تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کے اس ناسور
معاشرہ جس میں حرام وحلال کی تمیز ختم رشتے ناطے ختم عدل و انصاف برائے نام
قصہ مختصر کہ یہاں پر تقریبا ہر شخص نفسا نفسی کا شکار ہو کر حکم خداوندی
کو ٹھکراتے ہو ئے انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کی سب سے بڑی
وجہ قانون شکن اور بالخصوص کم ظرف خاندانوں کے سپوتوں کی تعنیاتی جو اقتدار
کے نشہ میں دھت ہو کر اپنے آپ کو ہلاکو خان چنگیز خان پھتے خان اور نجانے
کیا کیا کہلواتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن کا کردار ہی اُن کے
خون کی عکاسی کردیتا ہے یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک شخص بادشاہ
کے در بار میں پہنچ کر عرض کی کہ میں بے روزگاری کا شکار ہو کر کئی ماہ سے
نو کری کیلئے جستجو کر رہا ہوں اگر آپ مناسب خیال کرے تو اپنے ہاں بندہ نا
چیز کو نو کر رکھ لیں جس پر بادشاہ نے اُس شخص سے پو چھا کہ آپ میں کو نسی
خا صیت ہے کہ جس کی بنا پر آپ کو یہاں نو کر رکھ لوں یہ سننے کے بعد اُس
شخص نے بادشاہ کو کہا کہ میں انسان ہو یا پھر جا نور میں اُس کی بو سو نگھ
کر اُس کی نسل بتا سکتا ہوں اُس شخص کی اس بات کو سننے کے بعد بادشاہ نے
اُسے اپنے اصطبل میں ملازم رکھ لیا کچھدنوں کے بعد بادشاہ اپنے اصطبل میں
پہنچااورایک نہایت ہی خوبصورت گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے
اصطبل کاسب سے زیادہ قیمتی گھوڑا ہے اس کی نسل کے بارے میں آپ کی کیارائے
ہے جس پر اُس ملازم نے بڑی عاجزیکے ساتھ عرض کرتے ہوئے کہا کہ عالیجاہ یہ
آپ کاگھوڑابد نسلاہے ملازم کی اس بات کوسننے کے بعد بادشاہ نے فل الفور
گھوڑے کے سابقہ مالک کو بلاکر پوچھاکہ آپ تو گھوڑے کی بہت تعریف کرتے تھے
کہ یہ گھوڑا اعلی نسل کاہے لیکن یہ تو بد نسلا نکلا اس کی وجہ کیاہے یہ
سننے کے بعد سابقہ مالک نے کہا کہ یہ واقعہ ہی بد نسلا ہے بچپن میں اس
گھوڑے کی والدہ فوت ہو گئی توہم نے اس کی پرورش گائے کے دودھ سے کی تھی
گھوڑیکے سابقہ مالک کی اس بات کوسننے کے بعد بادشاہ نے اپنے ملازم سے پوچھا
کہ تمھیں یہ کیسے معلوم ہواکہ ہمارا یہ گھوڑابد نسلاہے جس پر ملازم نے بڑی
عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہوئے کہا کہ اس کی خوراک کھانے کے انداز سے مجھے
معلوم ہو گیاتھا کہ یہ بد نسلاہے کچھ دنوں کے بعد بادشاہ پھراپنے ملازم سے
پو چھنے لگا کہ آپ میری رانی کے بارے میں کیارائے رکھتے ہویہ سن کر ملازم
گھبرا گیا اور بڑی عاجزی کے ساتھ بادشاہ کو کہنے لگا کہ میں معافی کاطلبگار
ہوں آپ کی رانی کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں ملازم کی اس بات کو سننے
کے بعد بادشاہ نے بضد ہوکر کہا کہ اگر آپ نے میری رانی کے بارے مجھے آ گاہ
نہ کیا تو میں تمھارا سر تن سے جداکر دوں گا ملازم نے جب بادشاہ کی اس بات
کوسناتو ڈرتے ڈرتے بادشاہ کو کہا کہ آپ کی رانی کا تعلق بھی کسی کم ظرف
خاندان سے ہے جس پر بادشاہ نے کہا کہ وہ کیسے جس پر ملازم نے کہا کہ محل کے
تمام ملازمین آپ کی رانی کی خد مت میں دن رات کو شاں رہتے ہیں جس کے بد لے
آپ کی رانی ہمیشہ اُن کی عزت و نفس کو مجروح کرتی رہتی ہے جس کایہ گھناؤنا
کردار اسکے خونکی عکاسی کرتا ہے بعد ازاں بادشاہ نے ملازم کی بات کی تصدیق
کی توبادشاہ کو اپنے ملاز کی یہ بات سچ ثا بت ہو ئی بالآ خر بادشاہ نے اپنے
ملازم سے پو چھاکہ تم میرے بارے کیارائے رکھتے ہوجس پرملازم نے بڑے سہمے
ہوئے انداز میں کہا کہ آپ بھی بد نسلے ہو اگر آپ واقعہ ہی شاہی خاندان سے
