#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالحاقة ، اٰیت 38 تا 52
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فلا
اقسم بما
تبصرون 38 و
ما لا تبصرون 39 انہ
لقول رسول کریم 40 و
ما ھو بقولِ شاعر قلیلا ما
توؑمنون 41 ولا بقول کاھن
قلیلا ما تذکرون 42 تنزیل من
رب العٰلمین 43 و لو تقول علینا
بعض الاقاویل 44 لاخذنا منہ بالیمین
45 ثم لقطعنا منہ الوتین 46 فما منکم احد
عنہ حٰجزین 47 و انہ لتذکرة للمتقین 48 و انا
لنعلم ان منکم مکذبین 49 وانہ لحسرة علی الکٰفرین
50 و انہ لحق الیقین 51 فسبح باسم ربک العظیم 52
اے ہمارے رسول ! میری جو تخلیق آپ کے سامنے موجُود ہے اور میری جو تخلیق آپ
کے سامنے موجُود نہیں ہے میں آپ کو اپنی ہر دو تخلیق کے حوالے سے یقین
دلاتاہوں کہ ہم نے آپ کے دل پر جو تنزیل کی ہے اُس کے الفاظ کی اٙدائگی
ہمارے اُس نرم خُو نمائندے نے کی ہے جس کے الفاظ میں شاعر کا مبالغہ یا
کاہن کا اندازہ نہیں ہوتا اور اُس کا اٙدا کیا ہوا کوئی ایک لفظ بھی اپنے
مقام سے بے مقام بھی نہیں ہوتا بلکہ بالکُل اُسی طرح ہوتا ہے جس طرح اللہ
نے اُس پر نازل کیا ہوتا ہے ، اگر وہ اِس قول پر ایک کلمہِ تکرار کا اضافہ
بھی کر دیتا تو ہم اُسی لٙمحے اُس کو اپنی قاہرانہ گرفت میں لے لیتے اور
اُس سے تنزیل کا یہ کام بھی واپس لے لیتے اور میری مخلوق میں کوئی بھی
مُجھے میرے اِس کام سے روکنے والا ہر گز نہ ہوتا کیونکہ میری یہ تنزیل تو
یاد کرنے ، یاد کرانے اور یاد رکھنے کی ایک کتاب ہے اِس لِئے کہ اِس کی
ساری تلاوت و تکمیل میری نگرانی میں ہوئی ہے ، جو لوگ میری اِس تنزیل کو
جُھٹلانا چاہیں گے تو اُن کے جُھٹلانے کی حسرت اُن کے دل میں ہی دفن ہو کر
رہ جائے گی لہٰذا آپ اِن کی باتوں پر کوئی توجہ دیئے بغیر ہی اِس کلام کے
ابلاغ اور تبلیغ میں مُنہمک رہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن آخری اٰیات کا آغازِ کلام اُس کلمہِ قسم { اُقسمُ } سے
کیا گیا ہے جس کلمہِ قسم سے کبھی اُس کلام کے سُننے والے کے دل میں اُس
کلام کے بارے میں پیدا ہونے والے شک کو دُور کرنا مقصود ہوتا ہے ، کبھی اُس
کلام کے سُننے والے کے دل میں اُس کلام کی عظمت کو اُجاگر کرنا مقصود ہوتا
ہے اور کبھی اُس کلام کے اُس سُننے والے کی حوصلہ افزائی کرنا مقصود ہوتا
ہے جس کلام کے سُننے والے کو اُس کلام کے سُننے کے بعد اُس کلام کے سُنانے
پر مامُور کیا جاتا ہے ، چونکہ اِس کلام کے مُخاطب دو بار دُھرائے گئے
صیغہِ { تبصرون } کی رُو سے سیدنا محمد علیہ السلام بذاتِ خود ہیں اِس لئے
اِس قسم کا مقصد شک دُور کرنا نہیں ہے کیونکہ نبی کے دل میں اپنے دل پر
نازل ہونے والی تنزیل کے بارے میں کبھی بھی کوئی شک پیدا نہیں ہوتا اور اِس
قسم سے آپ کے دل میں اِس کلام کی عظمت اُجاگر کرنا بھی مقصود نہیں ہے
کیونکہ نبی کے دل میں اپنے دل پر نازل ہونے والی تنزیل کی عظمت یومِ اٙوّل
سے ہی اُجاگر ہوچکی ہو تی ہے اِس لئے لامحالہ اِس قسم کا مقصد سیدنا محمد
علیہ السلام کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور چونکہ اِس کلام میں آنے والے
صیغہِ جمع کے خطاب { تبصرون } میں آپ کے ساتھ اٙفرادِ اُمت بھی ہیں اِس لئے
آپ کے اٙفرادِ اُمت کی تفہیم کے لئے اِس کلام میں قُرآن نے یہ حقیقت بھی
شامل کردی ہے کہ یہ تنزیل جو اِس اُمت کو اُس کے نبی کی لسانِ نبوت سے
سُنائی جارہی ہے یہ اُس اللہ کی طرف سے نازل کی گئی ہے جو اپنے سارے جہانوں
میں یہ تنزیل نازل کر رہا ہے اور سُورٙةُالتکویر کی اٰیت 19 و 20 میں یہ
اٙمر بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ تنزیل زمین کے ہر ایک رسول پر آسمان کے
اُس ایک رسول کے ذریعے نازل کی جاتی ہے جو آسمان کی بلندیوں میں رہنے والوں
میں سب سے طاقت ور ہستی ہے اور اِس مقام پر رسول سے مُراد وہی آسمان کا سب
سے بڑا رسول ہے جس کا زمین کے سب سے بڑے رسول کے سامنے ذکرِ خیر کیا گیا ہے
