آئینہ ِ ذات ِ حق

یہ کائنات جو ہمارے شب و روز کی امین ہے اس میں ہمارے آباؤ اجداد کی روحیں محوِ سفر رہتی ہیں اور ہمارے لئے سلامتی اور رحم کی التجائیں کرتی رہتی ہیں ۔ان کی التجائیں باریابی سے ہمکنار ہو تی ہیں یا کہ نہیں یہ ایک علیحدہ داستان ہے۔کچھ لوگوں کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ارواح اپنی حقیقت رکھتی ہیں جبکہ کچھ ترقی پسند لوگ اسے محض افسانہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جسم مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہو جاتا ہے جسے اہلِ نظر تسلیم نہیں کرتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کا عقیدہ ،اس کاایمان ،اس کا کردار اور اس کے اعمال مٹی کے پتلے کو دوام بخشتے ہیں۔غازی علم دین شہید کے جسدِ خا کی کو کئی مہینوں کے بعد جب دوبارہ لاہور میں سپردِ خاک کیا گیا تھا توان کی میت پھولوں کی طرح ترو تازہ تھی ۔ہماری کائنات انسانی سر بلندی کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے محض اس وجہ سے نہیں کہ یہ کن فیکون سے عمل میں آئی تھی بلکہ اس لئے کہ اس میں بڑے مخفی خزانے ہیں جو انسان کو اپنے افعال و کردار سے اس کسوٹی پر پورا اترنے کے انمول مواقع عطا کرتے ہیں جو جتنا اعلی کردار اور اوصافِ حمیدہ کا حامل ہو گا اس کا صلہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا ۔ یہاں ہر انسان بڑا بننے کی تگ و دو کا اسیر ہے لیکن جب تک اسے بڑے پن کا علم نہ ہو وہ بڑائی کی مسند سے ہمکنار نہیں ہو سکتا(چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم ۔،۔پہلے ویساکوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم ) ہماری کائنات ممکنات کی دنیا ہے جس میں کامیابیاں ہر فرد کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہتی ہیں لیکں وہ جو وقت کی قدر نہیں کرتے اور محنت سے جی چراتے ہیں اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں لیکن وہ جو محنت ، جدوجہد ، استقامت اور دلجمعی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے۔(رنگ ہو یا خشت وسنگ ،چنگ ہو یا حرف و صوت۔،۔ معجزہِ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود)۔،۔

کچھ لوگ انسانی تفوق اور برتری کو عطائے الوہیت سمجھ کر اس کے حصول میں جٹ جاتے ہیں۔ان کیلئے ناموری،شہرت اور عہدہ حاصلِ زندگی ہو تا ہے لہذا وہ اس کیلئے کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہو تے ہیں ۔ انسانی دماغ میں جب کسی شہ کا خبط سوار ہو جاتا ہے تو انسان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا لہذا ایسے افراد کا دل دنیاوی ترقی کیلئے مچلتا رہتا ہے اور وہ اس میں جائز و ناجائز کی تمیز بھی روا نہیں رکھتے۔انسانی جبلت کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن انسانی اوصاف سے تراشیدہ انسانی عظمت بھی تو کوئی چیز ہے ؟ کیا عظمت صرف عہدہ،ریاستی منصب،مال و دولت اور رتبہ میں ہے یا اس کے بنیادی خدو خال کچھ اور ہیں ؟بڑے بڑے عہدوں پر فائز نامور اشخاص سے ہمیں اکثرو بیشتر واسطہ پڑتا رہتا ہے لیکن عموما دیکھا گیا ہے کہ اکثریت میں انسانی عظمت کی خوشبو مفقود ہوتی ہے ۔اپنے افسر کی خوشامد،مدح سرائی اور ذاتی مفادات کے حصول کے علاوہ کو ئی شہ ان کی ذات میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی ۔ان کی کیفیت اس ڈھول کی طرح ہو تی ہے جو اندر سے خالی ہوتا ہے لیکن اس کا شور چہار سو مچا ہو تا ہے۔ایک طرف تو یہ کیفیت ہے کہ دنیاوی جاہ و جلال اور شہرت کی حواہش انسانی اوصاف کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے اور انسان اپنے بلند مقصد سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔انھیں لاکھ سمجھایا جائے کہ یہ دنیاوی عہدے بالکل عارضی ہیں اور ان کو ایک دن چھن جانا ہے ۔ ایسے افراد جس کرسی پر بیٹھ کر اہم فیصلے صادر کرتے ہیں ایک دن اں سے چھن جاتی ہے ۔ یہ تو ہمارے مشاہدہ میں ہے کہ صدر ،وزیرِ اعظم ،آرمی چیف،چیف جسٹس ، چیرمین سینیٹ ،سپیکر قومی اسمبلی ، وزیرِ اعلی،گورنر اورسفرائء کو ایک نہ ایک دن اپنے عہدوں سے سبکدوش ہو نا پڑتا ہے اور پھر اسی گردشی کرسی پر ایک نیا فرد براجمان ہو کر فیصلے صادر کرنے لگ جاتا ہے اور یوں انسانی اعمال کا دائرہ لا متناہی ہو تا چلا جاتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی عہدہ اور منصب مستقل نہیں ہو تا ۔ہر شہ کو تغیر ہے اور اسی تغیر میں انسانی سفر کی خوبصورتی ہے ۔کسی جام پر کسی کا نام نہیں لکھا ہو تا لہذا حصولِ جام کے جو بھی اصول ہوتے ہیں ان کی پیروی ضروری ہوتی ہے۔حیران کن امر دیکھئے کہ زا رِروس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد بوری میں بند کرکے گولی ماری گئی تھی اور لینن اس کرسی پر جلوہ افروز ہوا ہوا تھا جو زارِ روس کو بڑی پسند تھی۔،۔

انسانی زندگی دو رنگوں میں بٹی ہو ئی ہے،ایک رنگ وہ ہے جو دنیاوی کامیابیوں کا رنگ ہے جس میں انسان اسی دنیا میں ناموری،شہرت اور عظمت کا متلاشی ہوتا ہے۔وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کامیابی کو یقینی بناتا ہے لہذا دنیا کے مروجہ اصولوں اور قوانین کی پیروی اسے کامیابیوں کا مژدہ سنادیتی ہے ۔ہر سو اس کی جے جے کار ہو تی ہے اور ہر جگہ اس کے نام کے ڈنکے بجتے ہیں۔وہ خوشی سے پھولا نہیں سماتا کہ اس نے جنتِ ارضی کو پا لیا ہے۔عوام الناس اس کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں تو اس کی گردن غرور سے اکڑ جاتی ہے۔اس کیلئے یہی لمحہ سب سے انمول ہوتا ہے کہ لوگ اس کے گھر کا طواف کرتے ہیں اور اس کے درِ اقدس پر سرنگوں ہو تے ہیں۔لوگوں کے سروں کا جھکنا ہی اس کی سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے اور اسے ایسے منظر سے گوناں گوں تفاخر کا احساس ہوتا ہے۔دنیاوی کامیابی میں لپٹا ہوا تفاخر کا احساس ا س کی زندگی کی سب سے بڑی معراج ہو تا ہے جبکہ اسے خبر نہیں ہوتی کہ تفاخر کا یہی احساس اس کی تباہی کا پیش خیمہ ہے ۔ ہر وہ انسان جو اپنی دنیاوی کامیابیوں کو اپنی ذاتی کامیابیاں سمجھ کران پر فخر کرتا ہے مٹ جاتا ہے۔ کامیابی ربِ جلیل کی عطا ہے لہذا اس پر اترانا نامناسب ہے۔ زندگی کا دوسرا رنگ وہ رنگ ہے جس میں انسان اپنی روح کی آواز سنتا ہے۔منکسرالمزاج ہوتا ہے۔عوام الناس سے بے پناہ محبت کرتا ہے ، انھیں عزت و احترام سے نوازتا ہے،ان کی دلجوئی کرتا ہے اور انھیں برابری کا درجہ دیتا ہے اور طریقِ الوہی کو حرضِ جان بنا تا ہے۔اپنی ہر کامیابی اور اپنی ہر فتح کو ربِ کعبہ کے نام سے منسوب کرتاہے،اسے عطیہِ خدا وندی سمجھ کر اس پر اترانے کی بجائے سجدہ شکر بجا لاتا ہے ۔ ظلم وزیادتی،جبرو کراہ،نانصافی اورتشدد کو انسانی زندگی کا دشمن گردانتا ہے اور ان کے خلاف عوام لناس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہے ۔اس کا اٹھنا بیٹھنا اور اس کا سوناجاگنا رضائے الہی کیلئے ہو تا ہے۔اس کیلئے ذاتی نمو دو نمائش اور شہرت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔اس کی جمالیاتی حس دوسروں سے ممتاز ہو تی ہے لہذا وہ حسن و جمال میں جلوہِ خداوندی کا قائل ہوتا ہے ۔وہ غصہ، حسد، کینہ، نفرت،انتقام اور لالچ سے کوسوں دور ہوتا ہے ۔انسانیت سے پیار کرنے والے منفی جذبوں کی آبیاری نہیں کر سکتے۔وہ سب کیلئے منعفت بخش ہوتے ہیں ۔ دوسرو ں کا دل دل نہیں دکھاتے ،وہ دوسروں کا حق نہیں مارتے اور نہ ہی ان کا مال ہڑپ کرتے ہیں۔وہ دنیاوی جا ہ و جلال،شہرت، رتبہ، مرتبہ اور مقام سے بلند تر ہوتے ہیں۔وہ دولت مندی کے جھوٹے جال میں نہیں پھنستے ۔وہ موسمِ بہار میں چہچہاتے ہوئے پرندے کی مانندبالکل آزاد اور شاداں و فرحان ز ندگی کے طالب ہو تے ہیں۔ وہ ذرے میں صحرا اور قطرے میں سمندر کی جلوہ گری کے خو گر ہوتے ہیں۔وہ صابر اور شاکر ہوتے ہیں اور ہر مشکل،آزمائش اور ابتلاء میں مالکِ کون و مکان کوپکارتے ہیں ۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو فطری کمزوریاں سمجھ کر اﷲ تعالی سے معافی کے خواستگا ررہتے ہیں ۔اگر ان سے کوئی نا دانستہ خطا ہو جائے تو وہ ( ربنا ظلمنا َ انفسنا ) کہہ کر رحمتِ خدا و ند ی کے طلبگار بن جاتے ہیں۔ان کی اس ادا پر ربِ کریم کی رحمت جوش میں آتی ہے اور یوں ان کی ہر خطا معاف کر دی جاتی ہے۔اقبال کا دلنشیں انداز دیکھئے اور وجد میں آ جائیے ۔ (ذاتِ او آئینہ ِ ذاتِ حق است۔،۔ہستی ِ مسلم ز آیاتِ حق است )۔ (ترجمہ۔اس کی ذات، ذاتِ حق کا آئینہ ہوتی ہے اور اس کا وجودِآیاتِ حق کا غماز ہوتا ہے ) ۔ ، ۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515650 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.