تعلق رکھتے ہوتے تو آپ خوش ہو کر مجھے ہیرے جواہرات دیتے لیکن آپ جبب بھی
مجھ سے خوش ہوتے ہیں تو مجھے انعام میں بھیڑ اور بکریاں دے دیتے ہیں جس سے
معلوم ہوتاہے کہ آپ کا تعلق بھی کسی چرواہے خا ندان سے ہے بعد ازاں بادشاہ
نے اسبات کی تصدیق اپنی والدہ ماجدہ سے کی تو معلوم ہوا کہ واقعہ ہی بادشاہ
ایک چر واہے کا بیٹا نکلا میں انہی سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ
رہاتھاکہ اسی دوران چند ایک افراد کی آ واز میرے کا نوں میں گو نجی کہ
ہمارا تعلق ایک سفید پو ش طبقہ سے ہے ہم نے ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی
مہنگائی بے روز گاری سے دلبرداشتہ ہو کر میو نسپل کمیٹی جھنگ میں بطور
خاکروب ڈیلی ویجزپر بھرتی ہو گئے محض اپنے اہلخا نہ کو بھو کا مر نے سے بچا
نے کیلئے ہم اس ذلت آ میز کا م کوسر انجام دینے کی خا طر دوسرے خا کروبوں
کے ساتھ رات کے اند ھیرے میں گٹروں سے غلا ظت نکالنے کے ساتھ ساتھ سڑکوں
اور بازاروں سے کوڑا کرکٹ اُٹھاتے حالانکہ اس دوران ہمیں متعددبار قے آ
جاتی تھی لیکن ہم اپنے اہلخانہ کی زندگیاں بچانے کی خا طر نہ چا ہتے ہوئے
یہ ذلت آ میز کام متواتر ایک ماہ تک سر انجام دیتے رہے حالانکہ ہمیں اس
حالت زارمیں دیکھ کر ہمارے اہلخانہ خون کے آ نسوروتے رہتے تھے اس غلیظ کام
کو تقریبا ڈیڑھ ماہ کاعرصہ گزر جا نے کے بعد ہم تنخواہ لینے پنجاب بینک نزد
کچہری چوک جھنگ پہنچے تو اس دوران ہم بہت خوش تھے کہ ہم اپنی اس تنخواہ سے
اپنے بیمار و لاغر والدین کیلئے ادویات خریدے گے اپنے باقی ماندہ اہلخانہ
کیلئے کپڑے جو جگہ جگہ سے پھٹ گئے تھے خریدے گے راشن وغیرہ خریدے گے لیکن
افسوس مذکورہ بینک کے عملہ نے یہ کہہ کر ہماری خوشیوں پر پا نی پھیر دیاکہ
آپ کو صرف تنخواہ با ئیس دنوں کی دی گئی تیرہ ہزار روپے ہم مذکورہ رقم لیکر
میو نسپل کمیٹی جھنگ کے آ ڈٹ آفیسر محمد عمیس ذیشان چیف آ فیسر ایم اوایف
محمد شکیل ایکسین ظفر عباس وغیرہ کے پاس پہنچے اور اُنھیں اپنی حالت زار سے
آ گاہ کیا لیکن انہوں نے اقتدارکے نشہ میں دھت ہو کرہمیں یہ کہہ کر اپنے
دفتر سے دھکے دینے کے ساتھ ساتھ غلیظ گالیاں نکالتے ہوئے نکال دیا کہ
تمھاری تنخواہ حکومت پنجا ب نے صرف اور صرف بائیس دنوں کی منظور کی ہے جس
پر ہم نے روتے ہو ئے کہا کہ آپ نے تو ہم سے تقریبا ڈیڑھ ماہ کام لیا ہے ہم
اس دوران اُن ظالموں کوخداوند کریم کا واسطہ دیتے رہے لیکن انہوں نے ہماری
ایک نہ سنی حالانکہ ان ناسوروں کے لوٹ مار کے قصے متعدد بار اخبارات فیس بک
انٹی کرپشن کے دفاتر کی زینت بن چکے ہیں لیکن ارباب و بااختیار نجانے کس
مصلحت کے تحت خاموش تما شائی کا کردار اداکرنے میں مصروف عمل ہیں گزشتہ روز
ان ناسوروں کے خلاف میو نسل کمیٹی جھنگ کے تمام دفاتر کو تالے لگا کر
احتجاج کیا تھا ماتحت عملہ نے در حقیقت تو یہ ہے کہ ان ناسوروں کا گھناؤ نا
کردار ہی ان کے خون کی عکاسی کرتا ہے اور تواور ان ناسوروں نے ڈیلی ویجز پر
کام کر نے والے افراد کو بکرا عید سے لیکر تین ماہ کا عر صہ گزر جا نے کے
باوجود تا حال تنخواہ سے محروم رکھا ہوا ہے ہاں اس کرپٹ ترین ادارے جہاں پر
تعنیات آ فیسرز ڈریکولا کا روپ دھار کر نہ صرف ادارے بلکہ غریب اہلکاروں کا
خون چوس رہے ہیں ایم او آر خالد محمد جیسے آ فیسر جو انسان کے روپ میں ایک
فرشتہ ہے غریب اور بے بس اہلکاروں کیلئے مسیحا کا روپ دھارے ہوئے ہے ۔۔۔۔
جاری ہے
دل چاہتا ہے آج کچھ ایسالکھوں
لفظوں کی آ ہیں نکلیں قلم سے لہو ٹپکے
کاغذپر درد بکھرے میری خا موشی ٹوٹے
پھر اس اذیت سے جان چھوٹے
|