#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورٙةُالمُدثر ، اٰیت 1 تا 30
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد استفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰا
یھاالمدثر
1 قم فانذر
2 وربک فکبر
3 وثیابک فطھر 4
والرجز فاھجر 5 ولا
تمنن تستکثر 6 ولربک
فاصبر 7 فاذا نقر فی الناقور
8 فذٰلک یومئذ یوم عسیر 9 علی
الکٰفرین غیر یسیر 10 ذرنی و من خلقت
وحیدا 11 وجعلت لہ مالا ممدودا 12 و بنین
شھودا 13 و مھدت لہ تمھیدا 14 ثم یطمع ان ازید
15 کلا انہ کان لاٰیٰتنا عنیدا 16 سارھقہ صعودا 17 انہ
فکر و قدر 18 فقتل کیف قدر 19 ثم قتل کیف قدر 20 ثم
نظر 21 ثم عبس و بسر 22 ثم ادبر و استکبر 23 فقال ان ھٰذا
الا سحر یوؑثر 24 ان ھٰذا الا قول البشر 25 ساصلیہ سقر 26 و ما ادرٰک
ما سقر 27 لا تبقی و لا تذر 28 لواحة للبشر 29 علیھا تسعة عشر 39
اے اپنی ذات میں ساری کائنات کی حسنات سمیٹے ہوئے ہمارے رسول ! ہماری زمین
پر آخری انقلاب برپا کرنے کے لیئے آپ کے کھڑے ہونے کا مناسب وقت آچکا ہے
اِس لیئے اٙب آپ کھڑے ہو جائیں اور خُدا کی برتری کے منکر اہلِ زمین کو
اپنی عُمر بھر کی پاک دامنی کے اعجاز اور اپنے عُمر بھر ناپاک انسانوں سے
دُور رہنے کے اعزاز کے مُعتبر حوالوں کے ساتھ خُدا کی برتری کا یقین دلائیں
اور اِس احسان کے بدلے میں انسان سے قبولِ حق سے زیادہ کسی چیز کی اُمید نہ
رکھیں اور حق کے اِس مُشکل راستے کی مُشکلات پر ہمیشہ صبر کریں اور انسان
کو اُس مُشکل دن کی اُس مُشکل گھڑی سے آگاہ کریں جس مُشکل گھڑی کی ہانک
پُکار ہوتے ہی عالٙم کی ہر سمت میں ایک دل ہلا دینے والی ہاہا کار مچ جائے
گی اور وہ گھڑی خُدا کے منکروں پر بہت ہی بھاری ہو گی اور آپ انسان کو اِس
اٙمر کا بھی احساس دلائیں کہ ہم نے اُس کو تٙنہا پیدا کیا ہے تو ہم نے اُس
کو اُس کے اُس احساسِ تنہائی سے بچانے کے لیئے سامانِ معاش اور حاضر باش
اٙولاد بھی دی ہے لیکن اِس پر بھی اُس حریص طبع کا یہ مطالبہ ہے کہ اُس کو
اِس سے اور زیادہ دیا جائے حالانکہ ہمارے اٙحکام کے اُس منکر کو اِس زندگی
کے بعد ہلاکت کی وہ گھاٹی بھی عبور کرنی ہے جو اِس نے آپ ہی اپنی بد عملی
سے اپنے لیئے پسند کی ہے اور اپنے اِس سارے کیئے دھرے پر بھی وہ ہمیشہ اتنا
متکبر رہا ہے کہ ہم نے جب بھی اُس کے سامنے اپنا کلامِ ہدایت پیش کیا ہے تو
اُس نے اپنا بگڑا ہوا مُنہ مزید بگاڑ کر اور اپنی چڑھی تیوری مزید چڑھا کر
پُورے غرور و تکبر کے ساتھ یہ کہہ کر اپنا رُخ پھیر لیا ہے کہ اُس کے سامنے
جو کلام پیش کیا گیا ہے وہ کلام کسی جادُو گر انسان کا بنایا ہوا ایک
جادُوئی کلام ہے جو سینہ بہ سینہ نقل در نقل ہوتا ہوا اُس تک آیا ہے لیکن
جب ہم اُس منکر کو دوزخ میں ڈالیں گے تو اُس کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارا
سچ کیا ہے اور اُس کا جُھوٹ کیا ہے اور ہماری جس دوزخ میں اُس نے جانا ہے
وہ دوزخ اپنے مکین کو چھوڑتی بھی نہیں ہے اور باقی بھی نہیں رہنے دیتی اور
ہماری اُس دوزخ پر ہمارے وہ 19 ہمہ وقتی نگران کھڑے ہیں جو ہمہ وقت اُس
دوزخ میں آنے اور جانے کے راستوں کی نگرانی کرتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت سے پہلی سُورت کے ضمنی مضامین میں ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ
قُرآن کی یہ سُورت سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی پر نازل ہونے والی
پہلی سُورت ہے اور اِس سُورت میں نازل کیئے گئے پہلے اٙحکام سیدنا محمد
علیہ السلام کو دیئے گئے وہ پہلے اٙحکام ہیں جن پر آپ کی دعوتِ نبوت کا دار
و مدار ہے اِس لیئے ہم اِس سُورت کے اِس پہلے مضمون کو اِس مضمون کی ترتیبِ
اٰیات کی اُسی ترتیب کے ساتھ پیش کرتے ہیں جس ترتیب کے ساتھ اِس سُورت کا
یہ پہلا مضمون اِس سُورت میں بیان ہوا ہے اور جس ترتیب کے ساتھ اِس سُورت
کا یہ پہلا مضمون بیان ہوا ہے اُس ترتیب کے مطابق اِس سُورت کی پہلی اٰیت
آپ کے نبوت کے لیئے مُنتخب ہونے کی وہ وجہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہماری
جس فطری و فکری درسگاہ میں آپ کی جو فطری اور فکری تربیت ہوئی ہے اُس تربیت
سے آپ نے ہمارے سارے جہان کی ساری حسنات کو اپنی ذات میں سمیٹ لیا ہے اِس
لیئے ہم آپ کو اپنے سارے جہان کے لئے اپنی اِس ہدایت کا پیغام بر بنا رہے
ہیں ، ہمارے اِس پہلے پیغام میں آپ کے لیئے ہمارا پہلا حُکم یہ ہے کہ آپ
اپنے جسم و جان اور رُوح و ایمان کی پُوری قُوت کے ساتھ ہماری اُس دعوت کے
لئے کھڑے ہو جائیں جو دعوت آپ نے اہلِ جہان کو دینی ہے اور آپ کا یہ
استقلال ہی آپ کے صدق کی پہلی شہادت ہے جس کے تمام اہلِ شہر شاہد ہیں ، اِس
پہلے حُکم کے بعد ہمارا دُوسرا حُکم یہ ہے کہ آپ اپنی اِس دعوتِ حق کا آغاز
کریں تو آپ اِس میں اپنی اُس پاک دامنی کو اپنا تعارفِ ذات بنائیں جو پاک
دامنی ہم نے آپ کی ذات میں اِس طرح سمودی ہے کہ جس نے آپ کی ذاتِ گرامی کو
دیکھا ہے اُس نے آپ کی اُس پاک دامنی کی صفاتِ عالیہ کو بھی دیکھا ہے اور
یہ آپ کے صدقِ نبوت کی دُوسری شہادت ہے جس کے تمام اہلِ معاشرہ چشم دید
گواہ ہیں ، ہمارا تیسرا حُکم یہ ہے کہ آپ اپنی تاریخِ حیات کے اُس دور کو
بھی اپنا تعارفِ ذات بنائیں جو دور آپ نے اِس طرح گزارا ہے کہ آپ ہمیشہ ہی
بدی اور اہلِ بدی سے دُور رہے ہیں اور یہ آپ کے صدقِ نبوت کی وہ تیسری
گواہی ہے جس کا تمام اہلِ معاشرہ نے بچشم خود مشاہدہ کیا ہوا ہے ، ہمارا
چوتھا حُکم یہ ہے کہ آپ اِس دعوتِ حق کی صورت میں اہلِ زمین پر اِس ہدایت
دہی کی صورت میں انسان کے ساتھ احسان کر رہے ہیں اُس احسان کا برابر صلہ
اُن اہلِ زمین کا قبولِ ایمان ہے اِس لئے آپ اہلِ زمین سے قبولِ حق سے
زیادہ کبھی بھی کسی شئی کی اُمید نہ رکھیں اور اللہ نے آپ کو جو دیا ہے اور
جتنا دیا ہے اُس پر ہمیشہ صبر و قناعت کرتے رہیں اور آپ کا یہ پیغمبرانہ
استغنا بھی آپ کے صدق کی وہ عظیم الشان گواہی ہے جو آپ کے اعلانِ نبوت سے
پہلے ہی اہلِ نظر کی نظر میں موجُود ہے ، اِن سات اٰیات کے بعد اِس سُورت
کی آٹھویں اٰیت سے دسویں اٰیت تک مکافاتِ عمل کا وہ نقشِ عبرت پیش کیا گیا
ہے جس کو آپ نے اپنی اِس دعوت میں پیش کرنا ہے تاکہ انسان اپنے بُرے اٙنجام
کے اُس بُرے مقام کی طرف بڑھنے سے اجتناب کرے اور اپنے اٙچھے اٙنجام کے
اٙچھے مقام کا انتخاب کرے ، اِن دس اٰیات کے بعد اِس سُورت کی گیارھویں سے
سولھویں اٰیت تک انسان کا وہ ناشکراپن دکھایا گیا ہے جس کا انسان عموما
مظاہرہ کرتا ہے اور اسی میں انسان کی اُس حرص و ہوس کا ذکر بھی کیا گیا ہے
کہ اُس کو جنتا بھی دیا جاتا ہے اُس کا دل اُس سے کبھی سیر نہیں ہوتا ہے
بلکہ ایک نعمت کے بعد وہ ایک اور نعمت کی طلب میں مُبتلا ہو جاتا ہے
حالانکہ اگر اُس کی نافرمانی کو دیکھا جائے تو وہ زندگی کی اُن نعمتوں کا
بھی حق دار نہیں ہے جو اُس کو حاصل ہیں اور حاصل ہو رہی ہیں ، پھر اٰیت
سولہ سے لے کر اٰیت بیس تک انسان کی اُس سر کشی کا ذکر ہے جو سر کشی وہ حق
کے مقابلے میں اختیار کرتا ہے اور اِس پر مُستزاد یہ ہے کہ جب اُس کے سامنے
ایمانِ دُنیا اور نجاتِ آخرت کے موؑثر دلائل پیش کیئے جاتے ہیں تو وہ اُن
دلائل کی ایمانی و یقینی تاثیر کو جادُو کہہ کر مُسترد کر دیتا ہے اور اٰیت
21 سے لے کر اٰیت تیس تک انسان کے دُنیا سے آخرت کی طرف ہونے والے اُس صبر
آزما سفر کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کے عملِ خیر کی صورت میں انسان کے
لیئے ایک آسان ترین سفر اور عمل بد کی صورت میں انسان کے لیئے ایک مُشکل
ترین سفر ہوتا ہے ، گویا یہ نبوت محمدی کا وہ عملی پروگرام ہے جو سیدنا
محمد علیہ السلام کو اِس پہلی وحی میں دیا گیا ہے کہ آپ نے دین کی اِن علمی
و عقلی بُنیادوں پر کارِ نبوت اٙنجام دینا ہے اِس لیئے قُرآن کی اِس پہلی
وحی کے اِن پہلے مُفصل اور غیر مُبہم اٙحکام کی رُوسے اہلِ روایت کی وہ
تمام روایات باطل ہیں جن روایات میں یہ کہا گیا ہے کہ قُرآن کی پہلی وحی
آنے کے موقعے پر نبی علیہ السلام سینہ و سر لپیٹ کر لیٹے ہوئے تھے اور
قُرآن کی آخری وحی آنے کے موقعے پر بھی آپ ایک چادر لپیٹ کر سوئے ہوئے تھے
جب کہ اٙمرِ واقعہ یہ ہے کہ نہ تو آپ اللہ کی پہلی وحی کے موقعے پر سینہ و
سر لپیٹ کر لیٹے ہوئے تھے اور نہ ہی اللہ کی آخری وحی کے موقعے پر آپ چادر
اوڑھ کر سوئے ہوئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وحی کے موقعے پر بھی اللہ نے
اپنے ایک اُٹھے جاگے ہوئے اُس رسول کو اپنا پیغام دیا تھا اور آخری وحی کے
آخری موقعے پر بھی اللہ نے اپنے اُس جاگتے ہوئے رسول کو اُس کی سوئی ہوئی
اُمت کو جگانے پر ما مور کیا تھا اور اِس سلسلہِ روایت کی سب سے شرمناک
ترین روایت وہ ہے جو امام بخاری نے بخاری کی کتاب بدء الوحی کی اپنی روایتِ
حدیث میں درج کی ہے اور اُس روایت میں درج ہونے والے لفظِ { رجس } کا بخاری
کے اُردو ترجمہ کار علامہ وحید الدین نے ترجمہ { پلیدی } کیا ہے اور امام
بخاری نے اپنی کتابِ بخاری کی کتاب التفسیر کی حدیث 4925 میں اُس کی یہ
تشریح کی ہے کہ { وھی من الاوثام قبل ان تقرض الصلاة } یعنی اِس سے مُراد
وہ بت ہیں جن کی نماز فرض ہونے سے پہلے آپ عبادت کیا کرتے تھے { نعوذ باللہ
من ذٰلک } بہر حال اِس سُورت کی اِن اٰیات اور اِن اٰیات کے مقابلے میں
لائی ہوئی اہلِ روایت کی اِن روایات سے یہ اٙمر بہر حال واضح ہوجاتا ہے کہ
وحی کے بارے میں وہی بات درست ہے جو قُرآنی اٰیات میں موجُود ہے اور وحی کے
بارے میں ہر وہ بات باطل ہے جو اِن روایاتِ میں درج ہے !!
|