ہاتھ ایک بار اٹھا تو بار بار اٹھے گا٬ بیٹی کا رشتہ جوڑنے سے پہلے چند باتوں کا خیال ضرور رکھیں

image
 
’میں نے اپنی زندگی کے 13 سال ایک ایسے شخص کے ساتھ گزارے جو مجھے بدترین تشدد کا نشانہ بناتا تھا اور جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتا تھا۔‘
 
انعم {فرضی نام} نے اپنی زندگی کے تکلیف دہ وقت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں ایک پڑھی لکھی لڑکی ہوں اور شادی سے پہلے بہت اچھی نوکری بھی کرتی تھی لیکن شادی کے بعد میرے سابقہ شوہر نے مجھ سے نوکری چھڑوا دی۔ شادی کے ایک مہینے بعد ہی جھگڑے اور گالم گلوچ شروع ہو گئی اور جلد ہی نوبت مار پیٹ تک آ گئی۔‘
 
’میں نے گزارہ کیا اور شادی کے اِن برسوں میں میرے تین بچے بھی پیدا ہوئے۔ جب میں پہلی بار شوہر کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد اپنے والدین کے گھر گئی تو خاندان کے بڑوں نے صلح کروا کر مجھے واپس سسرال بھجوا دیا۔‘
 
’ہر مرتبہ میں مار کھا کر آتی تھی تو مجھے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ تمارے بچوں کا باپ ہے اور ان کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ الٹا مجھ ہی سے یہ سوال پوچھا جاتا تھا کہ تم نے ایسا کیا کہا، جو اُس نے تمھیں مارا۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ سوال مجھے اندر سے چیر کر رکھ دیتا تھا۔ جسمانی تشدد کے ساتھ ذہنی اذیت بھی تھی جو کسی کو نظر نہیں آتی تھی۔‘
 
انعم بتاتی ہیں کہ اکثر ان کی اپنے شوہر سے بحث اس لیے ہوتی تھی کیونکہ وہ بچوں کے سامنے ’غلیظ زبان‘ استعمال کرتے تھے اور گالم گلوچ بھی۔
 
انعم کا کہنا ہے کہ ’وہ مجھے اکثر کہتا تھا کہ اگر تم مر بھی جاؤ گی تو کسی کو کیا پتا چلے گا، ان سب باتوں سے تنگ آ کر میں دو مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش کر چکی تھی۔‘
 
’مار پیٹ اور تکلیف میری زندگی کا معمول بن گیا تھا۔ وہ شخص مجھے ذہنی مریض لگتا تھا۔ جانوروں کی طرح مار کر پھر کہتا تھا کہ چلو کہیں باہر لے کر چلتا ہوں، کھانا کھلانے۔ اس نے مجھے بلیک میل کر کے میرا گھر بھی اپنے نام کروا لیا۔‘
 
image
 
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ایک دن اس نے میرے منھ پر مکا مارا جس سے میرے ناک سے خون نکل آیا۔ اس کے بعد اس نے مجھے بہت زدوکوب کیا اور بالوں سے گھسیٹے ہوئے کمرے میں لے گیا۔ یہ سب میرے بچے دیکھ رہے تھے۔ میں نے انھیں کہا کہ جا کر باہر سے کسی کو بلاؤ لیکن وہ بلکل ساکت کھڑے تھے۔ اس دن مجھے لگا کہ اب مجھے اپنے بچوں کے لیے اس شخص سے جان چھڑوانی ہے کیونکہ وہ تو یہ سب دیکھ کر سیکھ رہے ہیں۔ جس کے بعد میں نے وہ گھر چھوڑ دیا۔‘
 
ہمارے معاشرے میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ شادی کا رشتہ عورت کو معاشرے میں تحفظ فراہم کرتا ہے، مگر کئی خواتین کے لیے حقیقیت اِس کے برعکس ہے۔
 
انعم جیسی کئی خواتین ہیں جو رشتہ ازدواج میں تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کے مطابق شادی شدہ خواتین میں سے تقریباً 28 فیصد خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
 
تاہم یہ رویہ کب شدت اختیار کر لے اور معاملہ تشدد سے آگے بڑھ جائے، اس کی ایک مثال حال ہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سارہ انعام کیس میں ملی جہاں ملزم نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں 23 ستمبر کو اپنی بیوی کو مبینہ طور پر تشدد کر کے قتل کر دیا۔
 
اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر متعدد خواتین یہ سوال پوچھتی دکھائی دیں کہ اگر آپ کسی پُرتشدد مرد کے ساتھ رشتے میں ہوں تو اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟
 
اس واقعے نے ایک مرتبہ پھر خواتین سے متعلق وہی خدشات اور سوالات دوبارہ اٹھا دیے ہیں کہ خواتین کہاں اور کس رشتے میں محفوظ ہیں؟
 
رشتہ جوڑنے سے پہلے کِن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
زیادہ تر جوڑے جب کسی رشتے میں منسلک ہونے کے لیے ایک دوسرے کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں تو عموماً ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔
 
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے کو بہتر انداز میں جان پاتے ہیں۔
 
ماہرِ تعلقات اور نفسیات مریم سہیل کے مطابق وقت گزارنے سے پہلے بھی کئی ایسی باتیں ہیں جن سے آپ کم از کم یہ اندازہ باآسانی لگا سکتے ہیں کہ کوئی انسان پرتشدد ذہنیت کا حامل تو نہیں ہے۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’جب بھی آپ کسی شخص سے پہلی مرتبہ ملتے ہیں تو اس سے مل کر ایک تاثر بنتا ہے اور آپ کی چھٹی حِس بھی آپ کو اس میں مدد دیتی ہے۔‘
 
’اس لیے ہمیشہ اپنی چھٹی حس پر یقین کریں کیونکہ وہ عموماً ٹھیک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو ہمیشہ کسی سے بھی رشتہ جوڑنے سے پہلے اس کے بارے میں مکمل طور پر معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ کوئی شخص ماضی میں کسی قسم کے ظلم یا تشدد جیسے واقعات میں ملوث رہا ہے تو کبھی ایسے شخص کا انتخاب مت کریں۔‘
 
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے ہاں اکثر عورتوں کی شادیاں ایسے مردوں سے اس لیے کر دی جاتی ہیں کہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائیں گے یا ان کے رویے میں بہتری آ جائے گی۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا ہے۔ اکثر خواتین اس سوچ پر خاموش ہو جاتی ہیں کہ بس ایک مرتبہ غصے میں آ کر شوہر نے تھپڑ مار دیا لیکن ویسے نہیں مارتے۔‘
 
’تو ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ایک مرتبہ تشدد ہوتا ہے تو پھر وہ بار بار ہوتا ہے۔ اور یہ تشدد وقت کے ساتھ مزید بڑھ سکتا ہے۔‘
 
مریم سہیل کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ ’اگر کوئی انسان کسی قسم کا بھی نشہ استعمال کرنے کا عادی ہے تو اس میں بھی پُرتشدد رویہ پایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ نشے کی حالت میں پُرتشدد رویے کے ساتھ ساتھ دیگر اور مسائل بھی ہوتے ہیں۔‘
 
ان کے مطابق بدتمیزی، جلن، گالم گلوچ کرنے والے شخص میں بھی ممکنہ طور پر پُرتشدد رویہ پایا جا سکتا ہے۔ ’ان سب کے علاوہ ایک اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کسی ایسے مرد جن میں حد سے زیادہ خود پسندی ہوں وہ بھی آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ عموماً اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے۔‘
 
مشکل صورتحال میں کیا کیا جائے؟
 
image
 
پُرتشدد صورتحال میں پھنسنے والی خواتین کے لیے ماہر تعلقات اور نفسیات مریم سہیل کہتی ہیں کہ جب آپ کسی ایسی صورتحال میں گِھرے ہوں جہاں بات تشدد تک پہنچ سکتی ہے یا پہنچ جائے تو فوری طور پر وہاں سے نکلنے کی کوشش کریں اور اپنے لیے کوئی محفوظ مقام ڈھونڈیں۔
 
جب یہی سوال پولیس آفسر آمنہ بیگ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’جب بھی کسی خاتون پر کوئی مرد تشدد کرے تو اس ظلم کو چھپائِیں مت، بلکہ اپنے گھر والوں یا دوست یا رشتے داروں میں کسی کو فوری بتائیں۔‘
 
’خاتون کو فوری طور پر پولیس کو اطلاع دینی چاہیے کیونکہ ریاست اُن کی مدد ہر صورت کرے گی۔ ہمارے معاشرے میں خواتین ڈرتی ہیں اور ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرتی ہیں کیونکہ انھیں اپنے حقوق کے بارے علم نہیں ہوتا ہے۔‘
 
فریحہ ادریس نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’والدین اپنی بیٹیوں کی شادیاں اس اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائے گا۔ ’کوئی اتنا کیسے گر سکتا ہے کہ اپنے گھر کی عورتوں کو مارے پیٹے یہاں تک کہ مار ہی ڈالے۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: