اللہ کے محبوب علیہ صلاة وسلام نے جب مکہ فتح کیا تو آپ
جانتے ہیں کہ وہ منظر اسلام کا شاندار اور وہ دن شوکت والا خوشی والا دن
تھا لیکن حضور ﷺکی پیشانی یوں جھکی ہے کہ اونٹ کے کجاوے کے ساتھ حضور ﷺ کی
پیشانی لگی ہوئی ہے۔
حضور ﷺ نے سب کو معاف کر دیا۔
جب سب حاضر ہوے تو کانپ رہے تھے،اوجڑیاں پھینکنے والے پتھر مارنے والے گڑھے
کھودنے والےگلے میں کپڑا ڈالنے والے قطاروں میں تھے سب کانپ رہے تھے کہ پتا
نہیں کیا سلوک ہوگا لیکن زبان نبوت سے کیا جملے نکلے۔۔۔۔۔۔
فرمایا جاؤ چلے جاؤ میں تمہیں کچھ نہیں کہتا تم آزاد ہو آج میں وہی کہونگا
جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا جاو میں نے معاف کیا آزاد
ہو تم سب۔۔۔
(لیکن جنہوں نے توہیں کی آپ صل اللہ علیہ و سلم کی شان میں ان کو قتل کرنے
کا حکم دیا گیا تھا)
پھر فرمایا عثمان بن طلحہ کہاں ہے(عثمان بن طلحہ کعبہ کا کنجی بردار تھا)
ایک دفعہ حضور ﷺنے اس سے کہا تھا مجھے خانہ کعبہ کی چابی دو میرا جی چاہتا
ہے کہ میں کعبہ کو کھولوں اور اندر جاؤں اور نوافل ادا کر سکوں تو اس وقت
اس نے کہا تھا میں آپ کو یہ چابی نہیں دے سکتا۔
آج جب حضور ﷺ فاتح بن کر آئے فرمایا بلاؤ آج عثمان بن طلحہ کو وہ کانپتا
کانپتا آیا حضورﷺ نے کہا لاؤ کعبۃالله کی چابی اس نے پیش کر دی۔
آپ ﷺ نے تالا کھولا نوافل ادا کیے پھر تالا لگا دیا۔
اب صحابہ رضوان الله اجمعين منتظر تھے کہ عثمان بن طلحہ کو تو چابی ملنی ہی
نہیں،
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آرزو تھی کہ یہ چابی مجھے ملے،عمر فاروق رضی
اللہ عنہ جھولی پھیلائے کھڑے تھے، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ
یہ چابی مجھے ملے،علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کو بھی ناذ تھاحتی کے سارے
صحابہ منتظر تھے
لیکن حضور ﷺ نے فرمایا:این عثمان بن طلحہ؟
عثمان بن طلحہ کہاں ہے وہ کانپتا ہوا ایک سمت کھڑا تھا آپ صل اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا یہ لو چابی تم نے مجھے نہیں دی تھی لیکن میں تمہیں عطا کر
رہا ہوں اور فرمایا اے عثمان بن طلحہ قیامت تک تیرے سے یہ چابی کوئی چھین
نہیں سکے گا اور آج بھی وہ چابی عثمان بن طلحہ کی اولاد کے پاس ہے۔
تو پھر عثمان بن طلحہ آپ ﷺ کے حسن و سلوک کو دیکھ کر آپ ﷺ کا غلام بن گیا
اور مسلمان ہو گئے
اب خانہ کعبہ کی چابی ان کے پاس ہے جو عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے نسل
در نسل چلتی آ رہی ہے اور قیامت تک ان کے پاس ہی رہے گی انشاءاللہ.
اللہ کی قدرت دیکھو کہ اس خاندان میں صرف ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے دو یا اس
سے زیادہ نہیں . عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے محمد بن حمود تک یہ چابی اس
مقدس خاندان کے پاس ہے.
|