اور اِس ذکرِ خیر کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح وہ رسول آسمان میں خُدا کے علمِ
وحی کا سب سے بڑا ترجمان ہے اسی طرح آپ بھی زمین میں خُدا کے علمِ وحی کے
سب سے بڑے ترجمان ہیں ، قُرآن نے سُورٙةُالبقرة کی اٰیت 97 و 98 میں بیان
کیا ہے کہ اہلِ کتاب جو اُس آسمانی رسول کو جبریل کہتے تھے وہ اُس آسمانی
رسول جبریل کے اِس بنا پر دشمن بنے ہوئے تھے کہ اُن کے خیال کے مطابق آسمان
کا وہی جبریل اِن کا اٙصل دشمن تھا جو زمین پر اِس رسولِ زمین کے لِئے
آسمان سے وحی لاتا تھا اور یہ اہلِ کتاب جو زمین کے اِس رسول کے تکذیب کا
کوئی ثبوت نہیں لا سکتے تھے تو وہ اپنے شیطانی گماشتوں کو اطمینان دلانے کے
لئے یہ کہتے رہتے تھے کہ ہم کیا جانیں کہ جبریل جو ہمارا اٙزلی دشمن ہے وہ
ہم سے اپنی اٙزلی دشمنی نکالنے کے لئے زمین کے اِس نبی پر ہمارے خلاف وہ
باتیں بھی نازل کر رہا ہو گا جو ہم میں نہیں ہوں گی لیکن ہم سے منسوب ہو
جائیں گی اِس لئے قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کی اٰیت 44 ، 45 اور 46 میں
اُن کے اُس وہم کا جو جواب دیا ہے اُس کے لئے لفظِ قول کا استعمال کرنے کے
بجائے لفظِ { قوّل } کا استعمال کیا ہے جو { قول } سے ایک مُختلف لفظ ہے
کیونکہ مُجرد قول سے مُراد ایک بار کہی جانے والی ایک بات ہوتی ہے جب کہ
قوّل جو حرفِ واوؑ کی تشدید کے ساتھ آتا ہے اُس میں وہ مبالغہ ہوتا ہے جس
مبالغے کے ساتھ وہ بات بار بار دُھرائی جاتی ہے اور ایک قوّال کو بھی اسی
بنا پر قوّال کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہی بات کو بار بار دُھراتا رہتا ہے ،
اٰیتِ بالا میں اللہ نے اِس حرفِ مبالغہ کا استعمال کر کے یہ استدلال کیا
ہے کہ جبریل کا اپنی طرف سے وحی میں کوئی کلمہ شامل کرنا تو ایک بُہت ہی
دُور از کار بات ہے اور اٙمرِ واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ ہماری ایک بار کہی
ہوئی بات کو مبالغہ کر کے تکرار کے ساتھ بھی ہمارے نبی کو بتانے کی جرات
کرتا تو ہم اُس کو اُسی لٙمحے اپنی قاہرانہ گرفت میں لے لیتے اور قُرآن نے
اِس اٙمر کے اظہار کے لئے جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ { وتین } ہے جس کا
لُغوی معنٰی سیلِ رواں کو روکنا ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر جبریل اِس
قسم کی جسارت کرتا تو ہم اُس کی فوری گرفت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ
اُس سے وحی کی ترسیل و تنزیل کا وہ کام لینا بھی فورا واپس لے لیتے جو کام
وہ ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے کر رہا ہے لیکن قُرآن کی اِس تفصیلِ مُفصل کے بعد
بھی اہلِ روایت و تفسیر نے پہلے تو اِس سُورت کی اِن اٰیاتِ بینات سے یہ
خانہ ساز قانون وضع کیا ہے کہ جو شخص نبوت کا جُھوٹا دعوٰی کرتا ہے ہم پہلے
تو اُس کا داہنا ہاتھ پکڑلتے ہیں اور پھر اُس کی شہ رٙگ کاٹ دیتے ہیں اور
اِس دعوے کے بعد یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے اِس ارشاد سے نبی علیہ
السلام کی ذات مُراد نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مُراد ہے جو آپ کے بعد کبھی
نبوت کا دعوٰی کرے گا لیکن اُن کی یہ بات مشاہدہِ عام کی رُو سے ایک باطل
بات ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے کسی بھی جُھوٹے مُدعی نبوت کو ایسی کوئی سزا
نہیں دی ہے کیونکہ اٙصل بات یہ ہے کہ اِن اٰیاتِ بینات میں جو بات ہو رہی
ہے وہ زمین کے اُس زمینی رسول کے ساتھ ہو رہی ہے جو زمین پر اہلِ زمین کو
اپنی وحی سناتا ہے اور جس رسول کے بارے میں بات ہو رہی ہے وہ اُس آسمانی
رسول کے بارے میں ہو رہی ہے جو آسمان سے زمین کے رسول کی طرف وحی لاتا ہے
اور اِس سیاق و سباق میں اہلِ روایت و تفسیر کا مُحوّلہ بالا دعوٰی بھی
باطل ہے اور اُس دعوے کی وہ دلیل بھی باطل ہے !!
|