گفتگو بند نہ ہو ،بات سے بات چلے

ہندوستان میں بے یقینی صورتحال کے ساتھ ساتھ افراتفری کا عالم ہے، مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے،بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور عوام کو سمجھ نہیں پڑرہا ہے کہ ملک کی سمت میں رواں دواں ہے ،اور اس درمیان فرقہ پرستوں اور وہ بھی حکمراں طبقے سے قریب گروہوں اور تنظیموں نے اقلیتی فرقے کے خلاف جھوٹ اور غلط بیانی کا پٹارا کھول دیا،معمولی معمولی باتوں کو اچھالا جاتا ہے ،مطلب رائی کا پہاڑ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے اور انتظامیہ ،پولیس اور ذرائع ابلاغ کادرپردہ مبینہ۔طورپر تعاون رہتا ہے۔اترپردیش اسمبلی انتخابات سے مسلمانوں کو اور اُن کے ایک عام زندگی کے واقعات کو کمال ہوشیاری اور حکمت عملی سے نشانہ بنایا جارہا ہے ۔مسجد،نماز،اذان،حجاب اور اب مدرسوں کی باری ہے اور مستقبل میں جلد ہی وقف بورڈ اور متنازع مقامات پر تعمیر مساجد کی فہرست کو موقعہ ملتے ہی سامنے لایا جائے گا ،سیاسی "پنڈتوں" کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ ۲۰۲۴ء تک جاری رہیگا۔


ملک میں فی الحال مدرسوں کو آسام ،اترپردیش ،مدھیہ پردیش ،کرناٹک اور اتراکھنڈ میں "ٹارگٹ" کرنے کا ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان اور دوسری ریاستیں ترقی یافتہ ہوچکی ہے۔پہلے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات فرقہ وارانہ باتوں سے گریز کرتی تھیں ،لیکن گزشتہ آٹھ برسوں سے سبھی کو بے لگام چھوڑ دیا گیاہے ،یہاں تک کہ مرکزی حکومت کے لیڈران بھی اپنے بیانات میں ذرا بھی ہچکچاہٹ اور احتیاط نہیں برتتے ہیں اور اِن نعروں کی سیکھ ان کے بڑے لیڈروں سے ملتی ہے جوکہ اپنے "بھاشنوں" میں اشارہ دے دیتے ہیں،جن میں کپڑوں سے ایک مخصوص فرقے کے پہچان اور جوتے ماروں "سالوں" کو شامل ہیں۔

خیر بات ہورہی تھی، مدرسوں کی ،تو اس میں ایک نیا پہلو سامنے آیا ،جب راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نےایک پہل کی ہے،اس راز کا پتہ نہیں چلا ہے کہ جب بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اقلیتی فرقے کو بے یار و مددگار کیا جارہا ہے اور اُن کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور مدرسوں کو نشانہ بناتے ہوئے ،انہیں ملک دشمن سرگرمیوں کو اڈہ ظاہر کیا جارہا ہے،محترم سرسنگھ چالک نے ایک مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا،اور اُس سے پہلے اُنہوں نے پانچ مسلم دانشوروں سے ملاقات کی اورکئی مسائل پر تبادلہ خیال کیا ،البتہ یہ کہنے میں کوئی آڑ نہیں ہے کہ اُن کے انتخاب میں کوئی احتیاط نہیں برتی گئی ۔ان پانچ میں سے دو سابق چیف الیکشن کمیشن اے وائی قریشی اور بزرگ صحافی اور نئی دنیا کے مالک ومدیر شاہد صدیقی کا وفد میں رہنا قابل قبول ہے ،لیکن اداکار نصیرالدین شاہ کے بھائی اور سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کرنل ضمیر الدین شاہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر اور دہلی کے لفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ اورایک تاجر بھی شامل ہیں،جو مسلمانوں کے لیے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ایک ملا جلا معاشرہ والا ملک ہے یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ آباد ہیں۔جن کے درمیان اتنی خلیج پیدا کردی گئی ہے کہ ان کے درمیان مذاکرات اور گفت وشنید کی نوبت آچکی ہے ، موہن بھاگوت نے گفتگو کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ،اسے ایک مثبت پہلو کہا جاسکتا ہے۔یہ بات چیت ملک اور قوم کے اتحاد کا ذریعہ بن سکتی ہے۔اس سے قربتیں بڑھ اورفاصلے گھٹ سکتے ہیں ۔ ایک ایسے وقت جب کہ ہمارا ہر دلعزیز ملک ، مذہبی ، سیاسی ، لسانی اور علاقائی عصبیتوں کی زنجیروں میں جکڑ تا جا رہا ہے ، ایسے وقت اگر ٹھوس بنیادوں اور ایجنڈے کے ساتھ باہمی بات چیت کی پہل کا ہر حال میں خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔لیکن محض چار _پانچ افرادکو مدعو کرنا شک وشبہات کو پیدا کرتا ہے۔

فی الحال ان پانچوں اور موہن بھاگوت نے بھی مسلم دانشوروں سے ہوئی اپنی بات چیت کو راز میں رکھا ہے۔باوثوق ذرائع کے مطابق اس اجلاس کا مقصد مسلم برادری کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا تھا اور آرایس ایس کے سربراہ سے دریافت کرنا تھا کہ انہیں مسلمانوں سے کیا مسئلہ درپیش ہے ۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک اور رکن نے بتایا کہ موہن بھاگوت نے بھی مختلف مسائل پر اظہار خیال کیا اور وفد کو گیان واپی مسجد تنازعہ کے موقع پر دئے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ ہر مسجد میں شیولنگ کیوں تلاش کیا جاۓ ۔

یہ الگ بات ہے کہ اس ملاقات اور مسجد ومدرسے کے دورہ کے لیے بھاگوت پر کس کا دباؤ رہا ہے۔ اس کاعلم نہیں ہوا یے،اس ملاقات کو آرایس ایس ” برف کو پگھلانے " کی ایک کوشش قرار دے رہی ہے اور آئندہ مسلم دانشوروں کے ساتھ وسیع پیمانے پر اجلاس رکھنا طے پایا ہے ۔ ممتاز مسلم شخصیتوں کادعوی ہے کہ یہ تال میل اور آپس کی غلط فہمیاں۔ دور کرنے کی کوشش اگر ملک میں سیکولر ازم اور جمہوریت کو بچانے کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے تو قیاس آرائیاں کرنے کے بجائے شامل ہونا چاہیے۔لیکن جہاں تک ان مسلم دانشوروں کی بات ہے ، یہ بات واضح کرنا ہوگاکہ حقیقت میں آرایس ایس کے عزائم کیا اس کا علم ہونا چاہیئے ۔حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے اور اگر اس میں نیک نیتی نہیں پائی گئی ،تو یہ خطرناک ثابت ہوگا،ویسے گفتگو اور ملاقاتیں کیے جانے سے آپسی میل جول بڑھے ،اسے مزید تقویت ملے گی،

مشہور شاعر علی سردار جعفری نے کیا خوب کہا ہے ،

گفتگو بند نہ ہو

بات سے بات چلے

 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 39959 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.