آئینہ

"فَبِأَىِّءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلا وگے" نسیما نے پڑھا اور اسکی آنکھ سے آنسو گرا
.نسیما بہت دکھ میں قرآن کو پڑھ رہی تیب نسیما کی عمر قریب 22 سال تھی اور وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی روتے ہوئے قرآن کو بند کیا اور اپنے آنسو پونچے نسیما کی ماں پروین نسیما کو دیکھ کر گھبرا گئی تھی اور نسیما سے پوچھا کے" کیا تم پریشان ہو "

نسیما نے جواب دیا "نہیں اماں بس ایسے لگتا ہے کے ایک طویل عرصہ کسی غفلت میں گزار دیا ہو" اسکی ماں نے حیراانی سے کہا" کیا میں نے تمہیں نماز نہیں سیکھائی قرآن پڑھنا نہیں سکھایا جو آج تم اِس طرح پریشان ہو جیسے تمہاری تربیت کرنے والی عورت ٹھیک نہیں تھی" . . نسیما نے کہا "نہیں ماں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے لیکن شاید ہمیں قرآن کو صرف پڑھنا نہیں سمجھنا بھی چاہیے کیوں کے یہ ہماری ہدایت کے لیے نازل ہوا تھا "

. پروین گھنٹی بجنے پر دروازہ کھولنے گئی.

"إِنَّ مَعَ لْعُسْرِیُسْرًا بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے "نسیما کی بچپن کی دوست ریحانہ اسکے کمرے میں آئی اور کہا "دو چار دن سے دیکھ رہی ہوں تم قرآن بہت پڑھتی ہو "

. نسیما نے جواب دیا کے "میں جاننا چاہتی ہوں کے اللہ نے ہمیں کیا کیا کہا ہے کیا حکم دیئے ہیں کن چیزوں کی اِجازَت دی ہے تمہیں پتہ ہے اِس آیت کا مطلب کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کے اللہ نے ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی دی ہے ہمیں کبھی بھی اسکی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور مایوسی تو کفر ہے" . ریحانہ نے کہا " کیا ہو گیا ہے نسیما تم کیوں اتنی تکلیف میں رہتی ہو کیا پچھتاوا ہے تمہیں" نسیما نے کہا "پچھتاوا نہیں ہے بس دکھ ہے ہم کیوں دنیا کی رونکوں میں یہ بھول جاتے ہیں کے ہم نے اللہ کو جان دینی ہے کیوں کسی کا حق چھینتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کے حقوق العباد کی معافی نہیں ہے اللہ حقوق اللہ تو معاف كردےگا لیکن حقوق العبادنہیں ".

ریحانہ نے کہا " کتنی مشکل باتیں کر رہی ہو" نسیما نے اطمینان سے جواب دیا"ریحانہ میری بہن ایسی باتوں کے لیے اپنےدلودماغ کو کھولنا پڑھتا ہے"

" صُمٌّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لاَ یَرْجِعُونَ ". وہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں اس لئے واپس نہیں آتے" تم جانتی ہو اِس آیت میں ان لوگوں کو گونگا بہرہ اندھا کہا گیا ہے جو اصلیت سن کر بھی اس پر یقین نہیں کرتے اور ایسے ایکٹ کرتے ہیں جیسے انہوں نے سنا ہی نا ہو اور وہ دلی اور دماغی طور پر معذور ہیں انکے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے ". ریحانہ نے کہا "کیا اللہ نہیں چاہتا کے وہ دین کی طرف آئیں "نسیما نے کہا " اللہ اُنہیں بار بار موقع دیتا ہے جب تک ہم اِس دنیا میں ہیں وقت ہے لیکن جب ہم اِس دنیا سے چلے جائیں گے پِھر وہ ہو گا جو انصاف ہے ".

ریحانہ نے کہا "میں تم سے ایک ضروری بات کرنے آئی تھی آج شام کو یونیورسٹی میں پارٹی ہے تمام لڑکے لڑکیاں پارٹی میں آئیں گے تم بھی آنا "

نسیما نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا " تمہیں پتہ ہے اب میں ایسی پارٹیز میں نہیں جائونگی "ریحانہ نے کہا "میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں آج آ جانا تمہیں پتہ ہے میری اور کوئی دوست نہیں ہے نسیما نے کہا " تم اتنا کہہ رہی ہو تو میں کوشش کرونگی" ریحانہ نے کہا کہ" کوشش نہیں تم ضرور آؤگی اچھا اب میں چلتی ہوں" نسیما نے کہا " ٹھیک ہے لیکن گھر جا کر عصر کی نماز ضرور پڑھ لینا ".
شام کے چھ بجے نسیما تیار ہوئی اور یونیورسٹی کی پارٹی کے لیے گئی وہاں پہنچی تو دیکھاکے لڑکے لڑکیاں آپس میں باتیں کر رہے ہیں ہنس کھیل رہے ہیں لڑکیوں نے نازیبا لباس پہن رکھا ہے جس میں جسم نمایاں ہورہا ہے یہ دیکھ کر نسیما کو بے حد افسوس ہوا

ریحانہ بھاگتی ہوئی نسیما کے پاس آئی اور دیکھا کے نسیما حجاب میں آئی ہے ریحانہ نے کہا " نسیما یہ کیا کیسےتیار ہوكر آئی ہو دیکھو تو صححس تم تو نمونہ لگ رہی ہو".

نسیما نے غصے میں کہا "نمونہ میں نہیں نمونہ یہ سب لگ رہے ہیں دیکھو کہا ں نظر آرہا ہے کے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسٹوڈنٹ ہیں حیا پردہ علم کہا ں ہے علم والے ایسے ہوتے ہیں "ریحانہ نے کہا " اچھا چُپ ہوجاؤ سب سن لینگے آؤ میرے ساتھ وہاں میری کچھ دوستیں ہیں نسیما اور ریحانہ گئی ریحانہ کی کچھ دوستیں طنز کرتے ہوئے کہنے لگیں" لگتا ہے اسے کسی نے بتایا نہیں کے آج میلاد نہیں تھا پارٹی تھی دیکھو جاہل لگ رہی ہے".

نسیما غصے میں کہنے لگی " یہ علم ہے تمہاراجو تمہیں بےپردہ کرتا ہے اگر یہ علم بےپردہ کرتا ہے تو آگ ہے یہ علم جہالت ہے یہ تم اسے ماڈرن اور پڑھا لکھا دور کہتی ہو یہ پڑھا لکھا دورنہیں ہے جہالت کا دورہے ماڈرن تو ہمارا اسلام ہے جس نے عزت دی عورت کو جینے کا حق دیا پردہ دیا پروٹیکشن دی جہالت تو وہ تھی جب پردہ نہیں تھا عورتوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاتا تھا افسوس تم لوگ اس جہالت کے دورکو اپنے اس علم سے لے آئے ہو . غریب کی بیٹی کا دوبٹا پھٹا بھی ہوا ہو تو سر پر ہوتا ہے افسوس. ریحانہ میں جار ہی ہوں یہاں سے .مجھے ان جاہلوں کے ساتھ کوئی پارٹی انجوئے نہیں کرنی" .
نسیما روتے ہوئے گھر آئی اور اسکی ماں پروین نے اس سے پریشان ہوكر پوچھا "کیا وجہ ہے کیوں رو رہی ہو ?تم تو بہت خوش تھی جاتے ہوئے "نسیما نے روتے ہوئے سسکیاں لیتے ہوئے جواب دیا "امی جہالت کا دور واپس آگیا ہے. اسلام کو ایمان والے بھول گئے .اب صرف نام کے مسلمان ہیں .اسلام کو اپنے فیشنکے لیے چھوڑ دیا ہے. میں لڑ کر آگئ ہوں میرے حجاب کا مذاق اڑایا سب نے" .

پروین نے کہا " بیٹا لڑنے کی کیا ضرورت تھی "نسیما نے کہا "وہ رکھیں اپنی جہالت میں یہ سب برداشت نہیں کرونگی .میرے حجاب کا میرے ایمان کا مذاق نا اڑایا جائے . بے شک ہم ایمان لائے اور اسکی حفاظت کرنا بھی ہمارا فرض ہے ایسے لوگ جو علم حاصل کرکے اکڑتے ہیں بےپردہ ہوجاتے ہیں ایسے لوگوں کے اپر سے علم گزر چکا ہوتا ہے انکے پاس صرف دکھانے کے لیے ڈگریاں ہوتی ہیں". نسیما نے کہا " امی کیا ہم اِس معاشرے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے" پروین نے کہا " بیٹا اِس معاشرے کے لیے بہت مدرسے ہیں لیکن بدلائو تو اپنے اندر کو بدلنے سے ہوتا ہے جب تک انسان خود نہیں بدلنا چاھے گا اس وقت تک کچھ نہیں بدلے گا پہلے بھلائی کے لیے انسان کو خود تلاش کرنا پڑتا ہے اللہ تو شاہرگ سے بھی قریب ہے لیکن انسان اسے تلاش نہیں کرتا وہ کہتے ہیں نا تلاش کرے تو خدا بھی مل جاتا ہے"
"ہم سدا اس معاشرے کے لیےدعا کرتے ہیں"



 

Sumaira Majeed
About the Author: Sumaira Majeed Read More Articles by Sumaira Majeed: 7 Articles with 12479 views youngest pakistani poetry,article,story,digest,script writer
.. View More