دنیا سیر و سیاحت سے پیسہ کما رہی ہے تو ہم اپنے
سیاحتی مقامات کو اجاڑ کر خوشحالی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں لاہور سے
واہگہ بارڈر تک ریلوے لائن موجود ہے جس پر ہم چھوٹی چھوٹی شٹل سروس یا ٹرام
وغیرہ چلا کر پیسے کما سکتے ہیں راستے میں آنے والے اسٹیشن مغل پورہ سے
ہربنس پورہ ، جلو اور واہگہ کی تزین و آرائش کرکے ان علاقوں کو خوبصورت
سیاحتی مقام بنا سکتے ہیں مگر یہ سب کرے کون پچھلے دور حکومت میں جب شیخ
رشید وزیر ریلوے تھے تو انہوں نے واہگہ بارڈر سے لاہور تک شٹل ٹرین سروس کا
22 سال بعد افتتاح کیا تھااور یہ شٹل سروس تقریبا ایک ہفتہ چلنے کے بعد بند
کردی گئی یہ ٹرین سروس پہلے بھی چل کر 1997 میں بند ہوئی تھی اور پھر اس
بارے میں کسی نے کچھ سوچا نہ ہی کچھ کیاشیخ رشید کے دور میں شروع ہونے والی
شٹل ٹرین سروس دن میں تین بار چلنا تھی جسکا کرایہ 30 روپے مقرر کیا گیاتھا
پہلی ٹرین لاہور ریلوے اسٹیشن سے صبح 5 بجے روانہ ہوکر اور صبح 5 بجکر 12
منٹ پر مغل پورہ اسٹیشن پہنچتی تھی اگلا سٹاپ اسکا صبح 5 بجکر24 منٹ پر
ہربنس پورہ اسٹیشن ہوتا تھا اسکے بعد صبح 5 بجکر35منٹ پر ٹرین جلو پارک
پہنچ جاتی تھی اور پھر 5 بجکر 45منٹ پر واہگہ کی طرف روانہ ہوکر صبح 6 بجے
واہگہ اسٹیشن پہنچ جاتی تھی اسی طرح واہگہ اسٹیشن سے ٹرین صبح6بجکر 45 پر
روانہ ہوکر صبح 6 بجرک55 منٹ پرجلو پہنچتی ، 7 بجکر 6 منٹ پرجلو پارک پہنچ
جاتی تھی وہاں سے 7 بجکر17 منٹ پر ہربنس پورہ اسٹیشن پہنچ جاتی اور 7
بجکر28 منٹ پر مغل پورہ اسٹیشن پہنچ جاتی تھی اسکے بعد اپنے آخری سٹاپ کی
جانب رواں دواں ہو نے کے بعد ٹھیک صبح 7 بجکر28 منٹ پر لاہور ریلوے اسٹیشن
پہنچ جاتی تھی جبکہ دوسرے رن میں لاہور سے ٹرین صبح 11 بجے روانہ ہوتی جو
مغل پورہ، جلو پارک،جلو اور پھر آخری اسٹیشن واہگہ پہنچ کر اختتام پذیر
ہوجاتی لاہور واہگہ برانچ لائن پاکستان کی متعدد برانچ لائنوں میں سے ایک
ہے جسے پاکستان ریلوے تباہ برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے یہ لائن لاہور جنکشن
اسٹیشن سے شروع ہوکر ہندوستان کی سرحد پر واقع اسٹیشن واہگہ پرجا کر اختتام
پذیر ہوجاتی ہے اس ریلوے لائن کی کل لمبائی 25 کلومیٹر (16 میل) ہے لاہور
جنکشن سے واہگہ تک 6 ریلوے اسٹیشن تھے جن میں سے اکثر کھنڈرات کا منظر پیش
کرتے ہیں یہی ریلوے لائن سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کے لیے استعمال ہوتی رہی جو
اب بند ہو چکی ہے واہگہ پاکستان کا آخری اسٹیشن بھی جو ہندوستان میں داخل
ہونے سے پہلے سرحدی اسٹیشن کے طور پر کام کرتا ہے واہگہ لاہور کے ایک ذیلی
شہری اسٹیشن کے طور پر کام کرتا ہے اور اسے سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سفر کرنے والے مسافروں کی امیگریشن اور
کسٹم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے لاہور ریلوے سٹیشن سے واہگہ بارڈر تک
کا فاصلہ سڑک کے ذریعے 24 کلومیٹر ہے محکمہ ریلوے نے جو حشر اس وقت لاہور
سے واہگہ برانچ لائن کا کررکھا ہے بعض مقامات پر اس سے بھی برا حال ہے رہی
سہی کسر موجودہ سیلاب نے پوری کردی ہے مختلف ادوار میں ریلوے کی بہتری کی
لیے بہت سے فنڈز بھی رکھے گئے مگر مبینہ طور پر یہ فنڈ ہضم کرلیے گئے ریلوے
وہ ادارہ ہے جو مسلسل خسارے میں ہے پاکستان ریلوے چونکہ ایک قومی سرکاری
ریلوے کمپنی ہے جو 1861 میں قائم ہوئی جس کا صدر دفتر لاہور میں ہے ریلوے
کا پاکستان میں 7,791 کلومیٹر (4,841 میل) ٹریک ہے جو طورخم سے کراچی تک
پھیلا ہوا ہے جس پر جو مال بردار اور مسافرکوچز دونوں چلتی ہیں 2014 میں
وزارت ریلوے نے پاکستان ریلویز وژن 2026 کا آغازبھی کیاتھا اس منصوبے میں
نئے انجنوں کی خرید ومرمت ، موجودہ ریل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بہتری،
ٹرین کی اوسط رفتار میں اضافہ، بروقت کارکردگی میں بہتری اور مسافر خدمات
کی توسیع شامل تھی اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2017 میں اوردوسرا مرحلہ 2021
تک مکمل ہونا تھا اس میں ایم ایل ون بھی تھامگر سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں
ہورہا لاہور کی ورکشاپس میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی حیران کن ہے اس پر پھر
کبھی تفصیل سے لکھوں گا ابھی پڑھنے والوں کو واہگہ تک ہی رکھتا ہو اگر آپ
لاہوراسٹیشن سے نکلیں تونہر کو عبور کرتے ہی سب سے پہلا اسٹیشن مغلپورہ آتا
ہے یہ ریلوے کی انٹرنیشنل پٹری جو پاکستان اور انڈیا کو لنک کرتی ہے یہاں
پر چوبچہ پھاٹک سے لیکر ہربنس پورہ پھاٹک سے آگے تک ریلوے پٹری پر عرصہ
دراز سے مال گاڑی کی بوگیاں اور پسنجر بوگیاں کھڑی ہیں جو زنگ آلودہ ہو چکی
ہیں ان بوگیوں کے اکثر حصے نشئی حضرات فروخت کرچکے ہیں اور باقی کا لوہا
زنگ لگنے سے بے کار ہورہا ہے ان بوگیوں میں منشیات اور زنا کے اڈے بن چکے
ہیں قبضہ گروپوں نے مکانات بنا رکھے ہیں اور جیسے جیسے آپ آگے جاتے جائیں
گے تو عجیب و غریب اور حیران کن منظر آپ کی آنکھوں کے سامنے گھومتے جائیں
گے اکثر مقامات پر ریلوے ٹریک مٹی اور گوبر کے نچے دب کر غائب ہوچکا ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے یہاں کبھی ریلوئے لائن بچھائی ہی نہیں گئی تھی ریلوے
لائن کے بلکل ساتھ ساتھ قبضہ گروپوں نے چھوٹے چھوٹے پارک بنا کر اپنے ڈیرے
بنا رکھے ہیں جہاں لوگ تاش کھیلنے کے ساتھ ساتھ کبوتروں کا کاروباربھی بڑی
دلچسپی سے کرتے ہیں پٹری کے ساتھ ساتھ گجروں نے بھینسیں باندھی ہوئی ہے
کباڑویوں نے اور سیمنٹ بجری والوں نے اپنا اپنا سامان رکھا ہوا ہے کئی
سالوں سے اس پٹری کے ساتھ ساتھ رکھے ہوئے سلیپر ز کا لوہا نشئی حضرات فروخت
کرچکے ہیں اور اب مہنگائی نے جو حشر کررکھا ہے قوی امکان ہے کہ جیسے کھڑی
بوگیوں کا لوہا اتارلیا گیا ہے اسی طرح پٹریاں بھی کھول کر نہ لے جائیں
جسکی وجہ سے انٹرنیشنل لیول پر ریلوے کی بدنامی ہوسکتی ہے جبکہ یہاں جو لوگ
ریلوے پٹریوں پر مامور ہے وہ بھی کہیں نظر نہیں آتے بلکل ایسے ہی جیسے
ریلوے ورکشاپ میں کام کرنے والے کچھ چہتے آئے بغیر ہی اپنی تنخواہوں وصول
کررہے ہیں ریلوے پولیس کابھی کہیں کوئی وجود نظر نہیں آتا کیونکہ ریلوے
پٹریوں پر نشہ بھی بکتا ہے ریلوے کے ریاٹئرڈ لوگ اپنے ہی محکمہ کے عملہ سے
پریشان ہیں اور ڈیڑھ سے دوسال کے بعد بھی انہیں پنشن نہیں مل رہی جو بندہ
یونین فنڈز کے نام پر یونین والوں کو کچھ نہ کچھ ہدیہ دیدے اسکا کام جلدی
ہو جاتا ہے باقی لوگ کلرکوں اور افسروں کے رویہ سے دربدر ہیں واہگہ سے
لاہور تک گندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر ہے اگر کل کو بھارت کے ساتھ سمجھوتہ
ایکسپریس بحال ہوتی ہے توکیا ہم وہاں سے باغ و بہار کے شہر لاہور آنے والے
مہمانوں کا استقبال بدبو سے کرینگے اگر محکمہ کے پاس کوئی انتظام نہیں تو
وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی سے رابطہ کرلیں جنہوں نے لاہور کو صاف
ستھرا بنانے کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی بنا دیا ہے اور امید ہے وہ لاہور سے
واہگہ تک اس ریلوے ٹریک کو دنیا کا خوبصورت ٹریک بھی بنا سکتے ہیں جسے
دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح لاہور آئیں گے
|