معذوری بھی ہمت نہ توڑ سکی٬ پولیس کانسٹیبل کیسے دوسروں کے لیے اعلیٰ مثال بن گئی؟

image
 
آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کروانے جارہے ہیں جن کی زندگی ایک حادثے نے بدل دی اور انہیں ٹانگوں سے معذوری کے بعد وہیل چیئر کا سہارا لینا پڑا لیکن انہوں نے ہار نہ مانی اور آج سندھ پولیس میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس پرعزم اور باہمت خاتون کا نام عائشہ ناز ہے۔ آئیے آپ کو ان کی زبانی ان کی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بتاتے ہیں۔
 
سوال: آپ اس وقت کیا خدمات انجام دے رہی ہیں؟
جواب: میں اس وقت ڈس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن سے وابستہ ہوں اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے، ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کی طالبہ ہوں اور معذور افراد کو زندگی جینے اور آگے بڑھنے کیلئے ان مدد کرتی ہوں۔
 
سوال: ایک نارمل زندگی سے وہیل چیئر پر کیسے آئیں؟
جواب: نارمل زندگی سے وہیل چیئر تک کا سفر لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا۔ میں سندھ پولیس میں بطور کانسٹیبل خدمات انجام دے رہی تھی۔ 2018 سے ملازمت شروع کی اور 2020 میں کام پر جاتے ہوئے روڈ ایکسیڈنٹ میں میری ٹانگیں ناکارہ ہوگئیں۔ میرے والدین کو اس کا بہت صدمہ ہوا اور میں نے بہت تکالیف برداشت کیں۔ سندھ پولیس اور میرے خاندان نے میرا بہت ساتھ دیا اور میں ایک سنگل مدر ہوں اور میرا بیٹا ہمیشہ میری ہمت بندھاتا ہے۔ایک سال گھر میں گزارنے کے بعد میں نے دوبارہ فعال زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا اور تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ نارمل زندگی سے وہیل چیئر پر آنے کے بعد معذور افراد کے ساتھ مل کر بہت خوشی ہوئی اور ڈس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن میں آنے کے بعد میری ہمت مزید بڑھ گئی۔ ایک وقت میں میرے خواب ٹوٹ چکے تھے لیکن ڈس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن میں آنے کے بعد دوبارہ حوصلہ پیدا ہوا اور معذوری کا شکار افراد کو گھروں سے نکال کر فعال کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ جب ہم برے وقت سے لڑتے ہیں تو اچھا وقت ضرور آتا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہنا چاہیے۔
 
 
سوال: آپ کے گھر میں کون کون ہے اور زیادہ سپورٹ کون کرتا ہے؟
جواب: میری فیملی ہمیشہ میرے ساتھ ہوتی ہے، میرے والدین مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ والد اور والدہ دونوں بہت زیادہ پیار کرتے ہیں اور میری بہت زیادہ کیئر کرتے ہیں۔
 
سوال: ڈس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن آنے کے بعد ذہنی بحالی میں کتنا وقت لگا؟
جواب:یہاں آنے کے بعد میری زندگی میں بہت زیادہ تبدیلی آئی۔ حادثے کے بعد میں 2 سال تک گھر پر رہی اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ شائد میں اکیلی ہوں جس کے ساتھ یہ حادثہ ہوگیا ہے۔ یہاں آنے کے بعد جب میں نے دوسرے معذور لوگوں کو دیکھا تو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہیل چیئر پر آنے کے بعد صرف لائف اسٹائل تبدیل ہوا ہے باقی سب کچھ نارمل ہے۔ معذوری ہمارے دماغ میں ہوتی ہے کیونکہ جب ہم خود کو قبول کرلیتے ہیں تو معاشرے بھی ہمیں قبول کرلیتا ہے۔
 
سوال: آپ نے پولیس فورس جوائن کی اب ماسٹرز کرکے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟
جواب: میں نے کچھ کرنے کیلئے پولیس فورس جوائن کی اور اب بھی میرا ارادہ اپنے ملک کیلئے کچھ کرنے کا ہے۔ اپنے لئے تو ہر انسان کام کرتا ہے لیکن میری خواہش ہے کہ میں اپنے جیسے لوگوں کیلئے کام کروں۔ معذور افراد کو ان کا حق دلواؤں۔ ایک عام انسان تعلیم اور دوسرے کام آسانی سے کرسکتا ہے تو میری خواہش ہے کہ معذور افراد کیلئے بھی چیزوں کو آسان بنایا جائے۔
 
image
 
سوال: پاکستان میں معذور افراد کیلئے عدم سہولیات پر کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟
جواب: تعلیمی اداروں اور شاپنگ مالز میں اگر معذور افراد کیلئے ریمپس بنا دیئے جائیں جیسا کہ نارمل انسانوں کیلئے اسٹیرز یا ایلی ویٹرز لگائی جاتی تو ایسے معذور افراد کیلئے بھی ایسی سہولیات ہونی چاہئیں جس سے معذور لوگوں کی زندگی میں بھی آسانی پیدا ہوسکے۔
 
سوال: کسی بھی حادثے کے بعد مایوس ہونے والوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: زندگی ایک امتحان ہے۔ امتحان کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، ہر امتحان کی تیاری کرنی پڑی ہے۔ فرسٹ کلاس کے بچے کی مثال لیں تو ایک بچہ بغیر پڑھے پیپر دیگا تو فیل ہوجائے گا اور چھوٹا سے بچہ بھی امتحان پاس کرنے کیلئے تیاری کرتا ہے کیونکہ یہ اس کیلئے چیلنج ہوتا ہے۔ ہم تو بہت بڑے ہیں تو ہمیں ہر امتحان کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ زندگی آسان نہیں ہے زندگی کو گزارنے کیلئے تیاری بہت ضروری ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: