اللہ تعالیٰ عادل ہے اور عدل کو
پسند کرتا ہے۔اور جہاں عدل و انصاف ہوگا وہاں امن ہو گا۔اللہ اپنی زمین پر
امن چاہتا ہے ۔اس لئے حکمرانی کے لئے انہی لوگوں کو پسند کر تا ہے جو عدل
کریں اور امن قائم کریں۔اور یہ وہ لوگ ہیں جواللہ پر ایمان لاتے ہیں۔اس کے
رسول ﷺکی پیروی کرتے ہیں اور آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔
انسان جرم سے تب ہی رکتا ہے جب اسے اللہ کی پکڑ کا ڈر ہو۔معاشرے میں ذلّت
اور سزا کا خوف اور یقین ہو۔اسلامی معاشرے میں سزا کا نفاذاسی لئے سر عام
کیا جاتا ہے کہ لوگ کھلی آنکھوں دیکھیں۔جرم پر سزا کایقین کریں اور عبرت
حاصل کریں۔جرائم کی روک تھام میںشہادت یا گواہی کی بڑی اہمیت ہے۔جھوٹی
گواہی جہاں انتہائی گھناﺅناعمل ہے ۔وہاں سچّی گواہی چھپانا بھی اسی درجہ کا
بدترین فعل ہے۔
جہاں انصاف اور عدل نہ ہوگا۔وہاں بد امنی ہوگی،ظلم ہوگا،فتنہ و فساد،چوری
ڈاکہ،لوٹ کھسوٹ ،قتل وغارت اور خون خرابہ ہوگا۔کبھی مایوس مظلوم بھی تنگ
آمد بجنگ آمد ۔انتقامی کاروائیوں کے چکر میںپھنس جاتا ہے۔اور اس شیطانی چکر
میں عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر مظلوم سے ظالم بن بیٹھتاہے۔ اس
طرح ہنستی کھیلتی بستیاں تہس نہس اور آبادیاں ویرانوں میں تبدیل ہو جاتی
ہیں۔لوگوں کا امن و سکون غارت ہو جاتاہے۔
اللہ تعالیٰ بدکردار اور نافرمان قوم کو ظالم حکمرانوں کے ذریعہ بھی سزا
دیا کرتا ہے۔اس بگڑی ہوئی قوم میں سے ہی بدترین افراد کو اس قوم پر مسلط کر
دیتا ہے ۔اور وہ لوگ اپنی قوم کوبے حس،بے ضمیر اور بے بس کر کے اس پر سواری
کرتے ہیں۔خوب خوب رگیدتے ہیں۔ذلیل اور خوار کرتے ہیں۔
حکومتی اداروں کو چلانے والوں کے دلوں سے اگر خوف خدا نکل جائے تو کسی
حقدار کی نہ حق رسی ہوتی ہے نہ دیانتداری اور فرض شناسی کا چلن باقی رہتا
ہے اور معاشرہ جہنم زار کا نمونہ بن جاتا ہے۔جہاں انصاف اور حق کے لئے
بولیاں لگتی ہیں۔خودغرضی اور لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ ہوتا ہے۔پھر حکومتی
کارفرما محافظوں کی فوج رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور بلٹ پروف گاڑیوں میں
چھپتے پھرتے ہیں۔کفر کی حکومت کو اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ ڈھیل دے دیتا ہے
لیکن ظلم اور ناانصافی کو زیادہ دیر برداشت نہیں کیا کرتا۔
ا نسانی تاریخ کے اندھیاروں میںحضرت عمرؓ کا دور حکومت عدل و انصاف اور امن
و امان کا آفتاب بن کر طلوع ہوا تھا۔اس دور میںظلم و جبر کے عفریتوں کو
چھپنے کے لئے کوئی کونا کھدرا تک میسّر نہ تھا۔ دکھی اور ستائی ہوئی مظلو م
انسانیت کو ماں کی آغوش جیسا سکون اور باپ کے مضبوط بازووں جیسا تحفظ حاصل
تھا۔حضرت عمرؓ کے عدل پرور کوڑے کی سنسناہٹ سے ایوان ہائے قیصر و کسریٰ تک
لرزاں و ترساں تھے۔
اسلام کے وسطی دور میں مسلم حکمران شیرشاہ سوری کا پانچ سالہ مختصر دور
حکومت ظلم و جبر کی اندھیری رات میں عدل وانصاف کے مہتاب کی طرح روشن
دکھائی دیتا ہے۔اس دور میں امن و امان کی کیفیت یہ تھی کہ کلکتہ سے پشاور
تک سونا چاندی کے زیورات سے لدی صنف نازک تن تنہا سفر کرتی ہے۔اور کسی کی
مجال نہیں کہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات بھی کر سکے۔
اور اس گئے گزرے پر آشوب دور میں۔ابھی ابھی ماضی قریب میں۔مملکت اسلامیہ
افغانستان میں گدڑی پوش بوریا نشین طالبان کا انتہائی مختصر دور حکومت امن
کے ناطے گویا صبح کا چمکتا دمکتا ستارہ تھا۔ساری دنیا اعتراف کرتی ہے کہ
ملاں عمر کا افغانستان اپنے وقت میں دنیا کا سب سے پر امن خطہ تھا ۔بے شک
طاغوتی قوتوں نے زیادہ موقع نہیں دیا ۔اور اس خطے کو جبر و جفا کی سیاہ
چادر میں پھر لپیٹ کر رکھ دیا۔لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ
صبح کا ستارہ جس کی اپنی زندگی تو بلاشبہ مختصر سی ہوتی ہے لیکن وہ آفتاب
کا نقیب و پیش رو اور ایک روشن دن کا پیامبر بھی ہوتا ہے۔کیا امت مسلمہ کی
نشاة ثانیہ کا سورج عنقریب طلوع ہو رہا ہے؟ کیا وہ وقت قریب آ گیا ہے؟ ہاں!
اس حقیقت کی کھلی اور بہترین شہادت ایوان ریڈلی کا مریم کی شکل میں دوسرا
اورخوبصورت روپ ہے۔ایوان ریڈلی انتہائی تعلیم یافتہ برطانوی صحافی جس نے
ترقی وتمدن کے بام عروج پر پہنچے مغربی معاشرہ کو تھتکار کر گدڑی پوش
طالبان کے دین۔اسلام کی آغوش میں امان و عافیت پائی۔ ہاں۔ساری دکھی انسانیت
امن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔اور فقط دین اسلام ہی امن اور سلامتی کا گہوارہ
ہے۔غور کرےں۔آثار کیا دکھا رہے ہیں؟ قرائن کیا بتا رہے ہیں؟ |