جاپانی زلزلے کے دوران گھر میں ہی کیوں رہتے ہیں؟ جاپان کے کچھ حیران کن کام جبکہ پاکستان کے لیے آفت امداد کا سنہری موقع

image
 
(11مارچ کی دوپہر 2:45۔ٹوکیو،2011)وہ کمپیوٹر پر کچھ کام کر رہی تھی کہ اچانک ایک گھڑگھڑاہٹ کی آواز محسوس ہوئی اور زمین نے لرزنا شروع کر دیا۔ جاپان میں زلزلے آنا عام بات ہے لیکن یہ زمین کا ارتعاش تو بڑھتا ہی جا رہا تھا اس کی پریشانی اب بڑھنا شروع ہو گئی چھوٹی بیٹی تو اس کے پاس ہی تھی لیکن اس کے دو بچے قریبی اسکول میں پڑھتے تھے اور شوہر آفس تھے۔
 
جاپان میں عمارتیں زلزلہ پروف بنائی جاتی ہیں اور سختی سے ہدایات ہوتی ہیں کہ بلڈنگ کے اندر رہیں کیونکہ سڑکوں پر برقی تاریں گرنے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن وہ اپنے بچوں کے لئے فکرمند تھی زمین پر قدم رکھنا انتہائی دشوار ہو رہا تھا لیکن وہ جیسے تیسے دعا کرتی ہوئی ہمت کر کے اپنے اپارٹمنٹ سے باہر نکلی دل بہت ڈرا ہوا تھا۔۔ نہ جانے کیا ہونے والاتھا ۔ زمین ابھی بھی حرکت میں تھی ۔ باہر نکلی تو دیکھا سڑک پر کچھ پروفیشنل لوگ عمارتوں کو چیک کر رہے تھے کہ ان کی بنیادیں ہلی تو نہیں ہیں۔ پالتو کتے خوفزدہ آوازیں نکال رہے تھے۔ وہ اور اس کے اڑوس پروس کی چند عورتیں اپنے بچوں کو لینے اسکول کی طرف بھاگے جا رہی تھیں، اسکول پہنچی تو منظر کچھ یوں تھا، ٹریننگ کے مطابق بچے اور ان کے ٹیچرز زلزلے کے لئے بنائی گئی مخصوص ٹوپیاں پہنے (تاکہ ان کے سر محفوظ رہیں) میزوں کے نیچے بیٹھے ملے۔ اب زلزلے کے بعد دوسرا خوف سونامی کا تھا۔ سونامی وارننگ کے الارم ہر طرف بج رہے تھے قیامت کا منظر تھا۔۔۔۔۔
 
جاپان کے مشرقی ساحل پر 2011 کے" توہوکو" زلزلے اور سونامی نے تقریباً 20,000 افراد کو ہلاک کر دیا، جس نے میاگی، فوکو شیما اور سینڈائی پریفکچرز کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ اس تباہی کے تناظر میں حکومت نے نئے سونامی دفاعی نظام کی تعمیر کے لیے 12 بلین ڈالر مختص کیے۔ واضح رہے کہ جاپان کے تارو قصبے نے 1896 اور 1933 میں دو تباہ کن سمندری طوفانوں کا سامنا کیا تھا اسی لئے جاپان میں سونامی سے بچاؤ کے لئے کنکریٹ کی سمندری دیواریں کھڑی کی گئی تھیں۔ ان سمندری دیواروں کو 8 میٹر تک کی لہروں کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا لیکن 2011 کے زلزلے میں سونامی کی لہروں کی اونچائی 12 سے 15 میٹر تک پہنچ گئی تھی۔
 
