اک نیا دور آ رہا ہے۔ہمارے پڑھے لکھے بچے اپنے سال اور ڈگریوں کے حوالے سے
ایک دوسرے سے مختلف قرار پائیں گے۔مجھے یہ خیال ایک نئی خبر پڑھ کر آیا کہ
جس کے مطابق پنجاب حکومت کے محکمہ تعلیم نے رواں تعلیمی سال میں نصاب کم
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق اس سال سیلاب نے بچوں
کے چار ماہ ضائع کر دئیے ہیں۔ بچے اپنا نصاب مکمل نہیں پڑھ سکے اس لئے
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کے نصاب میں بیس (20) فیصد تک کمی کر دی
جائے اور بچوں کا امتحان اسی (80) فیصد سلیبس میں سے ہی لیا جائے۔میرے خیال
میں یہ فیصلہ کچھ قبل از وقت ہے۔ بہت سے علاقوں میں پانی کو اترنے اور
سوکھنے میں مزید چار پانچ ماہ لگ سکتے ہیں بلکہ یقیناً لگیں گے۔اب وہ بچے
جن کے آٹھ نو ماہ ضائع ہونگے ان کے لئے حکومت کو ایک بار پھر اپنا فیصلہ
بدلنا پڑے گا۔لیکن اس مسئلے کے کئی بہتر حل بھی ہیں۔
پنجاب میں اس وقت شاید آٹھ تعلیمی بورڈ کام کر رہے ہیں ۔ ان بورڈوں کو شہری
اور دیہاتی، سیلاب زدہ اور غیر سیلاب زدہ علاقوں میں بانٹ دیا جائے۔ایک
بورڈ ان شہری علاقوں کے لئے جہاں سیلاب نہیں آیا۔ یہ سو فیصد سلیبس کے
مطابق امتحان لے۔ایک ان شہری علاقوں کے لئے جہاں تھوڑا بہت سیلاب آیا ہے وہ
حکومت کے موجودہ فیصلے کی رو سے اسی فیصد سلیبس کے مطابق امتحان لے۔ ایک ان
دیہات اور قصبات کے لئے جہاں سیلاب آیا ، کچھ تباہی بھی کی اور بس جلد جان
چھوڑ گیا۔وہاں کے بچوں سے ساٹھ فیصد سلیبس کے مطابق امتحان لینا ایک بورڈ
کا فرض ہونا چائیے۔ جہاں پانی چھ سات ماہ ٹھہرا رہا،وہاں کے بچوں کا
استحقاق ہے کہ ایسا بورڈ ان کا امتحان لے جو سلیبس کا صرف چالیس فیصد معقول
جانے۔ اس سے زیادہ خراب علاقوں کے لئے سلیبس کے صرف بیس فیصد سے امتحان
لینے والا ایک الگ بورڈ ہو۔بہت زیادہ تبا حال علاقے کے بچوں کے لئے ایک
ایسا بورڈ ہونا چائیے جس کا چیرمین اور سٹاف بڑے ہنس مکھ اور طالبعلم دوست
ہوں ۔ جو بچے جن کے گاؤں مکمل تباہ ہو چکیاور جو بیچارے سارا سال ابتلا کا
شکار رہے ان سے سلیبس کی بات تو ظلم اور ان کا استحصال ہے۔ انسانی حقوق کی
بھی خلاف ورزی ہے ۔ اس لئے اس بورڈ کے تمام لوگ ایسے ہوں کہ بچے کی مسکراہٹ
دیکھ کر اس کی ذہانت کا اندازہ کر لیں اور ان کی کمال مہربانی سے بچہ اتنے
نمبر حاصل کر لے کہ وہ میڈیکل کالج یا انجیئرنگ یونیورسٹی میں باعزت انداز
میں داخل ہو سکے۔سوچتا ہوں کہ کس قدر خوبصورت لمحہ ہو گا جب مختلف بورڈوں
کے چیرمین ایک دوسرے سے اپنا تعارف اس طرح کریں کہ جناب میں اسی فیصد والا
چیرمین ہوں ،میں چالیس فیصد والا اور جناب میں تو مسکراہٹ بورڈ کا چیرمین
ہوں۔سوچتا ہوں بنگلا دیش کتنا بد قسمت ملک ہے کہ جہاں سارا سال سیلاب آتے
ہیں، بارشیں اور سمندری طوفان تباہی مچاتے ہیں مگر انہیں ہمارے ملک جیسے
کوئی لال بجھکڑ دانشور، اہل علم اور سیاستدان نہیں ملے، اس لئے وہاں کے
بچوں کو سارے سال کا مکمل کورس ہی پڑھنا اور اسی میں سے ہی امتحان دینا
پڑتا ہے۔کس قدر زیادتی ہے۔ پاکستان میں موجود بنگلہ دیشی سفیر کو احتجاجی
مراسلہ بھیجنا تو بنتا ہے۔ آئندہ وقت میں جب ہمارے اس دور کے طالب علم کہیں
معاش کے لئے پیش ہونگے تو ان سے انٹریو کینے والوں کو ان کا تعلیمی سال اور
ان کے تعلیمی بورڈ کا نام پوچھ کر ہی اندازہ ہو جایا کرے گا کہ امیدوار
کتنا با صلاحیت ہے، وہ ان سے منہ موڑ لیں گے۔ پہلے تو انٹری ٹیسٹ سے لوگ
اندازہ لگا لیتے تھے کہ امیدوار کو کچھ آتا ہے یا نہیں۔ ماشا اﷲہم نے اب
کووڈ زدہ اور سیلاب زدہ ایک ایسی ہونہار نسل تیار کر لی ہے جس پر انٹری
ٹیسٹ بھی اسی طرح بے اثر ہوگا جیسے مرد نادان پر کلام نرم و نازک۔
سیلاب کا زور سندھ کے علاوہ باقی علاقوں میں ٹوٹ رہا ہے مگر قومی بے حسی کی
بہت سی کہانیاں منظر عام پر آرہی ہیں۔ سندھ میں کسی سرکاری کیمپ میں ایک
بچی بھوک سے مر گئی۔ پتہ نہیں اس ملک میں ڈاکو راج کے علاوہ بھی کچھ ہے کہ
نہیں۔ اگر کہیں انصاف کا تھوڑا سا بھی نشان ہوتا تو اس کیمپ کے تمام ذمہ
داروں کو الٹا لٹکا دیا جاتا۔ بچی کیمپ میں پہنچ کر بھی بھوک سے مر جائے،
کس قدر زیادتی ہے۔ کیمپ کس لئے لگایا گیا تھا، لوگوں کے ان نا مساعد حالات
میں زندہ رہنے کے لئے یا انہیں پانی سے باہر نکال کر مارنے کے لئے نہیں۔
میرے جیسے لوگ ایسے بے حس انچارج حضرات کی کارکردگی پر رو سکتے ہیں اس کے
سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ذمہ دار اپنی ذمہ داریوں کو
سمجھتے ہی نہیں اور کیمپوں میں بھی عام غریب لوگوں پر اپنی چوہدراہٹ کا رعب
ڈالنے میں کسر نہیں چھوڑتے۔ ایک اور بڑی سنگین شکایت کہ کیمپوں میں موجود
بہت سے اہلکار عورتوں اور بچوں کو انتہائی غلیظ شرائط پر امداد دیتے ہیں۔
ان حالات میں غریب لوگوں کے پاس دو راستے ہوتے ہیں کہ یا تو ذلت برداشت
کریں یا بھوک سے مر جانا قبول کر لیں۔ضروری ہے کہ جہاں کہیں کیمپ میں بھوک
کی وجہ سے کوئی موت ہو تو وہاں کے عملے کو فوراً نہ صرف تبدیل کیا جائے
بلکہ اس کے اسباب جاننے کے لئے ایک مربوط انکوائری کی جائے اور اگر کوئی
مجرم پایا جائے تو اسے نشان عبرت بنایا جائے۔لوگوں کی حقیقی داد رسی کے لئے
یہ قدم بہت ضروری ہے۔
ایک اور اطلاع تھی کہ ایک کیمپ سے بہت سے لوگوں کو خانہ بدوش قرار دے کر
وہاں سے نکال دیا گیا۔مان لیا وہ خانہ بدوش تھے۔ مگر اس ملک کے شہری تھے۔اس
ملک میں موجود تھے۔ جب پورا علاقہ سمندر کی شکل اختیار کر گیا ۔ زمین کا
کوئی ٹکرا سوکھا نہیں۔ کھانے ، پانی اور ضروریات زندگی کی اشیا کہیں میسر
ہی نہیں۔ایسی بد ترین صورت حال میں انہیں بھی جینے کا حق ہے، وہ بیچارے
توآپ کی امداد کے دگنے مستحق ہیں۔اس لئے کہ مستقل بے گھر ہیں ۔ انہیں سکون
سے رہنے کے لئے اگر کوئی جگہ مل جائے تو مجھے یقین ہے کہ وہ خانہ بدوشی
چھوڑ دیں گے۔ سندھ اور بلوچستان کے بارے میں یہ بھی اطلاع ہے کہ فوری امداد
کے لئے ملنے والا بہت سا سامان وہاں کے وڈیروں نے اپنے گھروں اور ڈیروں پر
منتقل کر لیا ہے اور اس کی تقسیم سیاسی بنیادوں پر پسندیدہ افراد میں ہو
رہی ہے۔ یہ بھی ایک افسوسناک صورت حال ہے۔ حقداروں کو چیز کا وقت پر نہ
ملنا بھی انتظامی نا اہلی کے ضمن میں آتا ہے۔دنیا آپ کی طرف دیکھ رہی ہے
اورآپ کا ٹھوس اور مثبت عمل ہی دنیا کو آپ کی مدد پر مجبور کرے گا۔
|