اس وقت پاکستان ان گنت مسائل کا
شکار ہے ،غربت ،بے روزگاری ،دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ ،سیاسی عدم استحکام ،اشیاءخوردونوش
کا بحران ،بجلی ،پانی،و گیس کا بحران ہو شربا مہنگائی تعلیمی نظام کا کھو
کھلا پن ،بے انتہا کرپشن اس جیسے لا تعداد مسائل اپنے خونی جبڑے کھولے
پاکستان کو آہستہ آہستہ نگل رہے ہیں۔ہمارے حکمران ،بیوروکریٹس ان مسائل کو
حل کرنے میں روزاوّل کی طرح ہمیشہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ان مسائل اور
بحرانوں پر کافی لکھا جا چکا ہے لیکن یہاں میں ایک ایسا مسئلہ زیرقلم لانا
چاہ رہا ہوں جو پاکستان کا دیرینہ اور انتہائی قابل غورمسئلہ ہے۔جس کی وجہ
سے پاکستان کی نئی نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ جس طرح مندرجہ بالا سارے
مسائل پاکستان کے ڈھانچے کو دیمک کی چاٹ رہے ہیں۔اور پاکستان کے وجود کو
تباہی و بربادی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔بالکل اسی طرح معاشرے میں بڑھتی ہوئی
فحاشی اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان کو اخلاقی بربادی کے اندھے
کنویں کے جانب دھکیل رہی ہے ،معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی اور غیر ملکی
ثقافتی یلغار کے سبب ہماری نئی نسل اپنی تہذیبی اقدارسے دورہونے کے ساتھ
ساتھ مثبت و صحت افزار حجانات سے بھی نا بلد ہوتی جارہی ہے، مذہب ،تعلیم
اور ہرطرح کی تعمیری سرگرمیوں سے ہماری نئی نسل کی دوری کی اصل وجہ یہی بے
لگام فحاشی ہے۔CABLE TV غیر اخلاقی رسائل و جرائدDVD،CD موبائل فون کے بے
ڈھنگے پیکچرز،انٹرنیٹ کیفے یہ وہ ذرائع ہیں جس کے ذریعے آج فحاشی کو بلا
خوف و خطرپھیلایا جا رہا ہے۔کیبل TVکے ذریعے پڑوسی ملک کا کلچر آج ہمارے
گھروں میں سرایت کر چکا ہے ۔آج ہماری خواتین گنجن،کم کم اور دھانی اور
پرتگیاکے کرداروں میں محو ہیں۔اور اپنی اعلیٰ اقدار کے حامل عظیم ہستیوں
حضرت عائشہؓ،حضرت فاطمہؓ اور چاند بی بی جیسے لا تعداد کرداروں سے نا واقف
ہو چکی ہے ۔کیبلTV پر انڈین نیم عریاں فلموں کی بھرمار انگلش چینلز پر غیر
سنسر شدہ فلموں کی نمائش اور مقامی کیبل آپریٹروں کی جانب سے سی ڈی چینلز
پر شرمناک پنجابی ،پشتومجروں کی کھلے عام نمائش نے ہماری نئی نسل کی
بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔آج ہماری نئی نسل تعلیم میں کم آور منفی
سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔ان میں ادب اور تعمیری سوچ کا فقدان
ہے۔انٹرنیٹ کیفوں میں حیا سوز فلموں کی کھلے عام اور بلا خوف و خطر استعمال
نے ہماری نئی نسل کے ذہنوں کو ماوف کر کے رکھ دیا ہے۔جس کی وجہ سے وہ جرائم
اور منشیات میں دلچسپی لے رہے ہیں سٹریٹ کرائمز اور شراب نوشی ان کے لیے
ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے ،فلموں ،ڈراموں اور رسائل و جرائد میں
مجازی عشق و محبت سے لبریز کہانیوں کی بھر مار نے ہمارے نوجوانوں کو تباہ
کر دیا ہے۔آج ہمارا نوجوان موبائل فون پرگھنٹہ پیکج پرگلی گلی عشق کرتا نظر
آتا ہے،جس کی وجہ سے آج نئی نسل والدین کی نافرمان ہی نہیں بلکہ ازدواجی
زندگی کا چناﺅ بھی اپنی مرضی سے اور غلط انداز سے کر رہا ہے جس کے سبب کورٹ
میرج کے واقعات میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔نئی نسل کو تباہ کرنے
والے یہ سب ذرائع بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں۔لیکن نہ کوئی صدائے احتجاج
بلند ہو رہی ہے،نہ کوئی مذمت ہو رہی ہے۔نہ کوئی پابندی لگ رہی ہے۔نہ کوئی
قانون وضع کیا جا رہا ہے۔نیوز چینلز کو چا بکدستی سے بند کرنے والے پیمرا
کے پاس شاید اس طوفان کو روکنے کا اختیار نہیں ہے یا پھر وہ اس سلسلے کو
روکنے کا خواہاں نہیں۔ ہمارے حکمران جو خود ہر سطح پر مغرب کی نقالی اور
مغربی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں،انہیں اس اہم مسئلے سے کیا غرض اور کیوں
ہو؟ہماری اعلیٰ عدالتوں کے نظر میں بھی شاید یہ کوئی ایشو ہی نہیں رہا
ہے۔ورنہ کیبل آپریٹرز چیف جسٹس کے احکامات کی یوں دھجیاں نہیں اُڑاتے ۔پولیس
کی نظر میں عریانیت و فحاشی پھیلانا شاید جرم ہی نہیں ہے۔ہماری نئی نسل اس
غیر ملکی ثقافتی یلغار اور فحاشی سے شدید متاثر ہو کر جرائم اور جنسی بے
راہوی کا شکار ہو کر اخلاقی بربادی کی طرف گامزن ہے۔اس ثقافتی یلغار نے صرف
نوجوانوں کو نہیںبلکہ معاشرے کے سب طبقات کو شدیدمتاثرکیاہے ۔بے حیائی
فحاشی اور ثقافتی جنگ صرف ہمارے ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔بلکہ ساری دنیا کا
مسلہ ہے۔دیگر ممالک اس مسلے سے کس طرح نمٹ رہے ہیں ہمیں ان سے سبق سیکھنا
چاہیے۔ہمیں اپنے پڑوسی ملک ایران سے سیکھنا چاہیے کہ وہ اس اَن دیکھے دشمن
کا مقابلہ کیسے کررہاہے۔ہمیں کئی دیائیوں سے جنگ زدہ اور معاشی بد حالی کا
شکار افغانستان سے سیکھنا چاہیے کہ وہ اسے کیسے کنٹرول کر رہا ہے۔اس زہر کو
پھیلانے والے یورپ سے سیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے معاشرے کو اس کے اثرات سے
کیسے بچا رہا ہے۔ فحاشی کے اس زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کرچکاہے۔ملک میں
بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز ،جنسی جرائم ،کورٹ میرج میں بے تحاشا اضافہ ،عصمت
فروشی میں بے انتہا اضافہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اخلاقی
تباہی کی طرف جا رہے ہیں اگر اس طوفان کو نہ روکا گیا تو وہ دن دور نہیں جب
ہماری نئی نسل اپنے مذہب ،اپنی ثقافت ،اپنی تہذیب سے نا آشنا ہوجائے گی۔اور
اپنی پہچان کرانے میں ناکام ثابت ہو گی اور وہ ہمیں ہی مورد الزام ٹہرائے
گی اور اس الزام میں وہ حق بجانب ہونگے ،خدارا سوچئیے ،اپنے لیے اپنے ملک
کے لیے اپنی نئی نسل کے لیے اپنی بقا کے لیے۔ |