یہ قوم اپنے تجربوں سے سیکھتی ہے اور نت نئی جدتوں میں لگی ہوتی ہے۔ اب تقریباً 400 کلومیٹر لمبی کنکریٹ کی دیواریں ساحل کے ساتھ کھڑی کی گئی ہیں جو مضبوط لہروں کو کمزور کرنے اور اگلی آفت کے دوران لوگوں کو انخلاء کے لیے وقت ملنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہیں۔ یہ نئے ڈھانچے ان سے اونچے ہیں جو پہلے کھڑے تھے کچھ علاقوں میں 14.7 میٹر تک بلند ہے، جس کی بنیادیں تقریباً 25 میٹر گہری ہیں۔
 
image
 
سمندر کی دیواریں طویل عرصے سے جاپان کی ساحلی پٹی کا حصہ رہی ہیں اور صدیوں سے اس ملک نے ساحلی انجینئرنگ میں عالمی رہنما کے طور پر اپنا نام بنایا ہے۔ لیکن 11 مارچ 2011 کو ان کی یہ جدت ناکافی تھی۔ ان دیواروں نے سونامی کی طاقت کو کم تو کر دیا تھا لیکن اونچی ہونے کی وجہ سے لہریں دیواروں کے اوپر سے گزر گئیں اور فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر کو تباہ کر دیا۔ ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ ہو گئی۔
 
دیوار پر اٹھائے گئے چند اعتراضات:
محققین کو ایک تشویش یہ ہے کہ سمندر پر تعمیر انتہائی اونچی دیواریں درحقیقت سونامی کے اثرات کو مزید خراب کر سکتی ہیں ڈیم جیسی ناکہ بندی، ٹوٹنے کی صورت میں تباہ کن کچرے میں مزید اضافہ کر سکتی ہیں۔ کچھ رہائشیوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ کچھ علاقوں میں دیواریں تقریباً چار منزلہ اونچی ہیں جو سمندر کے نظارے کو مکمل طور پر روکتی ہیں اور مقامی لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی جیل میں ہیں۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دیواریں سیاحوں کی دلچسپی کو ختم کر سکتی ہیں ساتھ ہی سمندر کے قریب اپنی کمیونٹی کی معاش اور ثقافت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
 
مزید برآں سونامی کو روکنے کے لئے پارکوں کے قیام کی تجویز دی گئی ہے کیونکہ سبز عناصر، جیسے سبز پہاڑیوں اور درختوں کو کنکریٹ انجینئرنگ کے ساتھ ملا کر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مورینو پروجیکٹ نے ساحل پر کنکریٹ کے بریک واٹر بنانے کی تجویز پیش کی ہے جس کی پشت پر گہری جڑوں والے درخت لگائے جائیں گے تاکہ سونامی کی لہروں کی طاقت کو کمزور کرنے اور بہتی ہوئی اشیاء کو روکنے میں مدد ملے۔ ایک اور حربہ یہ بھی ہے کہ ساحل سے مزید اونچے مقام کو منتقل ہوا جائے۔ کئی میونسپلٹیوں نے پہلے ہی اپنی عوامی سہولیات کو اونچی جگہ پر منتقل کر دیا ہے اور کچھ نے ساحل کے قریب فلیٹ لینڈز پر تعمیرات پر پابندی لگا دی ہے۔
 
image
 
جاپان میں سونامی کی تباہی نے ہمیں دکھایا کہ سونامی پروف شہر بھی ناقابلِ تباہی نہیں ہیں لیکن محفوظ شہروں کو ڈیزائن کرنے کی کوشش مسلسل جاری ہے۔ قدرتی آفت کا مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے حفاظت کی تدبیریں تو ہو سکتی ہیں، آج ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ مہینوں پہلے سے کی گئی پیشن گوئیوں کے باوجود ملک سیلاب سے پیدا ہونے والی بدترین تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے۔ ہم نے کب اس سیلاب سے بچاؤ کے لئے حفاظتی تدابیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم تو بس بیرونی امداد کے منتظر رہتے ہیں کوئی آفت آئے اور ہم اس زمرے میں بیرونی امداد سمیٹ سکیں۔ لیکن عوام کی ایک عزت نفس ہے ہم ایک خود دار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باشندے ہونے کی حیثیت سے ایک باعزت قوم بننا چاہتے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: