موسم گرما کی اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا پچھلے چار ماہ سے موسم گرما نے
لوگوں کو جھلسا کر رکھ دیا تھا رات کی تیز بارش کے بعد موسم خوشگوار ہو گیا
تھا ستمبر کا آخری ہفتہ ہوا میں حبس کم اور خنکی آرہی تھی رات کی بارش کے
باوجود آسمان سر مئی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا سر مئی بادلوں کے آوارہ غول
آسمان کی وسعتوں میں دھمال ڈالتے اِدھر سے اُدھر جارہے تھے میں حسب معمول
دفتر آیا تو گاڑی سے باہر آتے ہی خوشگوار باد ِ نسیم کے ٹھنڈے جھونکوں نے
میرا استقبال کیا موسم کی خوشگواریت نے میرے قلب و روح پر خوشگوار اثر ڈالا
میرے دفتر کے دیوقامت شیشم کے درخت مست ہاتھیوں کی طرح جھوم کر موسم سرما
کا سوا گت کر رہے تھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں اور جھومتے درختوں کو دیکھ کر
میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور اپنے پھیپھڑوں کے لمبے لمبے سانسوں سے بھرنے
لگا ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسے ہی میرے مشام جان سے ٹکرائے جسم کا انگ انگ
کیف آفریں ماحول سے طبیعت ہلکی پھلکی اور شاد ہو گئی گرمی کی شدت کے بعدجب
حبس کی جگہ خنکی لیتی ہے تو فضا میں اداسی کا احساس بھی شامل ہو جاتا ہے یہ
موسم گرما کا اختتام اور موسم سرما کے آغاز کا وقت ہو تا ہے مجھے بچپن سے
موسم سرما کا آغاز اور موسم سرما بہت پسند ہے میں ساری زندگی گرمی حبس سے
بھاگتا ہی رہا اوائل عمری سے جیسے موسم گرما آتا تو میں کشمیر کی راہ لیتا
کبھی سکردو گلگت کی طرف دوڑتا پھر وادی سوات دریا کے ٹھنڈے پانی سے سیراب
ہو تا تعلیم مکمل کرنے کے بعد اِسی شوق کی تکمیل کے لیے نو کری کے لیے کوہ
مری کا انتخاب کیا پھر کوہ مری میں گزارے بارہ سال میری زندگی کا حاصل ہیں
جب موسم سرما کا آغاز ہو تا تو میرے رگ و پے میں سر شاری دوڑنے لگتی ہے کہ
اب اگلے چند مہینے سردی کے ہونگے رضائی گرم گداز بستر مطالعہ اور طویل سے
طویل مراقبہ جات وظیفہ جات عملیات سردی کی راتوں کی کیا بات ہے راہ حق کے
مسافر سارا سال اِن سرد طویل راتوں کا انتظار کرتے ہیں جب یہ ساری ساری رات
طلب حق کے لیے تزکیہ نفس اور عملیات میں گزارتے ہیں اِن سرد راتوں میں کسی
کامل درویش کی صحبت اگر مل جائے تو سونے پر سہاگے والی بات ہے میں صبح صبح
خوشگوار موسم کو انجوائے کر نے کے ساتھ ساتھ آنے والی طویل راتوں مراقبہ
جات عملیات سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اب خوب خوب عبادت ریاضت کا مزہ آئے
گا میں دیر تک اُس کیفیت اور موسم کو انجوائے کر نے کے موڈ میں تھا کہ
اچانک ملازم میرے پاس آیا اور بولا سر ایک بہت مجبور ماں اپنے معذور بچے کے
ساتھ صبح سے آپ کا انتظار کر رہی ہے سر بچہ بیمار معذور ہے آپ برائے
مہربانی پہلے اُس معذور بچے اور اُس کی ماں سے مل لیں باقی لوگوں سے تو آپ
کی سارا دن ملاقات ہو نی ہے پھر اُس نے دور بینچ پر بیٹی عورت کی طرف اشارہ
کیا کہ سر وہ عورت ہے آپ کو اِس لیے بتا یا ہے کہ آپ نے ہی مجھے کہا ہوا ہے
کہ آنے والوں میں اگر کوئی زیادہ بیمار مجبور پریشان ہو تو اُس کا پہلے بتا
دیا کرو ملاز م اُس عورت کی طرف اشارہ کر کے چلا گیا میں نے مختلف بینچوں
