جُرمِ حدیث سازی اور سزائے حدیث سازی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالقلم ، اٰیت 34 تا 52 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان المتقین
عند ربھم جنٰت النعیم 34
افنجعل المسلمین کالمجرمین 35
مالکم کیف تحکمون 36 ام لکم کتٰب
فیہ تدرسون 37 ان لکم فیہ لما تخیرون
38 ام لکم ایمان علینا بالغة الٰی یوم القیٰمة ان
لکم لما تحکمون 39 سلھم ایھم بذٰلک زعیم 40
ام لہم شرکاء فلیاتوا بشرکائھم ان کانوا صٰدقین 41
یوم یکشف عن ساق و یدعون الی السجود فلا یستطیعون
42 خاشعة ابصارھم ترھقھم ذلة وقد کانوا یدعون الی السجود
و ھم سٰلمون 43 فذرنی و من یکذب بھٰذاالحدیث سنستدرجھم من
حیث لا یعلمون 44 و املی لھم ان کیدی متین 45
اے ہمارے رسُول ! آپ ہمارے مُجرموں کے اُس اٙنجامِ جہنم کے بعد ہمارے محرموں کے اِس انعامِ جنت کو بھی جان لیں جو اُن کو حاصل ہو گا ، آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہماری میزانِ عدل کے تول پر ہمارے مُجرم اور ہمارے مٙحرم دونوں ہی وزنِ اعمال میں ایک برابر ہو جائیں ، اُس روز ہم اپنے اُن مُجرموں سے پوچھیں گے کہ کیا تُمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تُم نے یہ پڑھ لیا ہے کہ تُمہاری نجات تُمہارے حُسنِ اعمال سے نہیں ہوگی بلکہ تُمہارے بے بُنیاد خیال سے ہوگی یا پھر تُم نے خیال ہی خیال میں یہ سب خود سے خود ہی گھڑ لیا ہے ، تُم میں بٙھلا کون ہے جو دل پر ہاتھ رکھ کر یہ قٙسم کھا سکتا ہے کہ تُم میں سے جس نے اپنے لئے خود ہی خود جو کُچھ مُتعین کیا ہے اُس کو وہی کُچھ ملے گا ، تُم چاہو تو اپنے سرپرستوں سے پُوچھ لو کہ اُن میں سے کون ہے جو تُمہارے اِس دعوے کی تصدیق کرتا ہے اور اگر تُمہارے خُدا کے ساتھ شریکِ کار بنائے ہوئے کُچھ لوگ آج کی اِس گواہی سے بچے ہوئے ہیں تو تُم اُن کو بھی یہاں بلا لو تاکہ ہم بھی تو دیکھیں کہ تُم اپنے اِس گمان میں کتنے میں سچے ہو لیکن سچ تو یہی ہے کہ جس دن تُمہارے اعمال کا بُغچہ کُھل جائے گا تو اُس دن تُم ضرور سرنگوں ہو جاوؑ گے لیکن اُس دن تُمہاری اُس نگوں ساری کا سارا وقت گزر چکا ہو گا اور اُس روز اللہ اپنے رسول سے کہے گا کہ آج اِن قُرآن دشمن حدیث سازوں سے میرے نمٹنے کا دن ہے اِس لئے آپ یہ میرا معاملہ مُجھ پر ہی چھوڑ دیں اِس لئے کہ آپ کے ذریعے اِن کو جس وقت اللہ کے جو اٙحکام ماننے کا حُکم دیا تھا اُس وقت اُنہوں نے اُن اٙحکام کو نہیں مانا تھا اور اٙب اِن کے ماننے یا نہ ماننے کا وقت گزر چکا ہے اور ہم نے اِن کی جو رٙسی ڈھیلی چھوڑی ہوئی تھی اٙب ہم نے وہ رٙسی سختی کھینچ لی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اٰیت 1 سے لے کر اٰیت 16 تک اِس سُورت کا جو پہلا مضمون گزرا ہے اور اُس پہلے مضمون کے بعد اِس سُورت کی اٰیت 17 سے لے کر اٰیت 33 تک اِس سُورت کا جو دُوسرا مضمون گزرا ہے اٰیاتِ بالا میں آنے والا مضمونِ بالا اُس پہلے مضمون کا بھی جوابِ مضمون ہے اور یہی مضمون دُوسرے مضمون کا بھی وہ جوابِ مضمون ہے جس میں پہلے مضمون والے پہلے اٙفراد اور دُوسرے مضمون والے دُوسرے اٙفراد کی عملی حیثیت الگ الگ کر کے واضح کی گئی ہے اور پھر اِس جوابِ مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جس طرح آب و آتش کے ، ظُلمت و ضیا کے ، سردی و گرمی کے اور بہار و خزاں کے اعمال و نتائجِ اعمال میں ایک فطری فرق موجُود ہوتا ہے اسی طرح اِفرادِ نیک و بٙد کے اعمال و نتائجِ اعمال میں بھی ایک قُدرتی فرق موجُود ہوتا ہے جس کا قُدرت الگ الگ فیصلہ کرتی ہے ، اِس لئے قُدرت کے اِس قانون کے مطابق انسان اپنی کتابِ عمل کے مطابق یا غیر مطابق کیئے گئے اپنے اعمالِ خیر و شر اور اپنے اٙنجامِ خیر و شر کا ایک اندازہ لگا سکتا ہے اور وہ اپنے اُس اندازے کے مطابق اپنے عملی کی عملی سمت بھی مُتعین کر سکتا ہے لیکن کوئی انسان اپنے خیالِ باطل کی بُنیاد پر یہ فیصلہ بہر حال نہیں کر سکتا کہ کس نے قُرآن کے بجائے اپنے امام کی تقلید کرنے کے انعام میں آخرت کی نجات پانی ہے اور کس نے اُس امام کی تقلید نہ کرنے کے جُرم میں آخرت کی نجات سے محروم ہونا ہے کیونکہ اِس سُورت کے پہلے اور دُوسرے مضمون میں نجاتِ آخرت کے اصول اور ضابطے بیان کئے گئے ہیں اور اِس جوابِ مضمون میں اُن اصولوں اور ضابطوں کے مطابق یہ فیصلہ سنایا گیا ہے نجات کا مدار صرف اللہ کی کتاب ہے اور نجات کا پہلا اور آخری معیار صرف اِس کتابِ نازلہ کے اٙحکامِ نازلہ پر عمل کرنا ہے اور اِس جوابِ مضمون میں یہ اٙمر بطورِ خاص زیرِ بحث لایا گیا ہے کہ جو لوگ اِس کتاب سے باہر جاکر اور اِس کتاب سے باہر رہ کر نجاتِ آخرت کا دعوٰی کرتے ہیں آخرت میں اُن سے پوچھا جائے گا کہ تُمہارے پاس اِس بات کی کیا دلیل ہے کہ اللہ نے اپنی یہ کتابِ عمل جو ایک کتابِ عمل کے دعوے کے ساتھ تُمہارے لئے نازل کی تھی وہ ایک ایسی ناقص کتاب نازل کی تھی کہ جس کے اٙحکام پر تُمہارے بزرگوں کے مزعومہ اٙحکام کے بغیر عمل نہیں ہو سکتا تھا ، تُمارے یہ مزعومل خیال و اعمال تو اللہ کے اُس دعوے کے خلاف ہیں جو دعوٰی اللہ نے اِس سُورت کی پہلی اٰیت کی پہلی سطر میں لکھا ہوا ہے کہ یہ کتاب ہمارے علم و قلم سے مرتب کی گئی وہ کتاب ہے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنے علم و قلم سے خود ہی مرتب کیا ہے اور خود ہی اپنے رسول پر نازل بھی کیا ہے لیکن چونکہ یہ کتابِ عظیم صدیوں سے اہلِ روایت کی باطل روایات کی زٙد میں رہی ہے اِس لئے اہلِ روایت نے امام بخاری کی کتابِ بخاری کے باب کتاب التفسیر کی ایک روایت سے اٰیاتِ بالا میں آنے والی اٰیت کے لفظِ { ساق } سے اللہ تعالٰی کی پنڈلی مراد لی ہے اور پھر اِس روایت سے یہ مضمون کشید کیا ہے کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالٰی اپنی پنڈلی کھولے گا تو سچے مومن مرد و زن تو اُس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں گے لیکن دکھاوے کے مومن جب اُس کے سامنے سجدہ کرنا چاہیں گے تو اُن کی ریڑھ کی ہڈی کے مٙنکے تختے کی طرح سخت ہو جائیں گے جن