اپنے تخلیقی مقاصد سے رو گردانی کرنے والا انسان جس طرح
نفسانی خواہشات کا اسیر بنا ہوا ہے اور اس کے شب و روز جس طرح باطل ترجیحات
کی نذر ہو رہے ہیں اس نے اس کائنات میں اعلی و ارفع انسان کے تصور کو گہنا
کر رکھ دیاہے ۔ انسان کی حرص وہوس اس کے قلب و نگاہ میں دنیا کی ایسی منہ
زور بے قراری کو جنم دے رہی ہے جس سے وہ جھوٹ، مکر ،فریب،بد دیانتی ، بد
عہدی اور بد دیانتی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا بیٹھا ہے اور اپنا مقامِ
بلند بھول چکا ہے ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی تخلیق کا مقصد کیا تھااور
اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا تھا؟انسانی وجود کو ایک نفسانی بیماری لاحق
ہو چکی ہے جو اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔اس کا سفرِ زندگی کسی منزل کے
بغیر طے ہو رہا ہے اور اسے اس کی کوئی فکر مندی نہیں۔وہ جس کی پوجا سونا
سمجھ کر رہا ہے وہ سراب کے سوا کچھ نہیں ہے ۔وہ کسی ان دیکھے ہدف کی تلاش
میں بھاگے چلا جا رہا ہے حالانکہ اسے خود بھی علم ہے کہ وہ ہدف دھوکے اور
فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔سائنسی ایجادات اپنی جگہ اہم ہیں ،دنیا کی چکا
چوند اپنی جگہ مقدم ہے لیکن انسانی قلب میں جو اضطراب ہے وہ گھٹنے کی بجائے
بڑھتا چلاجا رہا ہے ۔ خاندانی یونٹ منہدم ہو چکا ہے ، خونی رشتے اب دنیا
داری کی رسمی کاروائی تک محدود ہو چکے ہیں ۔غیبت گوئی انتہاؤں کو چھو رہی
ہے لہذا کسی دل میں رشتہ دار کی خواہش اور طلب نہیں رہی ۔ ہر کوئی اس در پر
سجدہ سہو ادا کرنا چاہتا ہے جہاں اس کا مفاد وابستہ ہے ۔ حد تو یہ ہے جس سے
مفاد جڑا ہو گا اس کی بلائیں لی جائیں گی، اس کی عظمت کے گن گائے جائیں گے
اور اسے خدا بنالیا جائیگا لیکن جہاں پر ایسی کیفیت نہیں ہو گی وہاں دوسرے
انسانوں کو رسوا اور بدنام کرنے کی جسارت ہو گی اور انھیں کمتر ثابت کرنے
کی کوشش ہو گی۔حسد اور کینہ نے معاشرے کا چہرہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ مادی سوچ
انسان کو پستیوں کی جانب دھکیل رہی ہے ۔گاڑیا ں ،بنگلے ،ہوائی جہاز،
محلات،سونا چاندی ، نوکر چاکر،آسائشاتِ دنیا ،لعل و زرو جواہر کی فراوانی
انسانی عظمت کا معیار بن جائے تو کوئی کسی کی بات سننے کیلئے کیسے آمادہ ہو
گا ْ ؟ جسے سمجھانے کی کوشش کرو وہ خود افلاطون بنا بیٹھا ہو گا ۔دو لت کی
چکا چوند نے انسانی اذہان کو ماؤف کر دیا ہے اور انسان حقیقی رشتوں کواہمیت
اور تقدس دینے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے۔اب اندھے کنویں میں گرنے والے
ایسے انسان کو کیا کوئی عقلمند کہے گا؟ہر معا شرے کے اندر انسانی تکریم کے
کچھ پیمانے ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں یورپ کی اندھی تقلید نے ان پیمانوں کو
بدل کر رکھ دیا ہے ۔،۔
اس وقت نفسا نفسی، بے قراری اور افرا تفری کی دنیا انسان پر حاوی ہو چکی
ہے۔اس کا سکون غارت ہو چکا ہے اور اس کی روح نیم مردہ ہو چکی ہے ۔ دلچسپ
بات یہ ہے کہ وہ تحفظِ زندگی کو اشیاء کے حصول میں تلاش کررہاہے۔اشیاء کی
فراوانی ہی اس کی کامیابی کی بنیاد بن گئی ہے حالانکہ اشیاء کی فراوانی کا
انسانی سکون سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔یہ تو سب عارضی مقامات ہیں جو بزعمِ
خویش بے وقعت ہیں کیونکہ انھیں یہی پر رہ جانا ہے۔ان کا سہارا عارضی اور
ناپائیدار ہے۔یہ سچ ہے کہ ٹیکنا لوجی نے انسان کو آسائشات مہیا کی ہیں تو
پھر کیا یورپ کی تقلید میں علمیت اور عقلیت کو ہی انتہا مان کر اس کی پیروی
شروع کر دی جائے بالکل نہیں ۔کیا عقل اس قابل ہے کہ اسے نئی زندگی کا
دیباچہ قرار دے کر مستقل اقدار سے لا تعلقی اختیار کر لی جائے؟ اقبال کی
نظر میں (یہ جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے )۔حد تو یہ ہے کہ انسان نے اپنی
روح کو ٹیکنا لوجی کے پاس گروی رکھ دیا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی نے اس کی دنیا
کو تہہ و بالا کر کے اسے ایک ایسی دنیا کی راہ دکھائی ہے جس سے وہ بالکل نا
بلد تھا۔ٹیکنالوجی نے انسان کو ایک ایسی چکا چوند کا کامالک بنا دیا ہے جس
کا خیال وہ خوا ب میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ آج کا انسان ایک ایسی دنیا
میں زندہ ہے جس میں مادی اشیاء انسانی مدارج کا تعین کرتی ہیں لہذا وہ
اشیاء کے حصول کو مقصودِ زندگی بناکر معا شرے میں مقامِ بلند سے ہمکنار
ہونا چاہتا ہے ۔وہ اپنی مادی تشنگی کو مٹانے کیلئے اتنی دور نکل گیا ہے کہ
اس کی واپسی ممکن نہیں رہی۔سچ تو یہ ہے کہ دولت کی چکا چوند کے علاوہ اسے
نجات کے سارے راستے مسدود نظر آتے ہیں لہذا وہ لعل و زرو جواہر کا متلاشی
بن گیاہے۔تاریخ میں انسان اپنے آپ سے اتنا خوفزدہ کبھی نہیں ہوا جتنا وہ آج
ہے۔اتنا علم اور اتنی ترقی اور اسی تناسب سے اس بے کراں ہجوم میں تنہائی کا
عذاب ،تشکیک اور تشویش کا کرب اسے مضطرب کرنے کیلئے کافی ہے۔انسان اپنی
روحانی شکست و ریخٹ کے باعث اتنا منتشر ہو گیا ہے کہ وہ ورندگی پر اتر آیا
ہے جس سے معاشرہ عدمِ برداشت کا شکار ہو گیاہے۔عدمِ تحفظ،محرومی، نارسائی
اور حر ص و ہوس اسے ا یک ایسے مقام پر لے آئی ہے جہاں اس نے زندگی سے
معصومیت،تحیر اور عشق کو بالکل منہا کر دیا ہے۔ کیا ایسے میں انسان کی نجات
ممکن ہے؟ ۔،۔
یہ سچ ہے کہ وقت آگے کی جانب حرکت کرتا ہے ا ور کوئی اسے پیچھے کی جانب
کھینچ نہیں سکتا لیکن خدائی حکم تو زمان و مکاں کی حد بندیوں سے ماورا ہو
تا ہے ۔اس کے ہاں زمان و مکان کی حد بندیاں نہیں ہوتیں لہذا جو نتیجہ کل بر
آمد ہوا تھا وہی آج بھی بر آمد ہو گا شرط صرف اتنی سی ہے کہ کوئی اس عطا
شدہ فارمولے کو لیبارٹری میں ٹیسٹ تو کرے ۔اب اگر مقصودِ زندگی مال دو لت
اور لعل و زرو جواہر کی تلاش ہے تو انسان کو وہی کچھ ملے گا ۔یہ کیسے ممکن
ہے کہ انسان چاول کی کاشت کرے اور زمین سے گندم اگ آئے ۔جو بوؤ گے وہی کاٹو
گے۔انسان کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ مستقل اقدار کو حصولِ دولت سے نتھی کر
رہاہے۔ مقصد اگر دولت کا حصول ہے تو پھر اقدار کی موت واقع ہو جائیگی لیکن
اگر مقصد اقدار کا احیاء ہے تو دولت کے ہوتے ہوئے بھی اقدار کی شمع روشن رہ
سکتی ہے۔کیا دولتمندی انسان کو یہ سکھا تی ہے کہ جھوٹ بولو،بد دیانتی کرو ،
بد عہدی کرو،مکرو فریب کا سہارا لو،بے حیائی اور دھوکہ دہی کو عام کرو
،بالکل نہیں یہ تو انسان کہ اپنی تربیت اور اس کے اپنے افکار ہیں جو اسے
ایسا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔اب اگر کسی انسان کی تربیت با وقار ماحول میں
ہو ئی ہے تو اس کیلئے اصول اپنی جان سے زیادہ اہم ہوں گے لیکن اگر اس کے
گردو پیش میں ہوس و لالچ کی دنیا آباد ہو گی تو اس کیلئے اقدار غیر اہم ہوں
گی ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح کی دنیا میں زندہ رہنا چاہتے
ہی؟کیا ہمیں صالحین اور نیکو کاروں کی تلاش ہے یا ہمیں ایسے انسانوں کی
تلاش ہے جو دولت کی میزان میں ہر شہ کو تولتے ہیں؟بد قسمتی سے پاکستان میں
جس طرح کا ماحول تخلیق ہو چکا ہے اس میں اہل الرائے انسانوں کی وقعت کم
ہوتی جا رہی ہے ۔ہر وہ انسان جس کے پاس دولت کی چکا چوندھ ہے لوگ اسی کے
گھر کا طواف کرتے ہیں،اسی سے اپنی امیدیں وابستہ کر تے ہیں اور اس سے اپنے
مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ہمارا سیاسی نظام بھی جن بنیادں پر کھڑا ہے اس
میں اشرافیہ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ہر شہر میں چند دولت مند گھرانے ہیں
جھنوں نے ریاست کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔انھوں نے ہی اسمبلیوں میں جانا
ہے،انھوں نے ہی وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے ہیں،انھوں نے ہی نظامِ ریاست
چلا نا ہے،انھوں نے ہی ریاستی فیصلے صادر کر نے ہیں ،انھوں نے ہی پارلیمنٹ
کو رونق بخشنی ہے ، انھوں نے ہی پرمٹ لینے ہیں،انھوں نے ہی ترقیاتی فنڈز
سمیٹنے ہیں،انھوں نے ہی عدالتوں پر اثر انداز ہو نا ہے ،انھوں نے ہی پولیس
اور تھانہ کچہری میں اپنی دولتمندی کا مظاہرہ کرنا ہے اور انھوں نے ہی
اسٹیبلشمنٹ سے مراسم بنانے ہیں۔کسی شہر میں ایک پرو فیسر،ایک استاد ،ایک
عالم ، ایک مبلغ، ایک محقق ،ایک دانشور،ایک لکھاری،ایک قانون وان،ایک شاعر
،ایک کسان، ایک مزدور اور ایک محنت کش کی جو حیثیت ہے وہ ہم سب پر عیاں
ہے۔اس وقت اہلِ صفا افراد پر سخت دباؤ ہے کہ وہ اپنی اصول پسندی کی بے وقت
کی راگنی چھوڑ کر کسی درِ دولت پر ماتھا ٹیکیں وگرنہ کوئی ان کا پرسانِ حا
ل نہیں ہو گالیکن وہ جن کے سینے دھڑکتے دل کی آماجگاہ ہوتے ہیں، جو آزادی و
حریت کے حدی خوان ہوتے ہیں،جو جانبازی کو حرضِ جان بناتے ہیں وہ ایسا کرنے
سے انکار کردیتے ہیں اور یہی ہیں وہ لوگ جن پر انسانیت ناز کرتی ہے۔
|