پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عام طور پر ”ٹرانس
جینڈر ایکٹ“کہا جاتا ہے۔ یہ قانون 2018 میں پاس ہوا اور اس کے حق میں حکومت
اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد
خان نے اس کی بھر پور مخالفت کی لیکن اس وقت کسی نے اس بل خامیوں کی طرف
توجہ نہیں دی۔ جب یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوا تو پھر چشم کشا حقائق سامنے
آئے۔ بظاہر یہ بل خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنایا گیا ہے۔ اس سارے
بل میں خواجہ سراؤں کو جتنے بھی حقوق دئے گئے ہیں ان پر سب کا اتفاق ہے۔
بلکہ یہ حقوق جب پاکستان بنا تھا اسی وقت انہیں دینے چاہیے تھے۔ عام آدمی
کے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دین دار حلقے اور
خواجہ سراؤں کی خاصی تعداد بھی اس بل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں؟ اس بل
کی مخالفت کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ پاکستان میں شریعت سے متصادم کوئی
بھی قانون متعارف نہیں کروایا جا سکتا جبکہ اس قانون کے چیپٹر نمبر دو کی
شق نمبر تین کی ذیلی شق نمبر دو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں لھذا اس بل
میں ضروری ترامیم کی جائیں۔ جبکہ اس کے حق میں لکھنے والے لبرل دانشور حسب
توقع کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شق خلاف شریعت ہے ہی نہیں لھذا اس میں ترامیم
کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس حالت میں یہ بل پاس ہوا ہے اسی طرح نافذ العمل رہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اکثر لوگوں نے اس بل کو خود نہیں پڑھا بلکہ سنی سنائی
باتوں پہ اپنی تربیت اور اکار کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر رائے زنی
کر رہے ہیں۔ اس تمام صورت حال میں ایک عام پاکستانی الجھاؤ کا شکار ہے کہ
اصل صورت حال ہے کیا؟ ہمارا یہ کالم ان ہی لوگوں کی کنفیوژن کے ازالے کیلئے
ایک ادنی سی کاوش ہے۔ہم اس بل کے اصل متن کی روشنی میں صورت حال آپ کے
سامنے رکھیں گے پھر فیصلہ آپ خود کریں۔ اس سارے قانون میں ایک نکتہ قابل
غور ہے کہ کوئی بھی 18 سال سے زائد عمر کا مرد یا عورت نادرا آفس جا کر
اپنے آپ کو ٹرانسجنڈر ظاہر کرکے مرد سے عورت یا عورت سے مرد میں جنس تبدیلی
کی درخواست دے تونادرا دستاویزات میں اس کی جنس تبدیلی کا پابند ہوگا۔
نادرا اس کی پیدائشی ریکارڈ میں پہلے سے لکھی گئی جنس تبدیل کرنے کا پابند
ہوگا۔ اگر ایک پیدائشی مرد ہے، وہ کسی مرد سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ
آسانی سے اپنے آپ کو عورت لکھوا کر شادی رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔ اسی طرح
صنف مخالف بھی یہی کچھ کر سکتی ہے۔ اس سے جائداد کے معاملات، عورتوں مردوں
کے میل جول کے معاملات میں بہت سی قباحتیں جنم لیں گی۔اس میں میڈیکل ریپورٹ
کو لازم قرار دے دیا جائے تو مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ موجودہ قانون
میں صرف کپڑے اور شکل و صورت بظاہر تبدیل کر کے جو چاہے بنے، مرد عورت اور
عورت مرد۔ نادرا ان کی خواہش ماننے کا پابند ہے۔ جبکہ طبی لحاظ سے خواہ اس
کی جنس تبدیل نہ بھی ہوئی ہو۔ بظاہر خواجہ سراؤں کے حقوق کی آڑ میں یہ Gays
اور Lesbians کا قانونی رستہ ہموار کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ اس سے وہ
بآسانی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یوکے میں 2004 میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی
معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی کیا گیا ہے جب کہ پاکستان جینڈر ایکٹ
2018 کے لحاظ سے کسی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر مرد سے عورت یا عورت سے
مرد بننے اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرانے کی کھلی چھٹی ہے۔ محسوس یوں ہوتا
ہے کہ ہم مغرب سے بھی دو قدم آگے لبرل بننے کی دوڑ میں ہیں۔ ہم جنسوں کی
عالمی تنظیم کی جانب سے اس قانون کی حمایت میں لابنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ
طاقت ور حلقے ان این جی اوز سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ ڈالرز کی چکاچوند سے
ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔ اصل اعتراض مسودہ کےChapter 2کی سیکشن 3 کی
سب سیکشن 3 اور 4 پر ہے جہاں 18 سال کی عمر کے بعد خواجہ سراؤں کو نام کی
تبدیلی اور اپنی مرضی سے جنس کی تبدیلی لکھوانے کی اجازت دی کی گئی ہے
(ہم نے بل کی اصل عبارت نیچے دے دی ہے۔ آپ خود بھی پڑھ لیں)
اس بل کے حوالے سے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ قوانین
تو خواجہ سراوؤں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے جا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے
کہ اس سے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا
اور ایسے لوگوں کو ان کی کمیونٹی میں شامل کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو دراصل
ان کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 کے ذریعے
انتہائی خطرناک قانون سازی کی گئی۔جس میں یہ کہا گیا کہ کسی بھی ٹرانس جنڈر
شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا
کہ کوئی مرد اٹھے اوراعلان کر دے کہ مجھ میں تو عورت والی حسیات پیدا ہو
چکی ہیں لہٰذا آج سے مجھے عورت سمجھا جائے تو نہ صرف اس کے دعوے کو قبول
کیا جائے گا بلکہ اس کے مطابق اس کو دستاویزات یعنی شناختی کارڈ اور
پاسپورٹ وغیرہ بھی جاری کیے جائیں گے۔اسی طرح اگر کوئی خاتون یہ دعویٰ کرے
کہ مجھے مرد کی کیفیات بدن میں محسوس ہو رہی ہیں تو اس کو اس کے دعوے کے
مطابق مرد سمجھا جائے گا اور اسے مردوں کی صنف کے مطابق شناختی دستاویزات
جاری کر دی جائیں گی۔اس عمل میں نہ تو میڈیکل بورڈ کی پابندی عائد کی گئی
اور نہ اس کے نفسیاتی معائنے کی شرط رکھی گئی۔ انسانی جسم کے حوالے سے قرآن
کریم کا بڑا واضح حکم ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم
میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے کہ جس سے اس کی ساخت تبدیل ہو جائے کیوں کہ
اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان اپنے جسم کا خود مالک نہیں بلکہ یہ اس کے
پاس اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی امانت ہے اور وہ اس امانت میں اللہ کی طرف
سے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی تصرف کر سکتا ہے۔تاہم”میرا جسم میری
مرضی“والے طبقے کی خوشنودی کیلئے مذکورہ قانون کے تحت ایک سنگین فتنے کا
راستہ کھول دیا گیا ہے جس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی گئی۔ آپ بھی قانون
کا اصل متن پڑھ لیں۔ اس میں 18سال کے بعد کسی بھی مرد و عورت کو از خود جنس
تبدیلی کا اختیار دے دیا گیا جبکہ پہلے وہ نارمل مرد یا عورت کے طور پر
نادرا میں رجسٹرڈ تھا۔ ٹرانسجنڈر بنے گا ہی تب جب جنس تبدیل کا خود ہی اپنی
حسیات کے مطابق فیصلہ کرے گا لیکن پہلے ہی ٹرانسجنڈر کا لفظ قانون میں لکھ
کر آنکھوں میں دھول جھونکی گئی۔ اس قانون کے نتیجے میں ہزارہا لوگوں نے
ابھی تک جنس تبدیل کی جبکہ وہ خواجہ سرا نہیں ہیں۔ رہی بات خواجہ سراؤں کی
تو وہ بھی اس قانون کے خلاف بر سرپیکار ہیں کہ ہزارہا مردوں عورتوں نے اپنے
آپ کو خواجہ سرا ظاہر کر کے ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ اگر فوری طور پر
اس قانون میں ترامیم نہ کی گئیں تو ایک بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو
سکتا ہے۔
(2) A person recognized as transgender under sub-section (1) shall have
a right to get himself or herself registered as per self-perceived
gender identity with all government departments includtng, but not
limited to NADRA.
(3) Every Transgender person, being the citizen of pakistan, who has
attained the age of eighteen years shall have the right to get himself
or herself registered according to self-perceived gender identity with
NADRA
۔۔۔۔۔۔۔
ٓSub Section 1
کیا ہے یہ بھی پڑھ لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) A transgender person shall have a right to be recognized as per his
or her self-perceived gender identity, as such, in accordance with the
provisions of this Act.
s
|