چھٹی کے دن میں راحت و سکون کے مزے لوٹ رہا تھا لیکن دل و دماغ پر وطن عزیز
پر سیلاب کی تباہ کاریاں بوجھ بن کر سوار تھیں ٹی وی پر پاکستان کے طول و
عرض میں تباہ کاریاں بے یارو مددگار عوام بچے عورتیں بوڑھے بچھو کے ڈنگ کی
طرح چبھ رہے تھے میں چھٹی کو انجوائے کرنا چاہتا تھا لیکن حالیہ سیلاب کی
ہولناکیوں کی وجہ سے دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا دل اداس گرفتہ بوجھل
تھا کہ کیوں ہر سال ہمارے ہی ملک پر پانی سیلاب کی صورت میں آفت بن کر
لاکھوں لوگوں کے کو بے گھر کر کے کھلے آسمان کے نیچے تڑپ تڑپ کر مرنے کے
لیے چھوڑ دیتا ہے ہزاروں لوگ سیلاب کی تند و تیز موجوں بلکہ طوفانی لہروں
میں بہہ جاتے ہیں مکانات زمین کا ڈھیر بن جاتے ہیں مویشی گھر کا سامان
سیلاب بہا کر لے جاتا ہے اِن تباہ حال لوگوں کو دیکھ کر لگتا ہے ہم ہزار
سال پہلے کے زمانے میں رہ رہے ہیں جب سائنسی ترقی بلکل نہیں تھی اور اہل
زمین قدرتی آفات کا لقمہ بنتے چلے جاتے تھے لیکن سچ تو یہ ہے کہ موجودہ دور
انسانی تاریخ کا ترقی یافتہ ترین دور ہے جب انسان نے اپنی عقل دانائی فہم و
فراست سے اِس قدر سائنسی ٹیکنالوجی ترقی حاصل کر لی ہے کہ اب زلزلے طوفان
سیلاب انسانی آبادیوں کو نقصان نہیں پہنچاتے زلزلے انسانی آبادیوں کو برباد
مٹی کا ڈھیر بنا نے میں اہم کردار ادا کرتے تھے لیکن موجودہ ترقی یافتہ دور
میں اب گھر بنانے میں ایسے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں کہ زلزلے آتے تو اب
بھی اتنی ہی شدت سے ہیں لیکن انسانی عقل مندی اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے
اب گھر محفوظ رہتے ہیں اِس طرح انسان زلزلوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہو
جاتے ہیں اِسی طرح ہزاروں سالوں سے انسان تیز ضرورت سے زیادہ بارشوں پہاڑوں
پر برف گلئیشیر پگھلنے سے طوفانی سیلاب کا شکار ہو تا آیا ہے ہر سال ہزاروں
لاکھوں لوگ اِس آفت کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن موجودہ
دور کے ترقی یافتہ ممالک نے ڈیم پر ڈیم بنا کر پانی کو ذخیرہ کر کے ہزاروں
سالوں سے اِ س بپھرے طوفان کو لگام ڈالی ہمارے پڑوس میں بھارے اور چین
دونوں ملکوں نے سینکڑوں ڈیم بنا کر اِس سر کش طوفانی عفریت کو قابو کیا
لیکن ہم دنیا جہاں کی ترقی اور سیلاب کو لگام ڈالنے کے اِن طریقوں پر عمل
نہ کر سکے قومیت عصبیت نفرت کی آگ میں جلتی پاکستانی عوام اور دشمن ملک کے
ہاتھوں کھیلنے والے سیاست جیسے ہی کوئی حکمران ڈیم خاص طور پر کالا باغ ڈیم
بنانے کی کو شش کر تا ہے بغاوت کے جھنڈے لے کر کے پی کے اور سندھ کے
سیاستدان سامنے آجاتے ہیں ہمارے شہر دیہات بر باد ہو جائیں چاہے ہم کالا
باغ ڈیم اور دوسرے ڈیموں کو نہیں بننے دیں گے ساری دنیا کے ماہرین اور
پاکستان ماہرین چیخ چیخ کر تھک گئے ہیں کہ کالا باغ ڈیم ہماری باگزیر ضرورت
ہے جس سے ایک طرف تو ہم سستی بجلی پیدا کریں گے دوسری طرف منہ زور سر کش
سیلاب کے بے راس گھوڑے کو بھی لگام ڈال لیں گے لیکن کئی عشرے گزرنے کے بعد
بھی ہم اِس ضروری مسئلے کو حل نہیں کر سکے وطن عزیز کے کو چہ اقتدار پر بڑے
بڑے نامور حکمرانوں آمروں کا قبضہ رہا انہوں نے ذاتی فائدے اپنے رشتہ داروں
کو بہت نوازا لیکن کالا باغ ڈیم کا مسئلہ جوں کا توں رہا پاکستان کے ادارے
اپنی پسند کی اصلا حات تو ہر روز کر تے ہیں لیکن کالا باغ ڈیم کے سلسلے میں
سنجیدہ کو شش نہیں کرتے ہر سال جب سیلاب کا بے رحم عفریت آبادیوں کی
آبادیاں اجاڑ دیتا ہے سینکڑوں دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے شہروں کو
مٹی کے ڈھیر میں بد ل دیتا ہے اُس وقت ڈیم کی باتیں چند روز ہوتی ہیں پھر
خاموشی اور بے حسی کی چادر تن جاتی ہے جو حکمران بھی آتا ہے وہ اپنی سلطنت
اپنی کرسی کو مفید کر نے کے سارے گُر جانتا ہے اپوزیشن کو لتاڑنے نیچا
دکھانے کے سارے طریقے آتے ہیں لیکن بے آسرا بے یارو مدد گار کھلے آسمان کے
نیچے تڑپ تڑپ کر نے مرنے وہی عوام کا خیال کسی کو نہیں آتا یہ سچ ہے کہ جب
سے پاکستان بنتا ہے ہر سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ صرف اور صرف
عوام نے برداشت کیا پاکستانی قوم نے آگے بڑھ کر کر اِن بے یارو مدد گار
انسانوں کی مدد کی وطن عزیز پر جب بھی کوئی اِیسی آفت آتی ہے تو عوام ہی
ایمانی مدد کے جذبے سے سر شار اُٹھ کر اِن آفت زدہ علاقوں میں جا کر خوراک
خیمے ادویات پہنچاتے ہیں اگر عوام میں مدد کا یہ جذبہ نہ ہو تو ہر سال
لاکھوں لوگ کھلے آسمان کے نیچے تڑپ تڑپ کر مر جائیں میرا دل شدت سے چلا رہا
تھا میں کس طرح اِن بے یارو مدد گار سسکتے تڑپتے مرتے انسانوں کی مدد کرو
تو مجھے اچانک لطیف بھٹی یاد آیا چھوٹے قد کا انقلابی انسان جو ہر وقت
اصلاح معاشرہ اور انسانوں کی مدد کے لیے تیار اور بے چین رہتا ہے جب جوانی
میں میری اِس سے ملاقات ہونے سے پہلے یہ مختلف سیاسی پارٹیوں کا ورکر رہ
چکا ہے یہ معاشرے میں سدھا ر کر نا چاہتا لیکن جب تھوڑا عرصہ کسی سیاسی
پارٹی میں گزار کر دیکھتا ہے کہ اِس پارٹی کے نعرے صرف کھوکھلے ہیں یہ
حقیقی تبدیلی نہیں چاہتے تو دوسری پارٹی کو جوائن کر لیتا ہے سماجی طبیعت
کا مالک ملک میں زلزلہ طوفان سیلاب کرونا کوئی آفت آئے یہ اگلے مورچوں میں
خدمت کر تا نظر آتا ہے میں نے اُسے فون کیا تو وہ شام کو آگیا میرے پاس جو
سامان کپڑے ادویات پیسے تھے اِس کو دئیے تا کہ میں بھی عملی مدد میں شامل
ہو سکوں تو لطیف بولا جناب ہم تو پہلے دن سے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کر
رہے ہیں لوگوں تک ضرورت کی ساری چیزیں پہنچا رہے ہیں پھر اُس نے اپنی
موجودہ جماعت کا بتانا شروع کر دیا کہ ہم غیر سیاسی لوگ ہیں جو صرف خدمت
اور خدمت پر یقین کرتے ہیں میرے ساتھی بھی حقیقی خدمت پر یقین رکھتے ہیں
پھر ڈھیر ساری باتیں کر نے کے بعد لطیف بھٹی چلاگیا تو میں قدرت کے اُس
پراسرار خفیہ نظام پر غور کرنے لگا کہ لطیف جیسے لوگ ہی اِس مردہ راکھ کے
ڈھیر معاشرے میں دبی ہوئی چنگاریاں ہیں جو ضرورت پڑنے پر روشن ہو کر مسائل
پریشانیوں کے اندھیروں کو دور کرتی ہیں قدرت معاشروں کے توازن کو قائم
رکھنے کے لیے اِیسی چنگاریاں سلگاتا رہتا ہے جن کے دلوں میں خدمت خلق کا
جذبہ ہو تا ہے جو کسی دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر کمر باندھ کر سامنے آتے
ہیں وطن عزیز میں لطیف بھٹی جیسے بے نام ہیروز ہیں جو اِس مردہ بانجھ
معاشرے کوقائم و دائم رکھے ہوئے ہیں ۔
|