اور گراؤنڈ پر نظر ڈالی تو بہت سارے لوگ ملاقات کی غرض سے آئے ہو ئے تھے
کچھ نے ملنے کی غرض سے میری طرف بڑھنا بھی شروع کر دیا جن کو میں نے ہاتھ
کے اشاروں سے روک دیا اورخود چلتا چلتا اُس عورت کے اور بچے کے قریب آگیا
پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آپ کو معذور بچے اور اُن کے والدین روحانی
آستانوں درگاہوں مزارات پر ملیں گے کیونکہ جب ڈاکٹروں کے پاس جا جا کر
والدین تھک جاتے ہیں تو پھر مجبوراً کرامات کی تلاش میں والدین بابوں
درویشوں کے در پر ماتھا رگڑتے نظر آتے ہیں میں قریب آگیا تو ماں مجھے دیکھ
کر اُٹھ کر کھڑی ہو گئی میری نظر ماں کی بجائے معذور بچے پر تھی جس کی گردن
ایک طرف ڈھلکی ہو ئی تھی دھندلی آنکھیں خلا میں دیکھ رہی تھیں بچے کا چہرہ
آنکھیں ہر قسم کے تاثر سے عاری تھیں اِس وقت کہاں ہے دنیا میں کیا ہو رہا
ہے وہ بلکل اِس سے بے خبر تھا میں سمجھ گیا بچہ معذور ہے میں نے ماں کو
اشارہ کیا کہ وہ بینچ پر بیٹھ جائے میرے اشارے پر ماں بچے کو گود میں
سنبھالتی ہوئی پتھر کے بینچ پر بیٹھ گئی میں بھی ساتھ بیٹھ گیا بچے کو بغور
دیکھتے ہوئے بولا یہ پیدائشی معذور ہے یا بعد میں کسی بیماری کی وجہ سے
بیچارے کی یہ حالت ہو گئی ہے تو ماں کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی نہیں سر
یہ گناہوں کی سزا ہے ساری زندگی گنا ہ غلطی میں کرتی رہی لیکن سزا اِس
بیچارے کو مل گئی اگر مجھے میرے گناہوں کی سزا ملتی تو شاید مجھے اتنی
تکلیف نہ ہوتی جتنی اِس کی بیماری سے ہوئی ہے میں ہر پل ہر سانس کے ساتھ
درد سے گزرتی ہوں شدید تکلیف کرب سے گزرتی ہوں سر قصور میرا ہے اب میں نے
پہلی دفعہ ماں کے چہرے کی طرف دیکھا تو مجھے آشنا چہرہ لگا کہ میں اِس سے
مل چکا تھا مجھے اپنی طرف دیکھ کر وہ بولی سر آپ مُجھ سے فلاں سٹور میں کئی
بار مل چکے ہیں اب میں وہ نوکری چھوڑ چکی ہوں اِس لیے کافی عرصہ سے آپ سے
ملاقات نہیں ہوتی اُس کے بتانے پر مجھے یاد آگیا وہ ایک بڑے شاپنگ سٹور
پرسیل گرل تھی میں تین چار بار گھر والوں کی فرمائش پر اِس کے پاس چیزیں
لینے گیا میں جا کر اِس کوکہنا یہ چیزیں جو اچھی ہیں وہ دے دو لیکن گھر
والوں کی شکایت پر کہ یہ چیزیں جعلی ہوتی ہیں اچھا رزلٹ نہیں دیتیں میں نے
جانا چھوڑ دیا آج یہ میرے سامنے بیٹھی تھی اور اقرار کر رہی تھی کہ سر میں
لوگوں کو غلط چیزیں جعلی دیتی مہنگے برانڈوں میں سستے برانڈوں کا میڑیل بھر
کر مہنگے داموں بیچ دیتی اِس طرح میں نے بہت سارے پیسے اکھٹے کر کے جب شادی
کی تو اﷲ نے مجھے سزا دی کہ میں جو لوگوں کو ملاوٹ شدہ چیزیں دیتی تھی میرے
بیٹے میں خدا نے ملاوٹ کر کے اِس کو معذور کر دیا میں لوگوں کے ساتھ ملاوٹ
دھوکا کرتی رہی اب میرے ساتھ ہو گیا اب میں دردر پر اِس کی صحت مانگنے جاتی
ہوں آج آپ کے در پر آئی ہوں مجھے خدا سے معافی لے دیں میرے گناہوں کی سزا
میرے معصوم بچے کو مل رہی ہے پھر وہ بہت رونے کے بعد چلی گئی تو میں قدرت
کے نظام پر حیران کہ ہم جوانی طاقت کے نشے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں لیکن
جب قدرت کا ہاتھ حرکت میں آتا ہے تو بڑے بڑے کیڑے مکوڑوں کی طرح مدد مدد
پکارتے نظر آتے ہیں ۔
|