ہائے ہمارے دوہرے معیار ۔۔!!

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں پر بہت س باتیں ہمیں اپنے لیے تو ٹھیک لگتی ہیں لیکن وہی کام جب کوئی دوسرا کرے تو ہمارا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ اگر ایک بات ہمارے لیے درست ہے تو وہ دوسروں کے لیے کیوں نہیں ٹھیک ؟ اگر ہم ایک کام کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں تو وہ دوسروں کے لیے بھلا ناجائز کیسے ہو سکتا ہے ؟ آخر ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ ہم کس سمت جا رہے ہیں ؟ کبھی سوچا آپ نے ؟ افسوس کے ساتھ ان سب کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے ، ہمارے دوہرے معیار ۔ اسی لیے تو ہم خود کو فرشتہ صفت اور دوسروں کو انسان ہونے کا مارجن بھی نہیں دیتے ۔ کیا اس سب میں معاشرے کا قصور ہے ؟ یا پھر ہمارا خود کا ؟ معاشرہ بھی تو ہم سے ہی مل کر بنتا ہے ۔ کوئی خلائی مخلوق تو ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں جسے ہم مورز الزام ٹھہرائیں ۔ آج یہ عالم ہے کہ خودکشی کو تو حرام قرار دیا جاتا ہے جبکہ کسی کو اتنا ستانا کہ وہ اپنے لیے موت مانگنے پر مجبور ہو جائے ، حلال سمجھا جاتا ہے ۔ شراب ہم پر حرام ہے لیکن دوسروں کا خون پینے کو ہم اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ رشوت اور سود تو ہمارے لیے حرام ہے جبکہ دوسروں کی حق تلفی جائز خیال کی جاتی ہے ۔ محرم اور میلاد کی نیاز کھانے پر تو فتوے ہیں جبکہ یتیموں اور بیواؤں کا حق کھانے کو ہم حلال سمجھتے ہیں ۔ اگر ہمارے پاس دولت کی فراوانی ہو تو اس میں ہماری محنت لیکن یہی سب اگر ہم کسی دوسرے کے پاس دیکھ لیں تو ہم سوچتے ہیں یہ ناجائز طرز سے حاصل کی گئی ہے ۔ ہم کسی کے کردار پر بات کریں تو تبصرہ اگر دوسرا کرے تو غیبت ۔ ہم ناکام ہو جائیں تو حالات کا قصور جبکہ دوسرا ہو تو وجہ اس کی نااہلی ۔ دوسروں کی بہن بیٹی کو ہم نوچ کھانے کو تیار رہتے ہیں مگر ہماری اپنی عورت کے سر سے دوپٹہ بھی نہ پھسلنے پائے ۔ ہم جہیز کو ایک لعنت سمجھتے ہیں تب جب اپنی بیٹی کو دینا پڑے ۔ لیکن دوسرے کی بیٹی کو ہم بنا جہیز کے قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے ۔ اگر بیٹا پسند کی شادی کرے تو قابل فخر لیکن اگر بیٹی اپنی پسند کا اظہار کر دے تو غیرت کے نام پر قتل ۔ اگر عورت کوٹھے پر رقص کرے تو طوائف لیکن اگر کالجز اور یونیورسٹیوں کی تقریبات میں ڈانس کرے تو اسے یوتھ فیسٹیول کا نام دیا جاتا ہے ۔ عورت ٹھیک نہ ہو تو فوراً طلاق جبکہ مرد بدکردار نکلے تو صبر کی تلقین ۔ اپنے بیٹے میں بھلے لاکھ خامیاں ہوں لیکن بہو چاہیے چاند جیسی وہ بھی بنا داغ کے ۔ اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو اس میں عورت کا قصور اور اگر بیٹے کا جنم ہو تو مرد کی خوش قسمتی ۔ بیٹا بہو کے حق میں بولے تو زن مرید اور اگر داماد بیٹی کے لیے سب کے سامنے کھڑا ہو جائے تو دنیا کا سب سے اچھا انسان ۔ آخر کیوں ؟ کیا یہ منافقت نہیں ؟ ہم یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں ؟ ہمیں کس بات کی خوش فہمی ہے ؟ کس قدر بے باکی سے سارا مدعا دوسروں پر ڈال کر ہم خود بری الزماں ہو جاتے ہیں ۔ یہ سب کرتے ہوئے ہمارا دل کیوں نہیں کانپتا ؟ کیوں ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں ؟ آخر اس سب میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ اگر آپ یہ سوال خود سے کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ سب کر کے ہم محض خود کو دھوکا دے رہے ہوتے ہیں کسی دوسرے کو نہیں ۔ لہذا خود پر تھوڑا رحم کیجئے ۔ خود بھی جیئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیجئے ۔
 

Somia Akram
About the Author: Somia Akram Read More Articles by Somia Akram: 2 Articles with 909 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.