جمعے کےدن فجر کی نماز میں سورۂ الم سجدہ اور سورہ دہر
کا معمول بنانا چاہیے۔عرب ممالک میں تو اس کا معمول ہے، لیکن ہمارے یہاں بہ
مشکل اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ عام مساجد ہی نہیں، بہت سے مدارس بھی اس سے
خالی ہیں۔ بعض احادیث سے اس پر مداومت کا اشارہ ملتا ہے، لیکن فقہاے احناف
تعیینِ سورت کو مکروہ کہتے ہیں، اس لیے لوگوں کو غلط فہمی کا شکار ہونے سے
بچانے کے لیے- کہ وہ اسے واجب نہ سمجھیں- ’کبھی کبھاراسے ترک کیا جا سکتا
ہے‘، جو لوگ واضح اور صریح دلائل کے باوجود ’کبھی کبھار پڑھنے کو کہتے
ہیں‘، ان کی بات دلائل کی روشنی میںکمزور ہے۔ جو لوگ صرف انھیں سورتوں کی
پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں، ان کی بات بھی درست معلوم نہیں ہوتی۔خود رسول
اللہ ﷺ اور ایک خلیفۂ راشد حضرت علیؓسے اس کے علاوہ پڑھنا ثابت ہے،البتہ
ہفتے میں ایک خاص دن سنت سمجھ کر ان سورتوں کو پڑھنے سے باقی قرآن کا
مہجور ہونا بھی سمجھ میںنہیں آتا، عوام کے اعتقاد کی اصلاح کے لیے کسی
مناسب موقع پر اس کی شرعی حیثیت واضح کر دینا بھی کافی ہو سکتا ہے، خواص
میں اس وضاحت کی بھی ضرورت نہیں۔رہی یہ بات کہ اس سے نماز میں تطویل ہوتی
ہے، تو یہ بھی صحیح نہیں۔
’بخاری شریف‘ میں ہے:حضرت ابوہریرہؓروایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ جمعے کے دن
فجر کی نماز میں سورہ سجدہ اور سوہ دہر تلاوت فرماتے تھے۔’مسلم شریف‘ میں
اس کی یہ تفصیل آئی ہے:حضرت ابوہریرہؓروایت کرتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ
جمعے کے دن صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں الم تَنْزِيل اور دوسری رکعت میں
هَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنْ الدَّهْرِ لَمْ يَکُنْ شَيْئًا
مَذْکُورًاپڑھا کرتے تھے۔’طبرانی‘ میں ہے:حضرت عبد اللہ بن مسعودؓروایت
کرتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ جمعے کی نمازِ صبح میں الم تَنْزِيلُ السجدۃ اور
هَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ پڑھا کرتے اور اس پر مداومت کرتے تھے۔’مجمع
الزوائد‘ میں ہے:حضرت ابن عباسؓروایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ہر جمعے کی
نمازِ صبح میں الم تَنْزِيلُ الکتاب اور هَلْ أَتَی عَلَی الْإِنْسَانِ
پڑھا کرتے تھے۔
’مصنف ابن ابی شیبہ‘ کی روایتیں بھی ملاحظہ فرمائیں:حضرت ابو الاحوصؓفرماتے
ہیں، رسول اللہ ﷺ جمعے کے دن فجر کی نماز میں الم تنزیل السجدۃ اور مفصل
میں سے کسی سورت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔حضرت علیؓنے جمعے کے دن فجر کی
نماز میں سورہ حشراور سورہ جمعہ کی تلاوت فرمائی۔حضرت ابو حمزہ اعور کہتے
ہیں، حضرت ابراہیمؒ نے ہمیں جمعے کے دن فجر کی نماز پڑھائی اور اس میں
کہیعص کی تلاوت کی۔حضرت ابن عونؒکہتے ہیں کہ لوگ (یعنی صحابہ و تابعین)جمعے
کے دن فجر کی نماز میں ایسی سورت کی تلاوت کرتے تھے جس میں سجدہ ہو، میں نے
اس بارے میں حضرت محمد سے سوال کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج
نہیں۔حضرت ابراہیمؒفرماتے ہیں کہ اس بات کو مستحب خیال کیا جاتا تھا کہ
جمعے کے دن فجر کی نماز میں ایسی سورت پڑھی جائے، جس میں سجدہ ہو۔
’تحفۃ القاری‘ میں ہے:ان دونوں سورتوں میں قیامت اور اس میں پیش آنے والے
احوال کا تذکرہ ہے، اور قیامت جمعے کے دن قایم ہوگی، اسی لیے چوپائے جمعے
کے دن کان لگاتے ہیں کہ قیامت کا صور تو نہیں پھونکا جا رہا، پس جمعے کے دن
مومنین کے سامنے بھی قیامت کے احوال پیش کرنے چاہئیں اور ان کو بھی چوپایوں
کی طرح قیامت کا تصور کرنا چاہیے۔
’تحفۃ الالمعی‘ میں ہے:حدیث میں اماموں کو ہلکی نماز پڑھانےکی نصیحت کی گئی
ہے؛ کیوں کہ جماعت میں بیمار، بوڑھے اور حاجت مند‘ سبھی لوگ ہوتے ہیں، پس
سب کی رعایت کر کے نماز پڑھانی چاہیے، اور فقہ کی کتابوں میں مسنون قرأت
کی جو مقدار بیان کی گئی ہے- یعنی فجر وظہر میں طوالِ مفصل ،عصر وعشاء میں
اوساطِ مفصل اور مغرب میں قصارِ مفصل- یہ مقدار حدیثوں کی روشنی میں تجویز
کی گئی ہے ،اور اتنی مقدار پڑھنا ہلکی قرأت کرنا ہے۔عمومی احوال میں مسجد
کی جماعت میں اس مقدار سے کم قرأت نہیں کرنی چاہیے۔اگر کوئی بیمار یا
بوڑھا ہے اور فجر میں مسنون قرأت کے بہ قدر کھڑا نہیں رہ سکتا، تو وہ بیٹھ
کر قرأت سنے یا گھر میں نماز پڑھے،اس کی رعایت میں مسنون قرأت میں تخفیف
نہیں کی جائے گی،البتہ اچانک پیش آنے والے احوال میں کمی بیشی کر سکتے
ہیں۔مثلاً نماز کے دوران امام نے محسوس کیا کہ بہت سے لوگ مسجد میں آئے
ہیں اور وضو کر رہے ہیں، تو امام قرأت طویل کر سکتا ہے،تاکہ لوگ وضو سے
فارغ ہو کر جماعت میں شامل ہو جائیں، یا صحن میں نماز ہو رہی ہے اور اچانک
بارش شروع ہو گئی، تو قرأت مختصر کرنے کی گنجائش ہے۔ غرض خصوصی احوال کی
بات الگ ہے، اور عمومی احوال میں مسنون قرأت کے مطابق نماز پڑھانا ہی نماز
میں تخفیف کرنا ہے۔
علامہ ظفر احمد عثمانیؒ فرماتے ہیں:احادیث سے حضرت نبی کریم ﷺ کا جمعے کے
دن فجر کی نماز میں ان سورتوں کا مواظبت کے ساتھ پڑھنامعلوم ہوتا ہے،’كان
يقرأ‘ کےصیغے سے اس کی طرف اشارہ ہوتا ہے، اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓکی
حدیث اس مفہوم کی تائید کرتی ہے،کیوں کہ اس میں’یدیم ذلک‘ (اس پر مداومت
فرماتے تھے) کے جملے کا اضافہ ہے، اس لیے فقہا ےاحناف فرماتے ہیں کہ اکثر
اِنھیں سورتوں کو پڑھنا چاہیے، لیکن ہمیشہ پڑھنے سے کہیں عوام اِنھیں واجب
نہ سمجھنے لگیں،اس لیے احیاناًدوسری سورت بھی پڑھ لینی چاہیے۔[ اعلاء
السنن]
علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں:’بحر‘ میںہے کہ جو سورتیں حضورِ اکرم ﷺ
نے خاص خاص نمازوں میںپڑھی ہیں، ان کا التزام اکثر مستحب ہے، اور یہی صحیح
