پتنگ اڑانے کی اجازت مانگنا مہنگا پڑ گیا٬ باپ نے بیٹے کی جان لے لی۔۔۔ ایسے خوفناک واقعات کو جنم دینے والی چند وجوہات جن پر غور کرنا ضروری

image
 
آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ کراچی میں ایک دل دہلا دینے والے افسوس ناک واقعے نے لوگوں کی نیندیں اڑا دیں غیر تسلی بخش پڑھائی نہ کرنے پر بیٹے کو باپ نے زندہ جلا دیا۔12 سالہ شہیر پر اس کے والد نذیر خان کو شدید غصہ آیا کیونکہ وہ اپنی پڑھائی اور ہوم ورک کے بارے میں باپ کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکا۔ اتوار کے روز یہ خبر سامنے آئی کہ کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں ایک باپ نے مبینہ طور پر اپنے بیٹے پر مٹی کا تیل ڈال کر زندہ جلا دیا کیونکہ وہ بیچارہ بچہ اپنی پڑھائی کے بارے میں "تسلی بخش" جواب دینے میں ناکام رہا تھا ۔12 سالہ شہیر مقامی ہسپتال میں دو دن گزارنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
 
شہیر نے اپنے والد نذیر خان کی جانب سے ناپسندیدگی کے باوجود 14 ستمبر کو پتنگ اڑانے پر اصرار کیا۔ دونوں کے درمیان گفتگو کے دوران نذیر نے اپنے بیٹے سے اس کی پڑھائی اور ہوم ورک کے بارے میں پوچھا۔ باپ پر بیٹے کی ضد کا طیش چڑھا ہوا تھا بدقسمتی سے بچہ اپنے والد کو "تسلی بخش" جواب دینے میں ناکام رہا، بیٹے کو ڈرانے کے لیے باپ نے اس پر مٹی کا تیل پھینکا جس سے بچہ خوفزدہ ہوگیا۔ اسے مزید خوفزدہ کرنے کے لیے نذیر نے ماچس کی اسٹک بھی جلائی اور اسے شہیر پر پھینک دیا جس سے وہ فوراً آگ کی لپیٹ میں آگیا۔
 
باپ نے غصے کی حالت میں ایسا کر تو دیا لیکن جب اس کو اپنے کئے کا ہوش آیا تو بچہ بری طرح آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا بچے کی چیخیں سن کر اس کی والدہ شازیہ اسے بچانے کے لیے آئیں۔ نذیر نے اپنے بیٹے کو کمبل ڈال کر بچانے کی کوشش بھی کی لیکن اب یہ سب بے سدھ تھا۔ شہیر کو فوری طور پر سول اسپتال کراچی لے جایا گیا۔ تاہم بچہ 16 ستمبر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔۔ یہ ایک بہت ہی انتہائی قدم تھا باپ نشے میں یا کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
 
image
 
پولیس اہلکار اورنگی ٹاؤن میں نذیر کی رہائش گاہ پہنچے لیکن وہ نہ مل سکا۔ بعد ازاں پولیس نے متاثرہ کی والدہ کے رشتہ دار سے رابطہ کیا جس پر اس نے پولیس کو واقعے سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں شازیہ کی جانب سے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد نذیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اپنے ابتدائی بیان میں نذیر نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا اور واقعے کی مزید تفتیش جاری ہے۔
 
آخر معاشرے میں پھیلی اس فرسٹریشن کا کیا علاج ہے؟ پہلے یہ سب واقعات اتنی تواتر کے ساتھ سننے میں نہیں آتے تھے لیکن اب ہر دوسرے تیسرے روز اس طرح کی خبریں سننے میں آرہی ہیں کیا یہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی دماغی بیماریوں کی طرف توجہ دلا رہی ہیں۔ غصے کو اسی لئے حرام قرار دیا گیا ہے۔ جہاں والدین اپنے اخراجات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں وہیں اولادیں اپنے والدین کی پریشانیوں کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
 
کیا یہ سب رشتوں کے درمیان دوری کا نتیجہ ہے؟ یقیناً اب ایک گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے کی دماغی الجھنوں کو نہیں جانتے کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت موبائل فون پر گزرتا ہے۔ ہم اب اپنے مخلص رشتوں سے دور موبائل فون کی ایک بناوٹی زندگی میں جی رہے ہیں۔ انسان طبیعتاً خالص زندگی خالص رشتوں میں مطمئن رہتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ماں دکھا رہی کہ اس کے بیٹے نے موبائل لے لینے کی صورت میں گھر میں بری طرح توڑ پھوڑ کی۔
 
image
 
امریکہ میں تو بچوں میں ڈپریشن بہت عام ہوتا جا رہا ہے اور اب یہاں بھی اس طرح کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون ایک نشے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے جس میں عمر کی کوئی قید نہیں، بچے بڑے سب اس کی لپیٹ میں ہیں۔ خدارا اپنی گھریلو زندگی پر توجہ دیں ورنہ یہ لائف اسٹائل ہمیں ایک زہنی ازیت میں گھرے معاشرے میں بدل دے گا جہاں رشتوں سے اعتبار اٹھ جائے گا، گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پر توجہ دیں آپس کے مسائل کو سمجھیں اور انھیں حل کرنے کی کوشش کریں ورنہ آہستہ آہستہ خالص رشتے ہمیں صرف کتابوں ہی میں ملیں گے اور آئے دن اس طرح کے سفاک واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اس معاشرے میں پھیلنے والی بیماری کو ہم نے مل کر روکنا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: