موجودہ دور کو ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے ٹیکنالوجی کے اس دور میں نسل
نو مادی اور دنیاوی اعتبار سے مالا مال ہے لیکن مذہبی اخلاقی اور ثقافتی
لحاظ سے انتہائی تنزل کا شکار ہے ۔نسل نو نے اپنی مذہبی اور اخلاقی روایات
کو بھلا کر اغیار کے طرز زندگی کو اپنا لیا ہے
نوجوان نسل کسی کو معاشرے کا عظیم سرمایہ ہوتی ہے معاشرے اور قوم کی ترقی
اور پستی کا معیار صرف نوجوان نسل پر ہی منحصر ہوتانوجوان ہی قوم کی
کامیابی اور ناکامی کا معیار ثابت کرتے ہیں لیکن نسلِ نو اپنی اقدار کھو
چکی ہے .وہ مغربی معاشرے کی عکسی تصویر بن چکی ہے.انہوں نے اپنا معیار
زندگی یورپی طرز زندگی کو تسلیم کرلیا ہے ۔ وہ اسی میں اپنی پوری قوت کے
ساتھ سرگرداں ہے
.۔نسل نو میں ترقی اور ثقافت کے نام پر کیا کچھ نہیں ہورہا ہے ان کے رہن
سہن، معاملات، رکھ رکھاؤ، معاشرت ،چال چلن، اوڑھنا بچھونا، سوچ و فکر سے
مغربی انداز جھلکتا ہے۔مخالف جنس کی پرستش گرل فرینڈ ،
بوائے فرینڈ کلچر کے نام پر ہمارے تعلیمی ادارے کیا کچھ گل نہیں کھلا رے
ہیں۔
نسل نو یورپی ذہنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی جاچکی ہے۔ انہیں اپنا شاندار
اور جاندار ماضی بھول چکا ہے ہم کون تھے، کیا تھے، کیوں آئے تھے ،مقصد حیات
کو یکسر بھول بیٹھے ہیں۔ صرف کمانا اور اچھا رہین سہن یاد ہے آ ہ! ۔ نسل نو
صرف مغرب کی تاریکی میں ڈوب چکی ہے وہ نوجوان جن کے آئیڈیل خالد بن ولید،
طارق بن زیاد،سلطان ، صلاح الدین ایوبی ، حضرت عمر جیسے لوگ تھے آج انہیں
وہ بھلائے بیٹھے ہیں جنہوں نے دنیا کی تاریخ بدل ڈالی تھی ۔
نسل نو کو یورپی اور اغیار کے لونڈے اور لونڈیوں کے نام، کردار تو یاد ہیں
لیکن یاد نہیں تو اپنا ماضی،اپنے اکابر کا کردار کا یاد نہیں کہ ہم کون
ہیں۔ نسل نو یورپی مادی زندگی میں اس قدر گرم ہو چکی ہے کہ انہیں فرصت ہی
نہیں کہ اپنا کلچر اپنا معیار زندگی اپنے اسلاف کی زندگیوں اور اپنے شاندار
اور آفاقی ماضی کا مطالعہ کر سکیں ۔
ہماری جامعات تو یورپی کلچر کی عملی تصویر ہیں ۔ نسل نو کی ذہنی سوچ اس قدر
گر چکی ہے کہ وہ مادیت پرستی کو کسی بھی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں ۔
نسل نو میں بڑھتی ہوئی منشیات پسندی نے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے ۔وہ
نوجوان جو کبھی قوم اور معاشرے کے معمار ہوتے تھے انہیں مادیت پرستی نے
منشیات پسندی ، مایوسی ، ڈپریشن، ٹینشن جیسے ناسور میں مبتلا کر دیا ہے ۔وہ
کسی شاٹ کٹ طریقہ کار کی تلاش میں ہوتے ہیں ان میں مستقل مزاجی کا عنصر ختم
ہو کر رہ گیا ہے۔
مسلمان اور ڈپریشن یہ دو لفظ بڑے عجیب سے لگتے ہیں مسلمان کو تو ڈیپریشن ہو
ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ اپنا ایک شاندار ماضی رکھتا ہے ۔اس کے سامنے اسلام
ایک مکمل ضابطہ حیات کی صورت میں موجود ہے پھر یہ ڈپریشن کا شکار کیوں ہے۔؟
نسل نو میں بڑھتا ہوا ڈپریشن مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کاوہ موذی مرض ہے
جو ہماری نسل نو کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ادویات میں
ڈپیریشن کی دوا سہر فہرست ہے ۔مغرب کی پیداوار جدید ٹیکنالوجی کے بھاؤ میں
نسل نو پانی کی طرح بہی جا رہی ہے۔ والدین کی عزتیں نیلام ہیں ۔گناہ بے لذت
میں نسل نو اس قدر گم ہو چکی ہے کہ ان رشتے ناطوں تک کا ہوش نہیں رہا۔ گھر
برباد ہورہے ہیں۔ اخلاقیات بالکل ختم ہی ختم ہیں ۔ مایوسی اور عدم برداشت
کا مرض نسل نو میں عام ہوتا جا رہا ہے ۔نسل نو مغربییت مادہ پرستی کی دلدل
میں پھنسی جا چکی ہے انہیں اپنے مستقبل کا کوئی علم نہیں ہے کیا کرنا چاہیے
۔کیا کر ر ہیں ۔مادیت پرستی نے مایوسی اور ذاتی انا کو فروغ دیا۔ ذاتی انا
اور حرص و لالچ نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا نہ اپنا اور اپنے معاشرے کے
حقوق کا ۔نسلِ نو میں بڑھتی ہوئی فضولیات ٹائم کا بے مقصد ضیاع ان کا
بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔ جس کسی سے پوچھو ہاں بھائی کیا ہو رہا تو جواب اتا
ہے
Nothing yar just time killing .
جوانی پھر نہیں آنی زندگی ایک بار یہ جملے اکثریت کی زبان پر ہیں ۔
ہاں ایسا تب ہوتا ہے جب کسی نوجوان کے پاس مقصد زندگی نہ ہو بقول اقبال
گلا تو گھونٹ دیا ہے مغرب نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا االلّه
نسلِ نو میں بڑھتا ہوا سیکولرزم علم و عمل سے خالی سوچ و فکر صرف معلومات
کی حد تک محدود ہے۔وہ مشعل راہ نوجوان جو امید کا پرچم لے کر میدان میں
نکلنے والے تھے آج کل مادیت پرستی کی زندگی میں بے مقصد زندگی جی رہے ہیں
ان کے ذہن کے ماضی و مستقبل سے خالی ہیں ۔
یورپی معاشرے کی عملی تصویر ہمارے نوجوان اللہ، محمد، قرآن کو بھول چکے ہیں
انہیں
یہ تک یاد نہیں قرآن میں کتنے پارے ہیں ان کے نام کیا ،ہیں ، قرآن مجید کا
آفاقی پیغام کیا ہے دوسری طرف معاشی تعلیمات میں نمایاں پوزیشن کے ساتھ
کھڑے ہیں ۔انگریزی کلچر اور انگریزی زبان کو اپنا معیار زندگی سمجھ بیٹھے
ہیں .
گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
نسل نو قرآن کا عظیم اور آفاقی پیغام، فکر ،علم نافع کو بھول بھلیاں سمجھ
کر مغرب کی تاریک راہہوں میں گم ہو چکی ہے۔ آج کے نوجوان نسل نے یورپ کو
اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے ۔آج اور کل سب کچھ یورپ اور یورپی طرز زندگی کو
بصدق دل سے قبول کر چکے ہیں ۔وہ یہاں رہنا پسند نہیں کرتے انہیں اپنے وطن
اپنی ملت سے کوئی لگاؤ نہیں رہا! مکہ مدینہ منورہ تو ان کے خواب و خیال سے
بھی گم ہو چکا ہے جو یہاں آنے کی تمنا کرتے اپنے نبی کے روضہ اطہر کا دیدار
کرتے ۔انہیں مادیت پرستی کی اندھی تقلید نے اندھا کر دیا ہے ۔
نسل نو کا دین کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف جمعہ اور عیدین تک محدود ہو چکا ہے
انہیں مادی دنیا سے فرصت ہو تو وو مسجد جائیں ، علماء کے پاس بیٹھں ان سے
دین سیکھیں۔ انہیں مادی دنیا کے نظام تعلیم نے اندھا کر دیا ہے ۔کاش نسل نو
سمجھ سکتی ہمارا رخ
کس طرف ہے جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔فیشن پرستی کا جنون ہماری نسل میں
وائرس کی طرح سرایت کر چکا ہے ۔
فیشن سے پیار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ سنت سے انکار
ہماری نوجوان نسل کو اسلام کی پابندیاں سمجھ میں نہیں آتی کہ اس میں ہماری
دنیا وآخرت کی بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں۔ سنت ھی وہ واحد راستہ ہے جس میں
دنیاو آخرت کی کامیابی کا راز منحصر ہے ۔انہیں یہ خبر ہی نہیں مغرب اندھیرے
کی جگہ ہے جہاں سورج بھی غروب ہو جاتا ہے پھر نہ جانے
نسل نو کس روشنی کی تلاش میں ہے !
صنم کدے توڑنے والے، ہواؤں کا رخ موڑنے والے ،خدا کی سر زمین پر خدا کا
نظام نافذ کرنے والے، اس معاشرے کے چمن و معمار، باطل کے سامنے ڈٹ جانے
والے ،نفس حرص و لالچ، سود خوری ،جھوٹ منافقت پر غالب آنے والے نوجوان حسین
کی روش پر چلنے والے نوجوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج مغربی تہذیب کے جال
میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ شاید وہ یہ بھول چکے ہیں مغرب میں سورج بھی جاکر
غروب ہو جاتا ہے نہ جانے ہم کیسے روشن ہوں گے ؟۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کی
نسل نو قائد اعظم کے راہنما اصول جو انفرادی اور اجتماعی ترقی کے ضامن ہیں
ایمان ،اتحاد، تنظیم کو بھول چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ مفکر پاکستان علامہ محمد
اقبال کی شاعری کو یکسر فراموش کر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو اندھیرے میں چراغ کی
مانند ہے ۔
وہ یورپی نام نہاد دانشوروں اور مفکروں کے پیچھے چل پڑی ہے جنہیں یہ بھی
معلوم نہیں کہ دنیا میں ہم کس مقصد کے لیے آئے ہیں دنیا کیسے وجود میں آئی
۔۔۔۔۔
اقبال کے شاہین آج کرگس بنے بیٹھے ہیں۔ انہیں عزت نفس، اور خودداری جیسی
صفات سے بیزاری ہے بس پیسہ آنا چاہیے چاہے جیسے بھی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہنی انتشار اور مادیت پرستی نے ان کی ترجیحات بدل ڈالی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ
نوجوان جو ستاروں پر کمنڈ ڈالنے والے تھے آج بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں
۔
۔۔۔نسل نو کی آرام پسندی، تخلیقی و تعمیری کاموں سے بیزاری معنی خیز ہے
۔انہیں عالمی بدلتے ہوئے حالات میں ملکی عدم استحکام سے کوئی غرض نہیں
مادیت پرستی نے ان کے ضمیر سلا دیے ہیں۔۔۔۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے بجائے
نوجوان نسل پر سوشل میڈیا کی رنگینیوں میں گم ہےنسل نو کا جہاں لالی ووڈ
،بالی ووڈ انٹرٹینمنٹ شو بز کی دنیا تک محدود ہو کر رہ گیا ہے یہ حقوق اللہ
حقوق العباد کو مستقل فراموش کر چکی ہے۔اپنی مذہبی اور ثقافتی زندگی کو
بھول کر یورپی زندگی کو خوش دلی سے قبول کر بیٹھے ہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں بڑھتا ہوا رجحان دین سے بیزاری مادیت پرستی کا گہرا وار
ہے۔ نوجوان نسل ریڈیایی ا قسم کے میوزک کی دلدادہ ہو چکی ہے۔ ہماری نوجوان
نسل خانقاہوں،
میدان کارزار کے بجائے بازاروں اور کلبوں کی رونق بنی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔
ایمانیات عبادات شریعت کیا ہے ہماری نوجوان نسل ان علوم سے بالکل ناواقف ہے
۔ نظریات و افکار میں تضاد طبقاتی نظام میں تقسیم نوجوان اپنی خودی بھول
چکے ہیں ۔ہماری نوجوان نسل مغربی میڈیا کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ احساس
محرومی، اتفاق و اتحاد کمزور تر ہوچکا ہے۔ مغربی لابی نے ہمارے نوجوانوں
میں ذہنی انتشار پسندی کو فروغ دیا ہے ۔
ہمارے نوجوانوں میں نظریاتی، روحانی اساس احساس کمتری ،دہشت گردی، فحاشی و
عریانی پھیلانے میں مغربی میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔مغربی لابی نے نوجوانوں
کی ایسی زہن سازی کی ہے کہ دین کو دنیا سے الگ کر دیا ہے اور ایسے افکار
دیے ہیں کہ وہ اپنے اسلاف کے راستے یکسر ہٹ چکے ہیں ۔
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو گلہ تجھ سے ہے یورپ سےنہیں
آج کا نوجوان اپنی حیثیت اپنے ملک اور اپنے افکار سے بے زار نظر آتا ہے ۔وہ
دلی طور پر اپنے دین، مشرق سے مخلص نہیں ہے اور ظاہری طور پر یہاں موجود ہے
لیکن ذہنی سوچ کے ساتھ یورپ میں ہے
۔ ہماری نوجوان نسل نے اس شاخ کو اپنی منزل بنا لیا ہے اس کا سہارا ہی
موجود نہیں ہے جس کا نہ ماضی ہے اور نہ ھی حال ۔اندیھرا اور تاریکی اس شاخ
کا مقدر ہے ۔ آج کا جوان کیسے یہ بھول چکا ہے اقبال نے بہت پہلے یورپ والوں
کو خبردار کر دیا تھا۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
۔تو پھر یورپ کی تاریک راہوں پر سفر کیوں۔۔۔۔۔۔؟
مسلمانوں میں بڑھتے ہوئے یورپی افکار نے ہمارے معاشرے کوذہنی غلام کر دیا
ہے ۔میرا جسم میری مرضی حقوق نسواں جیسے نعروں نے ہمیں اسلام سے بیگانہ کر
دیا ہے۔ مغربی لابی نے ہماری نوجوان نسل کو اخلاقی اعتبار سے اتنا گرا دیا
ہے کہ معاشرے میں انکو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آج کے نوجوانو ں کے
افکار دیکھں تو فحاشی وعریانی، منفی سوچ کی عملی تصویر میں لپٹے نظر اتے
ہیں ۔ ادب و احترام، سیاسی اور مذہبی بیزاری نے ہمارے نوجوانوں کو معاشرے
میں وہ مقام حاصل نہیں کرنے دیا جو ایک حقیقی مشر قی نوجوان کا ہوتا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام !
ہاں ! دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔۔۔۔۔
تحریر کردہ! ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حبیب رانا مانسہرہ
ای میل [email protected]
|