خطرے کی گھنٹی٬ نور مقدم کے بعد اب سارہ انعام کیس - والدین بیٹیوں کی زندگی چاہتے ہیں تو چند کام ضرور کریں

image
 
شادی نبھانا کوئی گڑیا گڈے کا کھیل نہیں ہے ہم اس طرح کی نصیحتیں اپنے بزرگوں سے سنتے آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب شادی کے بعد آپ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو آپ کو ان نصیحتوں کا مطلب سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
 
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ٹیکنالوجی سے لے کر ہماری نجی زندگی تک ہر طرف ایک افراتفری ہے۔ ہماری سوسائٹی میں رونما ہونے والے انتہائی واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ نور مقدم کیس کے بعد اب سارہ قتل کیس خبروں میں ہے۔ شاہنواز امیر اور سارہ کی دوستی سوشل میڈیا پر ہوئی اور وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے، شادی کے صرف تین ماہ بعد ہی سارہ اپنے شوہر کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔
 
شاہنواز امیر معروف جرنلسٹ ایاز امیر کے بیٹے ہیں۔ قتل کی وجہ جو بھی ہو لیکن یہ تو ایک انتہائی قدم ہے جو کوئی نارمل انسان کبھی نہیں کر سکتا۔ والدین کے لئے یہ نصیحت ہے کہ ایک قتل ہونے والی بیٹی سے ایک طلاق یافتہ بیٹی بہتر ہے، والدین جب اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں تو انھیں لازمی اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ دینے کے بجائے ان سے جڑے رہنا چاہیے تاکہ اگر وہ کسی ذہنی الجھن یا غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں تو ان کو ایک مخلص سہارے کی ڈھارس رہے۔
 
image
 
عموماً طلاق اور اس طرح کے قتل کے پیچھے بنیادی وجہ شک ہوتا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے میں بھروسہ ان کو جوڑ کر رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ شادی ہوئی ہے تو آپ کے لائف پارٹنر کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے پارٹنر کی زندگی بس صرف اسی سے جڑی ہے۔ آپ کا شریک حیات صرف آپ کی مرضی کے مطابق چلے گا جبکہ وہ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے اپنی سوچ اور پسند نا پسند رکھتا ہے ایسے رشتے آہستہ آہستہ آپ کا گلہ گھونٹنے لگتے ہیں اور جب حالات برداشت سے باہر ہو جاتے ہیں تو ان کا اختتام غیر معمولی ہوتا ہے۔ رشتوں میں برداشت کا ہونا لازمی ہے کوئی بھی رشتہ آسان نہیں ہوتا حتیٰ کہ والدین بچوں کا بھی نہیں۔
 
اس لئے جن ازدواجی رشتوں میں محسوس ہو کہ حالات بگڑتے جا رہے ہیں جو ناخوشگوار اور ناقابل برداشت حد تک پہنچ سکتے ہیں تو بہتر ہے کہ ان رشتوں کو ختم کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں اپنے والدین کو ضرور باخبر رکھیں کیونکہ وہ ہی آپ کے اصل خیرخواہ ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ آپ کا بھلا ہی چاہیں گے۔
 
والدین جب اپنے بچوں کی شادیاں کرتے ہیں تو ہماری مشرقی روایات کے مطابق وہ اپنی بیٹی کے گھر کے معاملات اس کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ حالات کو وہ خود سنبھال لے گی۔ بیٹے اس معاملے میں خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ان کے ازدواجی معاملات جاننے کا حق اس کے گھر والوں کو بھرپور ہوتا ہے اور مداخلت ان کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے۔ غرض یہ تو ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ یہاں بات ان خاندانوں کی ہو رہی ہے جو گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور یہ بات ناقابل یقین ہے کہ کوئی
ذہنی بیمار شخص اپنی بیوی کو تشدد کا نشانہ بناتا ہو اور شوہر کے والدین کو اس بات کا علم نہ ہو۔ والدین تو اپنی اولاد کی نس نس سے واقف ہوتے ہیں وہ ایسی اولاد کی شادیاں کیوں کرتے ہیں اور اگر کر ہی دی ہے شادی تو پھر ان کی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ان کی مدد کیوں نہیں کرتے۔
 
image
 
لڑکیوں کے والدین سے گزارش ہے کہ وہ زمانے گزر گئے جب برداشت کی بناء پر زندگی گزر جاتی تھی اب جس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں یہ الارمنگ ہیں۔ آج کی عورت اتنی کمزور نہیں ہے۔ اپنی بیٹیوں کے مسائل کو سمجھیں ان پر توجہ دیں ان کو احساس دلائیں کہ اگر حالات برداشت سے باہر ہو رہے ہیں تو آپ ان کے ساتھ ہیں۔ اگر آپ حق پر ہیں تو دنیا کرے نہ کرے لیکن اللہ تعالیٰ ضرور انصاف کرتا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: