ہم نے بھی امریکہ دریافت کیا

امریکہ میں ریہایش پزیر تارکین وطن جب کبھی سیر وسیاحت یا عزیز و اقارب سے ملنے وطن واپس لوٹتے ہیں تو انکا امریکہ کے بارے میں شیخیاں مارنے کا انداز کچھ اتنا عجیب ہوتا ہے کہ امریکہ جاکر حقیقت حال جاننے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔ حالات کا جبر ہمیں بھی انکل سام کے دیس لے گیا مگر دیکھنے والی نظر اور سوچنے والے ذہن میں فرق تھا لحاظہ امریکہ کو کسی اور زاویے سے دیکھا اورسمجھا ،آج قارین سے شئیر کرتی ہوں ۔۔۔۔۔

بچپن میں ایک لفظ بہت سنا " سامراج "........گھر کے بڑے اکثر اس لفظ کو تلخ مزاجی سے استعمال کرتے تھے کچھ سمجھدار ہوئے تو پتہ چلا کہ ایک عدد سامراجی ملک نے دنیا میں تباہی مچائی ہوئی ہے ہر طرف ہاہا کار ہے کہ "انکل سام کا راج " دنیا کے ہر سوشلسٹ ملک اورہر نیشنلسٹ لیڈر کی جان کے درپے ہے گھر میں روزنامہ " مساوات " اور "امن " پڑھا جاتا تھا سو ہم نے بھی ابتدائی تعلیم ان اخبارات سے ہی حاصل کی اسکول میں فرفراردو بولنےاور لکھنےکی شہرت بھی انہی سامراج کے خلاف لکھے ہوے کالمز اور فیض کی نظموں کی بدولت تھی اس سامراجی ملک کےکارنامے ثبوتوں کے ساتھ سامنے تھے،سام راج کے خلاف دل وکیل بنا اور خوب دلیلیں دے ڈالیں نتیجہ یہ کہ دماغ نے جج بن کر امریکہ کے خلاف فیصلہ سنا دیا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا جیسے اس ماں کے لعل کے ساتھ ہوتا ہے جو جوانی کی شروعات تو اس سلطاں راہی برانڈ بھڑک کے ساتھ کرتا ہے کہ ماموں اور پھوپھو کی بیٹیاں تو نری بہنیں ہیں میں تو مر کر بھی ان سے شادی نہ کروں مگر ایک دن قدرت آپکو اسی صوفےپر بیٹھا دیتی ہے جسپر جانی ماموں ، خانم ممانی یا چندا پھوپھو بیٹھے آپکی کلائی پر اپنی " نور چشمی " کے نام کی گھڑی پہناتے ہیں اورآپ بقائمی ہوش و حواس اپنی " یہ تو نری بہن ہے " کی انگلی میں انگوٹھی
سو اس سے ملتا جلتا حال اپنا بھی ہوا جو "سامراجی ملک " کے خلاف جلسہ و جلوس، انقلابی نظمیں ، کالم نویسی اور تحت الفظ کہتے کہتے سام کے راج میں چلے آ ئے
بزرگوں نے اسی کو "حالات کا جبر " کہا اور اس جبر کے آگے بڑے بڑوں کو ھتیار ڈالنے پڑے ، ہم کس کھیت کی مولی تھے. ہم نے بھی ھتیار ڈالے ، اپنی شکست تسلیم کی اور طاقت وروں مگر سام راجی امریکہ کو ہم نے ایسے "دریافت " کیا کہ جو نہ تو کولمبس کر سکا نہ ہی ہمارے اور آپکے وہ رشتے دار جو پاکستان میں رہنے والوں کو امریکہ کی کہانیاں سناتے رہے ہیں
امریکہ کے باسی یقینن سو فیصدی ویسے نہیں جیسی انکی حکومتوں کے کرتوت دنیا میں ظاہر ہوتے رہے ہیں ، ایسا کیوں ہے ؟ شاید اس لیے کہ امریکی عوام کے لیے پالیسیاں کہیں اور تیار ہوتی ہیں اور" انکل سام " دنیا کے دوسرے تمام ممالک میں بسنے والے عوام کے بارے میں پالیسیاں کسی اور ذہن سے بنآتےہیں
امریکی حکومتیں اپنے عوام کے لیے ایک "پاکیزہ جمہوریت " پسند کرتی ہیں جب کہ اپنے نام نہاد دوست ممالک کے لیے "آلودہ جمہوریت " بلکل جیسے پاکستانی اپنے ملک میں سگنل پر گاڑی روکنا اپنی مردانگی پر ضرب سمجھتے ہیں اور بیرون ملک پہنچتے ہی اتنے زیادہ قانون پسند ہوجاتے ہیں کہ لگتا ہے "بکری کے ویزے "پر سفر کرتے ہوے امریکہ پہنچے ہیں نہ ہارن دیتے ہیں نہ اورٹیک کرتے ہیں اور نہ لال بتی توڑ کر "شیر دے پتر " بننے کی کوشش کرتے ہیں