کی سختی کی وجہ سے وہ اللہ تعالٰی کے سامنے سجدہ نہیں کر پائیں گے اور اسی وجہ سے وہ نجات سے محروم ہو جائیں گے ، اِس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات عالی کسی خیالی اور مثالی جسم سے ایسی ایک بلند تر ذات ہے کہ اُس کے مثیل کی تو کیا اُس کی مثال کی مثال بھی ممکن نہیں ہے لیکن اگر ہم جہالت کے اِس روایتی مفروضے کو فرض بھی کر لیں کہ اُس روز اللہ تعالٰی اپنی ایک مثالی ذات کو انسانی نگاہ کے سامنے لانا چاہے گا اور اُس مثالی ذات کا انسانی نگاہ کو دیدار کرانا چاہے گا تو سوال یہ ہے کہ وہ اپنے دستِ قُدرت کا دیدار کیوں نہیں کرائے گا یا اپنے رُوئے اٙقدس کا دیدار کیوں نہیں کرائے گا اور وہ اپنی پنڈلی کا دیدار ہی کیوں کرائے گا ، آخر اِس کی کوئی وجہ اور حکمت بھی تو ہونی چاپیئے ، بہر حال ہم اِس لایعنی و بے معنی بحث سے دامن بچاتے ہوئے اِس لفظِ ساق کی معنوی صورتِ حال کو واضح کرنے کے لئے صرف یہ عرض کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ لُغت میں ساق کے مُتعلقہ معنوں میں پہلا معنٰی اٙڑیل جانور کے سر کی ٹکر اور سینگ کے حملے سے بچنے کے لئے اُس جانور کے پیچھے رہ کر اُس جانور کو پیچھے سے ہانکنا ہوتا ہے اور اِس کا دُوسرا معنٰی پنڈلی پر لاٹھی مارنا بھی ہوتا ہے جو ہانکے ہوئے اور ہانکے جانے والے اُس اٙڑیل جانور کو ہانکنے کا ایک معروف عمل ہے اور یہ عمل بذات خود اِس اٙمر کی ایک مُعتبر دلیل ہے کہ اِس اٰیت کے معنوی سیاق و سباق اور اِس لفظ کی اِس مُتداول لغت کے مطابق اِس اٰیت میں اللہ کی اُس روایتی پنڈلی کا وہ معاملہ نہیں ہے جس کا اہلِ روایت نے ذکر کیا ہے بلکہ یہ اُن مجرموں کی اُس پیٹھ کا معاملہ ہے جس کا قُرآن نے یہ بتانے کے لئے تذکرہ کیا ہے کہ جب خُدا کے اُن کو اُن کی جہنم کی طرف ہانکا جائے گا تو آلکس کے ساتھ چلنے والوں کو تیز چلانے اُن کی پنڈلیوں پر بھی وہی آلہِ ضرب چلایا جائے گا جو ایسے ہر موقعے پر ہر ایسے ہر اٙڑیل جانور کو چلانے کے لئے چلایا جاتا ہے لیکن قُرآن کے اِس مضمون کی سب سے اہم بات اِس مضمون کی آخری اٰیت سے پہلی اُس اٰیت کے اُس مضمون میں ہے جس اٰیت کے جس مضمون میں قیامت کا یہ قیامت خیز منظر اُجاگر کیا گیا ہے کہ اُس روز جب قُرآنی اٙحکام کے فروغ کے مقابلے میں انسانی اٙحکام کے دروغ کو بنانے اور پھیلانے کی سزا کا فیصلہ ہو نے لگے گا تو اُس وقت غالبا سیدنا محمد علیہ السلام اپنے نام پر احادیث وضع کرنے والے اُن مجرموں سے سخت ناراض ہوں گے اور اللہ تعالٰی اپنے رسول کی تسکینِ دل کے لئے فرمائے گا کہ { فذرنی و من یکذب بھٰذا الحدیث } یعنی آپ دل آزردہ نہ ہوں بلکہ اِن جُھوٹے لوگوں کی جُھوٹی کی اِن جُھوٹی احادیث کی قرار واقعی سزا کا معاملہ مُجھ پر چھوڑ دیں ، میں نے اِن کی جو رٙسی آج تک بہت ڈھیلی چھوڑ رکھی تھی وہ رٙسی آج میں نے پوری سختی کے ساتھ کھینچ لی ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 460918 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More