سیلاب زدگان کی مدد کے لئے جو محنت اور کوشش کی جا رہی ہے
وہ واقعی قابل قدر ہے۔ یہ بہت بڑا امتحان ہے ہماری قوم پر اس پر جتنا جان،
مال اور وقت لگا سکتے ہیں لگانا چاہیے یہ ھمارے اوپر قرض بھی ہے اور فرض
بھی ۔ اپنے بھائیوں ، بہنوں اور ماؤں کی مدد کے لیے۔ اس وقت کسی قسم کا
انتظار نہیں کرنا چاہیے جیسے کچھ لوگ کہتے ہیں سیاستدان اپنی اپنی سیاست
میں لگے ہوئے ہیں حکومت اپوزیشن کو ایک دوسرے کو اندر اور باہر کرنے میں
مصروف ہیں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گذری موصوف فرماتے ہیں سیاستدان
بے رحم اور بے حس ہیں۔ بندہ پوچھے کیا آپ کو پتہ نہیں اپنے سیاستداں کس
کردار ، اقدار، اخلاق اور اصولوں کے مالک ہیں۔ پھر کس بات کا رونا ہے۔ کیا
آپ کے سامنے ان کا ماضی نہیں ہے؟ پھر ان سے امید رکھنا بڑی عجیب سی بات ہے۔
اصل چیز جو نظر انداز ہو رہی ہے وہ رجوع اللّہ ہے۔ حالات اللّہ کی طرف سے
آتے ہیں وہ ہی بگڑی کو سنوارتا ہے ہر چیز کے خزانے اسی کے پاس ہیں۔ حالات
کو بدلنے پر قادر ہے۔ ابھی تک ھم لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر
اللّہ تعالیٰ سے رجوع نہیں کیا ہے چاہیے تو یہ تھا ایوانوں سے لے کر ہر ہر
گھر اور مسجدوں میں خصوصی دعائیں اور استغفار کی جاتیں۔ گر گرا کر اپنے
گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے معافی تلافی کی جاتیں ۔ بچوں سے دعائیں کراتے
کیونکہ اللّہ بچوں کی سنتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی تعلیم
ہے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو فوراً اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہو جاتے
اور اسی سے مدد حاصل کرتے۔ سیلاب کی آفت اسی کی طرف سے آئی ہے اور وہی اس
سے نجات دینے والا ہے۔ مال اسباب اختیار کرنے سے انکار نہیں ہے لیکن پہلا
قدم تو اللّہ سے رجوع ہے اس کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنا ہے۔ اس کو راضی
کرنا ہے۔ پھر دوسرے قدم پر اور ہر سطح پر مل جل کر وسائل کا اختیار کرنا ہے
پھر اپنے کیے کو تھوڑا سمجھتے ہوئے اسی اللّہ سے مدد طلب کرنا کہ ہماری
محنت اور کوشش بھی تو مخلوق ہے، اس تکلیف اور آفت سے نجات آپ نے ہی دینی
ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا ہی طرز علم رہا ہے کہ حالات کا
مقابلہ حالات سے نہیں بلکہ حالات کا مقابلہ اعمال سے ہوتا ہے۔ افسوس اس بات
کا ہے اب یہ بات مسجد و ممبر سے بھی نہیں کہی جاتی ہے ۔ نبیوں کی محنت کا
خلاصہ تین چیزیں میں ہے لوگوں کو مال سے اعمال کی طرف، دنیا سے آخرت کی
طرف، اور مخلوق سے خالق کی طرف موڑنا ہے
اس تحریر کا خلاصہ ہی ہے کہ اللّہ تعالیٰ سے رجوع کیا جائے توبہ استغفار
کثرت سے کی جائے اور ہر کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے جتنی جانی ،مالی
قربانی کرسکتا ہے کرے اور اس کے ساتھ دعائیں کریں۔ اللّہ تعالیٰ ھم سب کے
لیے آسانی فرمائے آمین.
درد دل کے لئے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
|