ہے۔ لہٰذا ’کنز‘ وغیرہ کتبِ متون میںجو یہ ہے کہ تعیینِ سورت مکروہ ہے، اس
کا تعلق ماثورہ سورتوںسے نہیں ہونا چاہیے۔ [انوارالباری]
علامہ فخر الدین مرادآبادیؒفرماتے ہیں:اس (جمعے کے) دن کی ایک خصوصیت یہ
بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس دن کی فجر کی نماز میں بھی خاص سورتوں کی تلاوت
فرماتے تھے، چناں چہ (امام بخاریؒنے) ترجمہ منعقد کر دیا ’باب: ما یقرأ فی
صلوۃ الفجر یوم الجمعۃ‘۔ مقصد ان فقہا کی ترید بھی ہو سکتا ہے جو نمازیوں
کی دشواری کے پیشِ نظرسجدے والی سورتوں کو پڑھنا مکروہ کہتے ہیں، یا ان
فقہا کی تردید بھی پیشِ نظر ہو سکتی ہے جو کسی نماز میں خاص سورتوں کی
تعیین کے قائل نہیں۔ پہلی بات بعض مالکیہ کی طرف منسوب ہے اور دوسری بعض
حنفیہ کی جانب۔ مگر حنفیہ کے مسلک میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ خاص نمازوں میں
خاص سورتوں کو متعین نہ کرنے کا حکم صرف اس صورت میں ہے- جب اس کو لازم
سمجھ لیا جائےیا اس کے علاوہ دوسری سورتیں پڑھنا مکروہ سمجھا جائے- یہ بات
نہ ہو تو جن نمازوں میں جن سورتوں کا پڑھنا روایات سے ثابت ہے، ان کا
اختیار کرنا ہی افضل ہے، جیسے فجر کی سنتوں میں قل یا ایہا الکافرون اور قل
ہو اللہ أحد، یا وتر میں سبح اسم ربک الأعلی، قل یا أیہا الکافرون اور
قل ہو اللہ أحد کا پڑھنا احادیث سے ثابت ہے۔ [ایضاح البخاری]
’فتاویٰ عالمگیری‘ میں ہے:یہ مکروہ ہے کہ کسی نماز کے لیے کوئی سورت مقرر
کر لے، طحاوی اور اسبیجابی کا کہنا ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ نماز میں
اس سورت کو حتمی واجب سمجھ لے کہ اس کے سوا اور کوئی سورت ناجائز یا مکروہ
ہے، لیکن اگر آسانی کے واسطے کوئی سورت مقرر کر لے، یا جو سورت رسول اللہ
ﷺ سے ثابت ہوئی ہے اس کو تبرکاً پڑھا کرے، تو اس میں کراہت نہیں، لیکن اس
میں بھی شرط یہ ہے کہ اس کے سواکبھی اور کوئی سورت بھی پڑھ لیا کرے، تاکہ
کوئی جاہل یہ نہ سمجھے کہ اس کے سوا کوئی اور سورت جائز نہیں ہے۔
[ہندیۃ]’احسن الفتاویٰ‘ میں ہے:نمازِ فجر میں جمعے کے روز پہلی رکعت میں
سورہ سجدہ اور دوسری میں سورہ دہر پڑھنا فی نفسہٖ مستحب ہے ، لیکن اس پر
مداومت مکروہ ہے، تاکہ عوام اسے واجب نہ سمجھنے لگے، آج کل ائمۂ مساجد نے
اس مستحب امر کو بالکل ترک کر رکھا ہے ،یہ غفلت ہے اور اس کی اصلاح لازم
ہے۔
آخری بات یہ کہ جب ان سورتوں کو پڑھیں تو پہلی رکعت میں سورہ الم سجدہ
مکمل اور دوسری رکعت میں سورہ دہر مکمل پڑھیں، تبھی سنت ادا ہوگی، جیسا کہ
مسلم شریف کی روایت میں گزرا۔ویسے بھی ایک رکعت میں کسی سورت کا کچھ حصہ
اور دوسری رکعت میں کچھ حصہ پڑھنا پسندیدہ نہیں ہے، علامہ ابنِ قیمؒنے تو
اسے جاہل اماموں کا طریقہ کہا ہے۔[زاد المعاد]
[مضمون نگاردارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]
|