آن لائن موجود ہیں اور گوگل سے بھی میری تمام معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ، انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کے مقابلوں میں بھی بطور کھلاڑی دبئی، تھائی لینڈ میں حصہ لیااسی طرح صوبائی ٹینس ایسوسی ایشن کے بطور کوچ ، امپائرنگ کے مختلف صوبائی تربیتی ورکشاپ میں بھی حصہ لیا ، جس کی تصاویر بھی میرے پاس موجود ہیں اور یہ سب کچھ آن ریکارڈ ہے . اسی کے ساتھ ساتھ ٹینس کوچنگ لیول ون کورس ترکی میں مکمل کیا جس کیلئے مجھے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے ہی بھیجا تھا.پاکستان ٹینل فیڈریشن کے کوچنگ کیمپ میںمنعقدہ شاہی باغ میں بھی حصہ لیا ، اسی طرح صوبائی سطح کے امپائرنگ کورس جو شاہی باغ میں صوبائی ٹینس ایسوسی ایشن نے کروایا تھا میں حصہ لیا تھا ، جبکہ انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن کے آن لائن ٹینس کوچنگ میں بھی حصہ لیا.
میں بطور فیمیل ٹینس کوچ کی تین سال سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کیساتھ منسلک ہوں. میں نے جب بطور ٹینس کوچ کے تربیتی سیشن کا آغاز کیا تو کوئی فیمیل کھلاڑی موجود نہیں تھی اور آج الحمد للہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ٹینس کورٹس میں مختلف عمر کی خواتین کھلاڑی موجود ہیں . جن میں بیشتر کی میں نے ہی حوصلہ افزائی کی اور آج کئی کھلاڑی ٹینس کے میدان میں موجود ہیں.قبل ازیں میں آرمی کیساتھ بطور ٹینس کوچ کے کام کرتی رہی ہوں لیکن مجھے ٹینس ایسوسی ایشن خیبر پختونخواہ کے عمر ایاز اور ڈائریکٹر سپورٹس اسفندیار خٹک نے صوبے میں فیمیل کھلاڑیوں کو ٹینس کی طرف لانے کیلئے کہا سو میں نے آرمی کو بطور کوچ چھوڑ کر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کوچنگ شروع کردی.
محترم! ٹینس کا صوبے میں یہ حال ہے کہ ایک مالی کو بطور کوچ رکھا گیا جو ابھی تک موجود ہیں . او ر وہ کھلاڑیوں کی تربیت کررہا ہے .میں اس حوالے سے بات کرتی رہی ہوں جو نہ صرف ٹینس ایسوسی ایشن بلکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے کچھ لولوگوں کو بری لگتی رہی ہیں یہ سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا تھا جب میں نے نیشنل گیمز2020 میں اپنی ٹیم جس میں مجھ سمیت عروج ، انعم اور حریم شامل تھی نے حصہ لیا تھا اس وقت میری ٹیم میں چار کھلاڑی موجود تھی جبکہ آٹھ دیگر کھلاڑیوں کو جنہوں نے نہ کبھی ٹینس کھیلی ہے نہ ہی کبھی کھیلنے کیلئے آئی البتہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ایک خاتون ڈائریکٹریس کے کہنے پر صرف ٹی اے ڈی اے وصول کرنے آتی رہی . جس کی تصدیق ریکارڈ سے بھی کی جاسکتی ہیں .
خواتین کیساتھ جانبدارانہ رویہ اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں رکھا جاتا ہے ، جن لوگوں نے محنت کی انہیں کوئی نہیں پوچھتا ، حال ہی میں ایک ایوارڈ جسے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک چہیتے ڈپٹی ڈائریکٹر نے من پسند خاتون کو دیا کے بارے میں بات کرنے اور غلط ایوارڈ دینے کے حوالے سے میری بات کو جواز بنا کر میرے ساتھ معاندانہ رویہ رکھا جارہا ہے . بطور کھلاڑی اور ٹینس کوچ کے نہ صرف ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا بلکہ مجھے ہراساں بھی کیا گیا جس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہی کچھ اہلکار موجود ہیں.ایک طرف خواتین کو کھیلوں کے شعبے میں لانے پر زور دیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف بڑے عہدوں پر بیٹھے چھوٹے لوگ ہمارے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں. جس کی تازہ ترین مثال ہماری ریکروٹمنٹ کا عمل بھی ہے.اس سلسلے میں جب میں نے خاتون ڈائریکٹریس سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھے یہ کہا گیا کہ ہم آپ کے ڈاکومنٹس جعلی ثابت کردینگے اور پھر آپ کام نہیں کرسکو گی. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فیمیل کھلاڑیوں کے کھیل کے نام پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات خاتون ڈائریکٹریس نے کبھی غلطی سے بھی میرے ٹینس کورٹ آکر مجھ سے لڑکیوں کے مسائل جاننے کی کوشش کی.جو ان کا مینڈیٹ بھی ہے اور اس خاتون کے ڈیپارٹمنٹ میں تیرہ سال کی نوکری میری تین سال کی نوکری پر بھاری ہے کیونکہ کم از کم فیلڈ میں رہ کر میں نے اپنے جیسے کھلاڑی تو پیدا کئے. جبکہ اس کے مقابلے میں خاتون ڈائریکٹریس سکولوں سے ہر سال طالبات کو لا کر اسے اپنی کارکردگی میں ڈال دیتی ہیں. اس کے علاوہ ان کے کریڈٹ میں کوئی نامور خاتون کھلاڑی بھی نہیں.
ان تمام مسائل میںکھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کا کردار بھی افسوسناک ہے جنہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا تعاون حاصل ہے انہوں نے بھی منافقت کی انتہاء کرتے ہوئے بعض دفعہ ایسے مسائل پیدا کئے کیونکہ بطور کوچ میںنے ان سے ڈسکس کئے تو انہیں میری لاعلمی میں انہیں ریکارڈ کرکے متعلقہ افراد کو پہنچایا گیا کہ یہ خاتون ٹینس کوچ ایشوز پر بات کررہی ہیں.جو کہ قابل افسوس اور قابل مذمت امر ہے .
ان تمام حالات میں میری آپ سے گزارش ہے کہ ایک انکوائری کمیٹی قائم کی جائے .جس میں وومن کمیشن سمیت غیر جانبدار صحافی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سیکرٹری سطح کے افراد شامل ہوں جو نہ صرف میرے ساتھ ہونیوالی معاندانہ رویہ بلکہ دیگر خواتین کھلاڑیوں کیساتھ ہونیوالے واقعات کی تحقیقات بھی کرے اورجو لوگ اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی سمیت ریکروٹمنٹ کا پراسیس بھی شفاف بنائے . ورنہ دوسری صورت میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں مختلف کھیلوں میں خواتین کھلاڑیوں کی آمد اور روزگار ایک خواب بن کر رہ جائے گا.. شکریہ
اورین جاسیہ ..
|