تبدیلی کا تعلق کس سے ہے ؟

ہم سب نے تبدیلی کے بہت سے نعرے سن رکھے ہیں ۔ بڑے بڑے وعدے اور باتیں بھی سنی ہیں ۔ کیا ان نعروں ، باتوں اور وعدوں سے آئی تبدیلی ؟ اگر آئی ہے تو کہاں پر ہے یہ تبدیلی ؟ یہ نظر کیوں نہیں آتی ؟

آج میرے دیس کا یہ حال ہے کہ یہاں پر غریب غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور امیر امیر ترین ۔ ایک طرف امیروں کے کتے بھی معیاری اور مہنگی خوراک کھاتے ہیں جبکہ دوسری جانب غریب کا بچہ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی ترستا ہے ۔ کیا یہ ہے تبدیلی ؟کیا اس لیے ہمارے آباؤ اجداد نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات حاصل کی تھی ؟ کیا اس لیے حاصل کیا گیا تھا یہ الگ وطن ؟ آخر کیا تھا قیام پاکستان کا مقصد ؟

ہمیں تو بس یہ یاد ہے انگریزوں اور ہندوؤں نے ہم پر بہت ظلم کیے تھے ۔ اور پھر پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہو گیا ۔ اور ہمیں ہر سال 14 اگست کے دن آزادی کی خوشی میں باجے بجانے ہیں ۔ ہمیں انگریزوں اور ہندوؤں کے سارے ظلم یاد ہیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہم جو زیادتی خود اپنے وطن کے ساتھ کر رہے ہیں وہ ہمیں نظر ہی نہیں آتی ۔

کیا ہم نے کبھی اپنے ملک کی تاریخ پڑھنے کی کوشش کی ؟ افسوس کے ساتھ تاریخ پاکستان محض مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں ہی زندہ ہے جنہیں زیادہ تر امتحان سے ایک روز قبل ہی کھولا جاتا ہے ۔ ہمارے بچوں کو تو کیا ہمیں خود اپنے ملک کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں پتا ۔ ہم سوچتے ہیں ہمیں آزادی تو مل گئی ۔ اب تاریخ پڑھ کر کیا کرنا ہے ؟ بس 14 اگست کو اپنے گھروں میں جھنڈے لگا لیں گے ۔ کیا محض پرچم لہرانے اور باجے بجانے سے ہمارا فرض ادا ہو جاتا ہے ؟

پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ۔ کیا یہاں پر واقعی اسلامی طرز زندگی نافذ ہے ؟ اگر ہے تو یہاں کمزور کی کوئی کیوں نہیں سنتا ؟ سارے قوانین انہی پر لاگو کیوں ہوتے ہیں ؟ امیروں کے لیے قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا ؟ اسلام تو مساوات کا درس دیتا ہے ۔ کیا یہاں پر ایسے مساوات قائم ہونا تھی ؟ کیا اس لیے ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تھا ؟ حقیقت تو یہ ہے اسلام ہمارے دلوں میں داخل ہوا ہی نہیں ۔ ہم بس نام کے ہی مسلمان ہیں کام کے نہیں ۔

ہم اکثر اپنے سیاستدانوں سے گلہ کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ملک لوٹ گئے ۔ تو میرا سوال یہ ہے ان سیاستدانوں کو اقتدار میں لانے والے کون لوگ ہیں ؟ یقیناً ہم خود ۔ ہمارے پاس ووٹ کی طاقت موجود ہے ۔ کیا ہم نے اس کا کبھی صحیح استعمال کیا ؟ اگر کیا ہوتا تو کم از کم آج جو حال ہے اس ملک کا ۔۔۔ وہ کبھی بھی نہ ہوتا ۔

ہمارے بعد آزاد ہونے والے ہمارے ہمسایہ ملک چین نے ہر شعبے میں ترقی کر لی ہے ۔ اور ٹھہرے ہم ۔۔۔ پیچھے کے پیچھے ۔ اور کیوں نہ پیچھے ہوں ؟ جبکہ ہم خود تبدیل ہونا ہی نہیں چاہتے ۔ قصور ہمارے حکمرانوں کا نہیں بلکہ ہمارا ہے ۔ کیا ہم نے کبھی انفرادی طور پر تبدیلی لانے کی کوشش کی ؟

اب یہاں پر ہم یہ سوچتے ہیں میرے ایک کے تبدیل ہونے سے کیا فرق پڑے گا ۔ تو پڑے گا فرق ۔۔۔ یقیناً پڑے گا ۔ جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بناتا ہے بالکل اسی طرح افراد سے مل کر قوم بنتی ہے ۔ اگر ہمیں یہ بات سمجھ آ جائے تو ہم خود کو انفرادی طور پر ٹھیک کرنا شروع کر دیں ۔

اب وقت آ گیا ہے ہمیں یہ سمجھ آ جانا چاہیے کہ تبدیلی کا تعلق باہر سے نہیں بلکہ ہمارے اندر سے ہے ۔ انڈہ جب باہر سے ٹوٹتا ہے تو زندگی ختم ہوتی ہے ۔ وہی انڈہ اگر اندر سے ٹوٹے تو زندگی جنم لیتی ہے ۔ ہمیں خود کو اندر سے ٹھیک کرنا ہوگا ۔ ہم سب کو اپنے حصے کا کام کرنا پڑے گا ۔ تبدیلی اجتماعیت سے نہیں ، انفرادیت سے آتی ہے ۔ اگر آپ اپنی ذات کے ساتھ ہی انصاف کرنا شروع کر دیں تو سمجھ لیجئے آپ نے اپنے حصے کی شمع روشن کر دی ۔

ہم سے ہے یہ پیارا وطن ۔ اپنے وطن سے محبت کا حق ادا کیجئے ۔ اور خود سے عہد لیجئے خواہ کیسے بھی حالات ہوں آپ اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائیں گے ۔ ہمیں محض باتیں نہیں کرنی ۔ اب عمل کرنے کا وقت ہے ۔ ورنہ خالی نعروں کی گونج سے صوتی آلودگی ہی پیدا ہوتی ہے اور کچھ نہیں ۔
 

Somia Akram
About the Author: Somia Akram Read More Articles by Somia Akram: 2 Articles with 910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.