خیر بات ہورہی تھی اس منافقت کی جو امریکی حکومتیں اپنے اور غیر ممالک کے عوام سے برتتی ہیں. اس امتیازی سلوک کا بدنما چہرہ گو کہ ہمیں دور سے بہت واضح نظر آتا ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ امریکہ کی اپنی گلیوں ، بازاروں ، دفاتر اور حکومتی ایوانوں میں پھرتے ہوۓ ہمیں یہ منافقت اور امتیاز نظر نہ آ ئے
بظاہر تو قانون اقلیتوں کے ساتھ ہے مگر قانون نافذ کرنے والے خوب امتیاز برتتے ہیں کبھی کبھار بدنمائ سے مگر اکثر شعبدہ بازی سے
پاکستان میں جس "اقربا پروری اور سفارش " پر ہم صبح شام تبرے بھیجتے ہیں امریکہ میں اسکو اقرباپروری یا سفارش کے حقارت آمیز الفاظ سے نہیں پکارا جاتا بلکہ لوگ ان الفاظ کی جگہ دو خوبصورت الفاظ " کونٹکٹس یا نیٹ ورکنگ " استعمال کرتے ہیں ، نہ ان الفاظ پر اٹھتے بیٹھتے تنقید کرتے ہیں نہ کونٹکٹس استعمال کرتے شرماتے ہیں حالانکہ یہ نیٹ ورکنگ سفارش اور اقربا پروری سے کچھ بھی کم نہیں ہوتی
آپ اپنے تعلیمی ادارے سے جی پی اے چار بھی لے لیں مگر سفارش اور جان پہچان نہیں تو گھر میں بیٹھے مکھیاں ماریں یا پھر اسٹور میں بوریاں اٹھائیں لیکن اسٹور میں بوریاں اٹھانے کے لیے بھی اسٹور کے کسی ملازم کی "سلام دعا " چاہیے ہوتی ہے
امریکہ پلٹ پاکستانی اکثر یہ سچائی چھپا جاتے ہیں. پاکستان واپسی پر انکا "افسانہ " سیلف میڈ کے عنوان سے سارے خاندان میں پھرتا ہے جب کہ سیلف میڈ سے انکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بوریاں اٹھاتے اٹھاتے بیس ایک سال بعد مینجر بن گیا ہوں مگر اس دوران جو "سفارشیں " لگائیں اسکا ذکر وہ پاکستان پہنچتے ہی بریانی کے ساتھ کھا جاتے ہیں
جیسے ہمارے ہاں ہر چھٹی کا مطلب دیر سے اٹھنا ،پکوان کھانا اور انڈین موویز دیکھنا ہے چاہے چھٹی جنگ پینسٹھ میں انڈیا کے دانت کھٹے کرنے پر ہو یا بھارتی تسلط میں پھنسے کشمیریوں سے یکجہتی پر اسی طرح امریکہ میں ہر سرکاری چھٹی صرف "خریداری " کے حوالے سے ہوتی ہے
پریسیڈنٹ ڈے ہو یا لیبر ڈے ، تھینکس گیونگ ہو یا کرسمس یا پھر یوم آزادی ....ہر چھٹی پر خریداری کو اس طرح حاوی کر دیا گیا ہے کہ شروع میں تو ہم کو ڈر کر اپنی امریکہ میں مقیم بہنوں سے پوچھنا پڑا کہ اگر ہر قومی دن پر شاپنگ کرنا حکومت کی طرف سے" لازمی" ہے تو پھر یہاں ہماری زندگی کیسے گزرے گی ؟
ہمارے لیے تو سال میں اپنے لیے ایک بار جوتے خریدنا ہی سوہان روح ہوتا ہے
قصۂ مختصر انکل سام کے گھر کا ماحول کچھ ویسا ہی ہے کہ کھابوں کا شوق نہیں تو لاہور کیا کرنے آ ئے ہو ؟ اور خریداری کا پاگل پن سوار نہیں تو امریکہ کیا کرنے آ ئے ہو ؟
یھاں گورا پولیس مین اتنا ہی طاقتور ہے جتنا پاکستان میں "پنجابی فوجی "دونوں کو ہی سات خون معاف ہیں البتہ خون انکل سام کےگھر کالےاورخلائی مخلوق کے ہاں بلوچ کا ہونا چاہیے ورنہ سات کی شرط نہیں رہے گی
. بلاگ بھاری ہوتا جارہا ہے اس لیے کچھ ہلکا پھلکا ہوجاۓ
جی ہاں ! اگر آپ ایک وقت میں ہر رنگ کا امریکی ایک جگہ دیکھنا چاہتے ہیں تو نیویارک ایک بہترین شہر ہے .نیو یارک سٹی میں ہر وہ چیز موجود ہے جو کراچی میں موجود ہے مختلف زبانیں ،قسم قسم کی قومیں ، رنگ برنگے چہرے ، رواں دواں ٹریفک ، اونچی اونچی عمارات اور کچرا ....... ہاں نہیں ہے تو متحدہ قومی موومنٹ موجود نہیں
سنا ہے ایک وقت میں یہ پرُ رونق شہر بھی ایک قسم کی " متحدہ "کے چنگل میں پھنسا رہا تھا. ان دنوں نیو یارک ٹارگٹ کلرز، ڈرگ ڈیلرز، بھتہ خوراور قبضہ مافیا کا گڑھ تھا وہاں کونسی ترکیب نیو یارک کو " آزاد " کرنے میں کام آ ئی یہ تاریخ کا حصہ ہے مگر کراچی کو آزادی دلانے میں وہی ادارہ سر فہرست رہا جس نےتقریبا چالیس سال پہلے کراچی کو لسانی جرایم پیشہ کا غلام بنایا تھا
ہوسکتا ہے آپ " مذاقا '' پوچھیں کون سا ادارہ ؟ مگر اب اس ادارے کا نام لینا اس لیے بھی ضروری نہیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ تو کیا جو بچے پیدا نہیں ہوۓ وہ بھی جانتے ہیں کہ کونسا ادارہ
نیویارک سٹی کی بات ہورہی تھی جو کراچی کی طرح پرشور ہے اور مختلف آبادیاں مختلف انداز سےریھایش پزیر ہیں اسی لیے ہر علاقہ دوسرے علاقے سے مختلف دیکھائی دیتا ہے بالکل کراچی کی طرح
کہیں ٹریفک بہتر ہے تو کہیں بے ہنگم
کہیں کچرا ہے اور مخصو ص قسم کی مردانہ بدبو نے ماحول کو لاہور اورکراچی کے گنجان بازاروں کی طرح ناقابل برداشت بنایا ہوا ہے تو کہیں دلفریب مصوری کے شہکار سڑک کے دونوں جانب کی دیواروں کو خوشنما بنا رہے ہیں
سرکاری دفتروں میں بھی مختلف قوموں کے مختلف " ذ ا ئقے" موجود ہیں
گورا آپکا کام بااصول ، مہذب طریقے سے کرے گا اور شک بھی نہ ہونے دے گا کہ ہمارے براؤن رنگ کو دل ہی دل میں کیا کیا سنا رہا ہے ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ آپکو اچھے دن کی نیک تمنائیں تو دے گا مگر آپکے لیے بہتر ہے پیچھے پلٹ کر اسکی شکل مت دیکھیں ورنہ آپکو آپکی "اوقات " یاد آجاۓ گی
کالا !! جی یہ لفظ میں توہین کے لیے استعمال نہیں کر رہی بلکہ "کالا " خود کو بھی بلیک کہہ کر فخر کرتا ہے
کالا اپنے سابقہ آقا گورےکی نسبت امریکہ میں نووارد گولڈن براؤن تارکین وطن سےزیادہ تلخی برتتا ہے، کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ کالوں کو گورا نہیں براؤن غلام بنا کر لایا تھا مگر اچھی جان پہچان ہوجاۓ تو کالوں سے بڑھ کر کوئی گرم جوش اور محبت کرنے والا پردیس میں نہیں ملے گا .روزمرہ زندگی میں قانون پرعمل کرنے سے انکو کوئی خاص دلچسپی نہیں اکثر سگنل "واک "پر ہو تو کھڑے رہتے ہیں اور گرین ہوجاۓ تو چونک کرسڑک پار کرنے لگتے ہیں . فیشن خود ایجاد کرتے ہیں اور گورے کی نقل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ،خاص عادات میں ہر جملے میں پانچ گالیاں دینا شامل ہے
لیکن ظاہر ہے جیسے ساری قوموں میں اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح ہر قوم میں صرف بری ہی نہیں اچھی عادات بھی ہوتی ہیں
مجھے بھی امید ہے کہ اپنے کو بلیک کہنے والی اس نسل میں بھی بہت سی اچھی عادات ہونگی صرف دس پندرہ سال میں یہ عقدہ کھلنا کچھ مشکل ہے مگر قوی امید ہے کہ مزید بیس سال امریکہ میں گزا رنے پرانکی اچھی عادتیں سامنے
آ ہی جائیں گی فی الحال میرا تجربہ یہ ہے کہ اس رنگ و روپ ، چال ڈھال اور فیشن میں نیچے گرائی گئی پینٹس پرایسی "خود اعتمادی " صرف امریکہ کا کالا ہی دیکھا سکتا ہے اور ہمیں بھی ان سے یہ بلا کی خود اعتمادی سیکھنی چاہیے
دوران تعلیم ایک تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ ایک خاص عمر کے گورے مرد سب سے زیادہ خودکشی کرتے ہیں جبکہ کالے مرد سب سے زیادہ قتل کردیےجاتے ہیں
تحقیق پر اس قدر عرق ریزی نہ بھی ہوتی تب بھی یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان تھا کیونکہ گورا بہرصورت اب یہ جان گیا ہے کہ کس کو " غلام " بنا کر لایا تھا اور اس "غلام " نے کیا چَن چڑھایا ہے اسکے بعد حل یہی نکلتا ہے کہ یا تو گورا خود پنکھے سے لٹک جاۓ یا پھر کالے کو دوسرے جہاں پہنچا دے
پوسٹ آفس ہو یا ڈاکٹر آفس ، بینک ہوں یا ریسٹورانٹ کوئی شاپنگ مال ہو یا پھر میوزیم کا ٹکٹ بوتھ ہر جگہ آپکو لائین میں انتظار فرمانا ہے ریسپشن پر بیٹھی خاتون کی مرضی ہے وہ آپکو کب بلاۓ اور حیرت انگیز ہے کہ لوگ انتظار کرتے ہوے ہم پاکستانیوں کی طرح نہ بڑبڑاتے ہیں نہ کسی دیر سویر پر ہنگامہ آرائی کرتے ہیں حالنکہ امریکی سے زیادہ مصروف اور پاکستانی سے زیادہ "ویلا" بندہ شاید ہی آپکو دنیا میں ملے
اسی طرح کسی دیسی فنکشن میں جائیں تو ہمارے وہ احباب و خواتین جو اپنے ملک میں تو کھانے پر ٹوٹنا فرض سمجھتے ہیں ہاتھوں میں پلیٹیں تھامے بڑی معصومیت سے لائین میں کھڑے ہوتے ہیں خیر اپنا نمبر آنے پر کھانے سے انکا سلوک کچھ زیادہ مختلف نہیں ہو پایا مدتوں سے امریکہ میں ریھایش پزیر ہیں مگر "بوٹیوں " میں کمی کوتاہی آج بھی " عذاب الہی" تصور کی جاتی ہے
کھانا تو کالے اور گورے بھی ڈٹ کر کھاتے ہیں اور اگر مفت ہاتھ آ ئے تو انکا " ڈٹنا " ناقابل بیان ہے . آپ کسی میلے ٹھیلے میں اگر ایک اسٹال پر دنیا بھرکا ہجوم پائیں تو سمجھ جائیں کچھ " مفت " بٹ رہا ہے اور امریکی مفتا چھوڑنے میں کسی طور راضی نہیں ہوتا گوشت خوری میں مسلمانوں سے دو ہاتھ آگے ہیں مگر کام چوری میں دو ہاتھ پیچھے اور اسکی بڑی وجہ شاید " دیہاڑی" سے کمانا ہے
انسانی حقوق سے زیادہ جانوروں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے شاید اس لیے کہ جانور اپنے حقوق کے لیے خود آواز نہیں اٹھا تا اور یقینن اسکی یہی ادا گورے سامراجی کو بھا گئی ہے
جاتے جاتے قارئین کو یہ تسلی کروائی جاتی ہے کہ آپکا مصنف کے تجزیوں سے متفق ہونا ہرگزلازمی نہیں بہتر ہوگا کہ امریکہ آنے سے پہلے کسی "سینئیر تجزیہ کار " سے تجزیہ کروا لیں مزید یہ کہ بلاگ میں بیان کیے گیے حالات پورے امریکہ میں رائج نہیں ہیں. ریاستہاۓ متحدہ امریکہ کا طول وعرض اتنا زیادہ ہے کہ ایسٹ کوسٹ اور ویسٹ کوسٹ میں موجود ریاستیں دو مختلف ممالک کی طرح ہیں بلکہ مشرق و مغرب کی ریاستوں کے درمیان جو ریاستیں موجود ہیں وہ ایک تیسرا ملک بنا رہی ہیں
اس بلاگ میں ہم نے صرف "ایک ملک " کا ذکر کیا ہے باقی دو ممالک انشاللہ اگلی بار سہی فی الحال واپسی کا سفر درپیش ہے اور آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے

 

aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 69005 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More