”ب“ سے بیوقوف نہ بنائیں۔۔از عابد صدیق
(Abid Siddique, Rawalakot)
جب میں قاعدہ گھر میں ہی پڑھ کر سکول گیا تو اُستانی صاحبہ نے میرا ٹیسٹ لیا اور ایک ہی سوال پوچھا کہ "ب" سے۔۔۔؟۔میں نے رٹا ہوا جواب دیا کہ”ب“ سے ”بکری“، ویسے اگر یہ فقرہ رٹا ہوا نہ بھی ہوتا توبھی اس زمانے میں یہ بھولنے والی بات نہ تھی کیونکہ قرب و جوار میں ہمیں ہمہ وقت بکریوں سے آمنا سامنا رہتاتھا جنہیں اس وقت بڑے شوق سے پالا جاتا تھا۔ ویسے قاعدے کی ترتیب دینے والوں نے اس زمانے کے لحاظ سے اس لفظ کا صحیح انتخاب کیا کیونکہ یہ ایک ایسا جانور تھا جیسے ہم دیکھ بھی سکتے تھے اور پہچان بھی سکتے تھے۔ یوں سیکھنے، سکھانے کا یہ عمل بڑا اچھا تھا۔جس چیز کو آپ پہچانتے ہوں جب اس کے نام کا پتہ چلتا ہے تو اسے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ پاکستان میں 1985 میں جب محمد خان جونیجو کی حکومت آئی تو ”نئی روشنی“ سکول(تعلیم بالغاں) کے نام سے پاکستان کے مختلف دیہاتوں سمیت آزادکشمیر کے بعض دیہاتوں میں بھی قائم کیے گے ۔ان تعلیمی اداروں میں عمر کی قید سے مبرا ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہ سکول عام سرکاری سکولوں کی ہی عمارتوں میں قائم کیے گے جہاں شام کے اوقات میں کلاسز ہوتی تھیں۔ اصل مسئلہ ان سکولوں میں ”طلبہ“ کی تعداد پوری کرنا ہوتا تھا۔ اکثر معلم اپنے خاندان کے بعض "بزرگوں"یا دور کے رشتے داروں کو ان سکولوں میں داخل کیا کرتے تھے تا کہ مطلوبہ تعداد پوری کی جا سکے اور ان سکولوں کے قائم رہنے کا جواز بھی برقرار رہے۔ کیونکہ حکومت پاکستان نے ”طلبہ“ کی ایک حد مقرر کر رکھی تھی۔ میرے ایک دوست کسی طرح ان ہی سکولوں میں سے ایک سکول میں معلمین کے انچارج لگ گئے۔ سرراہ ان سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کے ماتحت چلنے والے سکول کا حال پوچھا۔کہنے لگے ایک مرحلہ تو طے کر لیا کہ مطلوبہ تعداد پوری کر لی لیکن محنت بہت زیادہ کرنی پڑ رہی ہے، میرے دوبارہ سوال کرنے پر انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ”نئی روشنی سکول کے نصاب میں ”ل“ سے لوٹا لکھا ہوا ہے لیکن ہمارے سکول کے ”بزرگ طلبہ“ ل سے ”کروا“ پڑھتے ہیں، کیونکہ ہم انہیں ہر اس لفظ سے پکاری جانے والی چیز کا نمونہ بھی دکھاتے ہیں۔ ہم انہیں بہت سمجھاتے ہیں کہ یہ ”لوٹا“ ہے لیکن وہ نہیں مانتے۔ کہتے ہیں دادی جان نے بتایا تھا کہ یہ ”کروا“ ہے۔ یوں اساتذہ کو ہی یہ کہہ کر ہار ماننی پڑتی ہےکہ چلو ”کروا“ ہی رہنے دیں“ (کروا پہاڑی زبان میں لوٹا ہی کو کہا جاتا ہے)۔کوئی10 سال پہلے یہ واقعہ مجھے اس وقت یاد آیا جب ایک نجی سکول میں زیر تعلیم پلے گروپ کے بچے نے ”کتے“ کو دیکھ کر شور مچایا کہ یہ ”بکری“ ہے، قریب کھڑے شخص نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کتا ہے لیکن وہ ماننے کو تیار نہ تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ میری ٹیچر نے ”بکری“ کی جو نشانیاں بتائی ہیں وہ اکثر اس جانور میں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پرچار ٹانگیں،دم،بڑے کان وغیرہ، لیکن تھوڑی دیر سمجھانے کے بعد وہ سمجھ گیا کہ یہ بکری نہیں لیکن کتا بھی بکری جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہ قصے سنانے کا مقصد بس اتنا ہے کہ50 سال قبل ”ب“ سے بکری پڑھائی جاتی تھی تو اس کا معقول جواز تھا کہ اس وقت بکری کی اہمیت تھی اور اس تک عام بچوں کی رسائی بھی تھی لیکن اب تو بچوں کی اکثریت نے اس طرح کی چیزیں دیکھی تک نہیں ہوتیں۔ یوں بچوں کو 50 سال ایک ہی لفظ پڑھانے کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہ تو ایک ”ب“ کی مثال تھی قاعدے کے سارے حروف تہجی کے معنی ہر سال بدلنے کی ضرورت ہے جس پر کام نہ کیا جا سکا۔ ہر سال ”ب“ سے نیا لفظ پڑھنے والے بچے جب آپس میں لفظوں کا تبادلہ کرتے تو کئی نئے لفظوں کا انہیں پتہ چلتا۔یوں ”ث“ سے ثمر پڑھائے جانے کا اصل مفہوم بھی واضع ہوتا۔ نصاب سازی کا بڑا فقدان ہے، چار سال کی عمر میں تین زبانیں سیکھنے والے بچے کو حقیقت میں آپ مادری زبان کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی دور رکھ رہے ہیں۔ تمام زبانوں کا ملغوبہ بنا کر کھلانے سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ۔۔۔دھیرے دھیرے ایک ایک کر کے زبان سکھائی جائے۔جس زبان کی جس عمر میں جس قدر ضرورت ہے وہی جیسے دوائی کی خوراک کم سے زیادہ کی طرف ہوتی ہے۔ ہم سب زبانوں کو سیکھتے ہیں اور کسی میں ید طولی حاصل نہیں اس کی بجائے مادری زبان کو پرائمری سطح تک رائج کیا جائے اس کے بعد اردو کو اور اس کے بعد انگریزی یا دوسری زبانوں کی باری آئے۔ مختلف زبانوں کے جھکڑ میں پھنسا یہی بچہ جب عملی زندگی میں اسی ریاست میں گریڈ 17کی ملازمت حاصل کرتا ہے تو وہ اس سرکاری مکتوب پر کیا ”نوٹ“ لکھے گاجس میں یہ عبارت لکھی ہوتی ہے، ”اصل ہذا مرسل ہو کر تحریر خدمت ہے کہ معاملہ کو یکسو کر کے رپورٹ حکام بالا کو اندر سات یوم بھیجی جائے“۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ماضی یا مستقبل کی بجائے حال پر نظریں گاڑیں ہوئی ہیں۔ ہمیں اس بات کا قطعاً علم نہیں کہ بچے کو پڑھا کیا رہے ہیں اور پڑھانا کیا چاہیے، کئی والدین نے کتابوں کے نام ان کی”قیمتوں“ پر رکھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ”550 والی وہ نیلی کتاب ہے“، لیکن اگر حقیقت سے جائزہ لیا جائے تو اس میں قصور والدین کا کم اور تعلیمی اداروں کا زیادہ ہے۔نجی تعلیمی اداروں نے اپنی پسند و نا پسند کی بنیاد پر عالمی پبلشنگ اداروں کے نصاب کا انتخاب کر رکھا ہے۔ان اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کرام (مرد و خواتین)کتاب کے صفحہ نمبر کو بچوں کی ڈائری پر گھر تیاری کرنے کا نوٹ ”انگریزی“ میں لکھ کر بچوں کو اس وصیت کے ساتھ رخصت کر دیتے ہیں کہ ”کل یاد کر کے آجانا“۔ والدین کے پاس اسکول بدلنے کا کوئی آپشن نہیں کیونکہ سب ایک جیسے ہیں۔”باٹا“ اور”سروس“کی طرح اسکولوں کے بھی برانڈ بچوں کی شناخت بنے ہوئے ہیں۔تعلیم اداروں کے اندر بہت بڑے انقلاب کی ضرورت ہے۔اب ڈگریوں کی نہیں ”مہارت“ کی مانگ ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیاں،عالمی ادارے اب نوکریوں کے لیے ڈگریوں کو نہیں آپ کی ”مہارت“ کو ترجیح دیتے ہیں۔نجی تعلیمی اداروں سمیت سرکاری تعلیمی اداروں اور جامعات تک کو ریفارمز لاکرزمانے کے ساتھ چلنے کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ایک زمانے میں تعلیم بالغاں کے نام سے خواجہ معین الدین کا لکھا ڈرمہ چلا کرتا تھا جس کا ایک جملہ کہ " زیر تعلیم کے پیچھے "واؤ" لگا دو تو وزیر تعلیم بن جائے گا" آج کے نظام تعلیم کی عکاسی کرتا ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ ”ب“ سے ”بیوقوف“ بنانے کا طریقہ ترک کیا جائے اور ”ث“سے ثمر دیا جائے ورنہ جاہلیت کی طرف جانے والے راستے کی ساری رکاوٹیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ |