مسلمان اور شیطان

مسلمان اور شیطان

قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اوراس کا مشن انسانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ شیاطین چونکہ چھپ کر وسوسہ انگیزی کرتے ہیں، اس لیے عام لوگ اپنی کمزوریوں کی بنا پر باآسانی اس کے حملے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ چنانچہ انسانوں کے تحفظ کے لیے اللہ تعالیٰ نے شروع دن سے یہ اہتمام کیا ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کرتا رہے جو اللہ کے راستے اور سچائی کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں۔ یہ لوگ انبیا و رسل اور ان کے نام لیوا ہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جو عام انسانوں کو شیطان کے فتنے میں مبتلا ہونے سے روکتے، اس کی پیروی پر ٹوکتے اور جہنم کی راہوں کا مسافر بننے سے بچاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ ہوں تو عام سادہ لوگ باآسانی صرف اپنی فطرت کی بنیاد پر شیطان سے بچنے کی راہ نہیں پا سکتے۔چنانچہ شیطان سب سے بڑھ کر انہی لوگوں کا دشمن بن جاتا ہے۔ انبیا و رسل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یہ شیطان کی وسوسہ انگیزی کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کے خلاف شیاطین عام طور پر ایک دوسرا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ جس قوم میں یہ بھیجے جاتے ہیں ، شیاطین اس کے لیڈروں ، مذہبی طبقات اور سرکردہ لوگوں ہی کو ان کے خلاف اٹھا دیتے ہیں۔ یہ لوگ جھوٹ اور مخالفت کا ایسا طوفان اٹھاتے ہیں کہ سچائی اس میں گم ہوکر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ بارہا اللہ تعالیٰ نے ایسی قوموں کو تباہ کیا جنہوں نے اپنے رسول کا انکار کر دیا تھا۔
انبیا کے نام لیوا ان کی امتوں کی شکل میں دنیا میں موجود رہے ہیں۔ پچھلے چار ہزار برس سے یہ لوگ ایک خاص گروہ یعنی حضرت ابراہیم کی اولاد اور ان کے متعلقین و متبعین کی شکل میں دنیا میں موجود ہیں۔ تاہم شیطان نے ہر ممکنہ حربہ استعمال کر کے اس گروہ کو بھی بار بار اپنی دشمنی کا نشانہ بنایا ہے۔
مثلاً یہود کی تاریخ کے دو ادوار ہیں۔ پہلے دور میں شیطان ان میں شرک پھیلاتا رہا۔ کبھی یہ بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہوئے تو کبھی بعل نامی بت کے پجاری بن گئے۔ جب یہ مرض انتہا کو پہنچا اور یہ اپنے سمجھانے والے انبیا کے دشمن بن گئے تو اللہ کا قہر ان پر بھڑکا اور بخت نصر کے ذریعے سے ان پر خدا کا عذاب آ گیا جس میں لاکھوں یہودی مارے گئے اور پوری قوم جلا وطن ہو گئی۔

اس کے بعد یہود کی تاریخ کا ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دورمیں یہ شرک سے دور ہوگئے۔ اس دفعہ شیطان نے ایک دوسری جگہ سے اپنا وار کیا۔ وہ یہ کہ ان میں دین ظاہری اعمال اور فروعی چیزوں کا نام بن گیا۔ اصل دینی روح اور اعلیٰ اخلاقی رویے جو کہ بندگی کی جان ہیں ان میں سے ختم ہوگئے۔ دنیا کو شرک کی لعنت اور شیطان کے پھندے سے بچانے کے بجائے سیاسی غلبہ ان کی فکر کا مرکزی خیال بن گیا۔
اس رویے پر جلیل القدر انبیاء خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب تنبیہ کی تو انہوں نے ایک دفعہ پھر انبیا کی زبردست مخالفت کی۔ جس کے بعدان پرخدا کا عذاب رومیوں کی شکل میں نازل ہو گیا۔ حضرت عیسیٰ کو ماننے والے ابتداء میں خدا پرست یہودی ہی تھے، مگر رفتہ رفتہ شیطان نے خود ان میں شرک کو عام کر دیا انھوں نے بت پرستوں کی دیکھا دیکھی خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معاذ اللہ ابن اللہ بنا دیا۔

آج امت مسلمہ کی ذمہ داری وہی ہے جو یہود کی تھی۔ یعنی دنیا کو شیطان کے پھندے سے بچانا اور شرک و الحاد سے نکال کر جنت کی راہوں کا مسافر بنانا۔چنانچہ شیطان ان کا بھی بدترین دشمن ہے۔ وہ ان میں شرک پھیلا کر، ظاہر پرستی کو عام کر کے اور اخلاقی پستی میں مبتلا کر کے ان کو خدا کے غضب میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ شیطان کے مشن کو سمجھیں اور اس کے پھندے سے بچتے ہوئے انسانیت کو خدا کی طرف بلائیں۔ یہی ان کی عزت اور کامرانی کا اصل راستہ ہے۔
 

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 308 Articles with 429078 views I am honest loyal.. View More