جمعہ نامہ : عصرِ حاضر میں حجاب کی معنویت اور ضرورت

حجاب کا آنکھوں میں ہونا تو روشن خیال دانشور بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ دین اسلام میں مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ:’’اے نبیﷺمومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘۔خواتین کی عفت و عصمت کے تحفظ کا یہ بلاواسطہ اہتمام ہے۔ اس آیت کریمہ پر عامل مردوں سے صنف نازک کو خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ نظر اٹھاکر نہیں دیکھنے والا بھلاایذا رسانی کیسے کرے؟ لیکن معاشرے کے اندر اس ہدایت کی روگردانی کرنے والے اکثریت میں ہیں ۔ صنف نازک کے لیے ایسے مردوں کی کینہ توز نظروں اور دست درازی سے خودکومحفوظ و مامون رکھنے کی خاطر اضافی تحفظ یعنی حجاب درکارہوتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : ’’اور اے نبیﷺ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے کہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینوں پر اپنی چادروں کے آنچل ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں‘‘۔ یہ تحفظ کا بلواسطہ انتظام ہے۔ یہی حجاب فی الحال ہندوستان کی سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے ۔

عصرِ جدید میں آزادیٔ نسواں کے علمبردارحجاب کو ترقی یافتہ خواتین کی توہین گردانتے ہیں۔ ان کی پہلی دلیل یہ ہوتی ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ اب دنیا بہت مہذب ہوگئی ہے اس لیے خطرات ناپیدا ور حجاب کی ضرورت ختم ہوگئی ہے ۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ پہلے کے مقابلے خواتین بہت طاقتور ہوگئی ہیں اس لیے انہیں اضافی تحفظکی ضرورت نہیں ہے۔ان بظاہر مضبوط نظر آنے والے دلائل کی اعدادوشمار تردید کرتے ہیں ۔ خواتین کے خلاف جرائم کی متعدد شکلوں میں چوتھانمبر عصمت ریزی کاہے ۔ دنیا کی وسیع ترین جمہوریت ہندوستان میں 2021 کے اندر 31,677 عصمت دری کے مقدمات درج کیے گئے یعنی روزآنہ کا اوسط 87 تھا۔ سرکاری ادارہ این سی آر بی کے مطابق اس میں پیوستہ سال کے مقابلے19.34 فیصد کا اضافہ ہوا حالانکہ ملک بھر میں بیٹی پڑھاو بیٹی بچاو کا نعرہ لگتا رہا۔ دیگر جرائم کی تعداد 4,28,278 تھی اس میں بھی 13.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے وقت کے ساتھ خواتین کےزیادہ محفوظ ہونے کا دعویٰ کھوکھلا ہےیعنی اضافی تحفظ کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ سڑک پر حادچات بڑھتے ہیں حفاظتی تدابیر و احتیاط میں اضافہ کیا جاتاہے۔ عصمت دری کے واقعات میں دہلی سرِ فہرست اور خواتین پر جرائم کے معاملے میں اترپردیش اول نمبر پر ہے۔

دیارِ مغرب کے نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو پہلے دس ممالک میں ہندوستان، جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے علاوہ سب کے سب یوروپی و امریکی ممالک ہیں۔ دنیا کے عظیم ترین جمہوریت امریکہ آبروریزی کے معاملے میں سب سے آگے ہے۔ عصمت دری کا شکار ہونے والوں میں 91 فیصد خواتین اور 9 فیصد مرد ہیں لیکن اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں 99 فیصد تعداد مردوں کی ہے۔ ہر ۶؍ میں سے ایک خاتون کو عمر میں کم ازکم ایک مرتبہ عصمت دری کی کوشش کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ہندوستان میں 71فیصد لوگ عصمت دری کے واقعات کی شکایت درج نہیں کراتے ہیں اور عالمی سطح پر 89فیصد لوگ انتظامیہ سے رجوع نہیں کرتے ۔ ان کو شامل کرلیا جائے تو کیا حالت ہوگی؟ ایسی صورتحال میں اضافی تحفظ کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ سرحد کی حفاظت کرنے والا فوجی عام لوگوں سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے اس کے باوجود بیرونی خطرات اس کو اضافی تحفظ کے لیے مجبور کرتے ہیں اس لیے پردے کا احتمال دانشمندی کی نشانی ہے۔ کوئی فوجی اگر ذرہ بکتر استعمال نہ کرے تو اسے بزدل نہیں بلکہ لاپروا کہا جائے گا اور نظم و ضبط کو پامال کرنے کی سزا بھی پائے گا ۔

عصر حاضر کی خواتین پر ان کی فطرت کے خلاف معیشت کا اضافی بوجھ انہیں گھر سے باہر غیر مردوں کے ساتھ ملنے جلنے پر مجبور کرکے عدم تحفظ کا شکار کرتا ہے۔ عصر حاضر میں عریانیت اور اباحیت کے طوفان نے حالات کو بدتر بنا دیا ۔ میک اپ کی صنعت اور اشتہار بازی کے لیے خواتین کو آلۂ کار بنائے جانے کے سبب خواتین کی مشکلات میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ مغرب میں خاندانی نظام کی تباہی اور فحاشی و عریانیت نے بن بیاہی مائیں عام اور ناجائز بچوں کی کثرت ہورہی ہے۔ طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ جنسی وذہنی امراض کے سبب خود کشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس تناظر میں فحاشی و بدکاری سے تحفظ کی خاطر حجاب کی معنویت بڑھ گئی ہے۔ فرمانِ ربانی ہے: ’’اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے‘‘۔ اس لیے شتر مرغ کی مانند ریت میں سرچھپا نے کے بجائے حقائق کا اعتراف کرکے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ خواتین پر ہونے والے جرائم سے نجات کا ایک اہم ترین وسیلہ حجاب کا اسلامی رواج ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.