ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ: مغربی تہذیب تھوپنے کی سازش


موجودہ حکومتی موقف کے مطابق منظور کردہ ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ ، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے پاس کیا گیا ہے جس سے ان کے خلاف ہونے والے امتیازی سلوک اور ہراسانی کے واقعات کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ ایکٹ 2018 ء پاکستان میں انفرادی طور پر لوگوں کو مرد، عورت یا دونوں جنسوں کے امتزاج کو تمام سرکاری دستاویزات پر ان کی شناخت باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہونے کا حق دیتی ہے۔ان کی یہ شناخت پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور تمام تعلیمی اسناد میں لکھی جا سکے گی۔اگرچہ یہ ایکٹ مئی 2018 میں ملکی پارلیمان میں منظور کیا گیا تھا ۔ملکی وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اس قانون کو پاس کرنے کا بنیادی مقصد ٹرانس جینڈر کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور انہیں تعلیم ، وراثت، صحت اور ملازمت کے برابر ذرائع فراہم کرنا بھی۔انہوں نے کہا، ''اس قانون کو تمام سیاسی پارٹیوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے 2009 ء میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ ملک میں ٹرانس جینڈر افراد خود کو تیسری جنس کے طور پر رجسٹر کروا سکتے ہیں۔ پاکستان کی 2017 ء کی قومی مردم شماری کے مطابق ملک میں ایسے افراد کی تعداد تقریباً 10,000 ہے لیکن ان کے حقوق کے پاسدار گروہوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ملک کی کل 220 ملین آبادی میں یہ تعداد 300,000 سے زیادہ ہے۔ا سلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ نئے معاشرتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے کہ قانون کی متعدد شقیں شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں، حکومت قانون کے جائزہ کیلئے ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس میں تحریک انصاف کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق ترمیمی بل 2022ء پیش کردیا تھا جسے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ترمیمی بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی 3 شقیں زیر بحث ہیں، بل پر سیاست کرنے کے بجائے رہنمائی کی جائے۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ اس معاملے پر خلاف شریعت کوئی کام نہیں ہوگا۔اگرچہ پاکستان میں کچھ ٹرانس جینڈرز کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن اب بھی اس کمیونٹی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ملک میں زیاد تر خواجہ سرا اب بھی بھیک مانگنے، مختلف محفلوں میں رقص کرنے یا بطور سیکس ورکرز کام کرنے پر مجبور ہیں۔جبکہ ا یوان بالا (سینیٹ) میں پاکستان تحریک انصاف کی سینیٹر فوزیہ ارشد نے خواجہ سراؤں کے تحفظ سے متعلق ترمیمی بل 2022ء پیش کردیا۔جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے نقطہ اعتراض پر بل میں ان کی ترامیم پر غور کرنے کا مطالبہ کردیا، انہوں نے کہا کہ تمام علماء متفق ہیں یہ بل خلاف اسلام ہے۔پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا وہ اﷲ سے معافی مانگتے ہیں کہ جب یہ بل پاس ہوا تو وہ ایوان میں موجود تھے۔ٹرانس جینڈر دراصل وہ افراد ہوتے ہیں جو بنیادی یا پیدائشی طور پر تو خواجہ سرا نہیں ہوتے بلکہ مکمل مرد یا مکمل عورت کے روپ میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہارمونز کی کمی بیشی اور نفسیاتی عوارض کے باعث بعد ازاں اپنی مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسا فرد جس نے اپنی جنس کو ٹرانسفر کرلیا ہو۔ ایسے افراد جنس کی تبدیلی کیلئے آپریشن کروا کر مخالف جنس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام میں اپنی مرضی سے جنس اختیار کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ یہ اختیار قادر مطلق کے پاس ہے کہ وہ کسی کو مرد پیدا کرے یا عورت۔ مگر یہاں یہ اختیار افراد کو منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جبکہ ہمارے ہاں ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کو بھی لوگ خواجہ سراؤں میں ہی شمار کرتے ہیں، یہ غلط ہے۔ مذکورہ بل میں اگر چہ خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات ہوئی ہے لیکن پس پردہ مغربی تہذیب کو پاکستانی معاشرے میں نفاذ کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2018 ء سے اب تک 28 ہزار افراد نے اپنی جنس تبدیل کرنے کی درخواست جمع کی ہے ( وہ بھی بغیر میڈیکل ٹیسٹ اور تشخیص کے ). اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قانون ہمارے معاشرے کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوگا۔ چنانچہ وطن عزیز میں ٹرانس جینڈر کا جو قانون منظور کیا جارہا ہے اس کی مذمت کرنا اس کو شرمناک قرار دینا یہ سب بہت چھوٹی بات ہیں یہ انتہا ہے اور انتہا بھی ایسی کہ فطرت سے ٹکرانے کی کوشش کی جا چکی ہے یہ عذاب الہی کو دعوت دینے کا اہتمام کر دیا گیا ہے اب ہمیں تیار رہنا چاہئے کہ جب قوم پر پتھروں کی بارش ہوگی ۔ سوال یہ ہے کہ آیا اس قانون کے سماج پر کیا اثرات ہونگے؟ متنازعہ قانون پاس ہونے کے بعد کوئی بھی مرد یا عورت اپنی خواہش پر نادرا کے دفتر جاکر اپنی جنس تبدیل کراسکے گا۔ یعنی لڑکی اپنا حلیہ لڑکوں والا بنا کر نادرا آفس میں کہے کہ میں نے اپنی جنس تبدیل کرانی ہے لہذا آپ میرا نام خالدہ بی بی کی بجائے خالد خان لکھ دیں اور جنس کے خانے میں لڑکی کی بجائے لڑکا لکھ دیں تو اس قانون کے مطابق نادرا والے ایسا کرنے کے پابند ہونگے۔ تو یہ قرآن میں اﷲ کے مقرر کردہ قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ہم جنس پرستی کے فروغ میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا جو اﷲ و رسول کی تعلیمات کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت اگر کوئی فرد کسی بھی انسان، جانور یا فحش کھلونوں سے تعلق قائم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ قانون اسے تحفظ فراہم کرے گا۔ حالانکہ اسلام ایسے کسی بھی تعلق کو بالکل حرام قرار دیتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مذہبی حلقوں اور عوام نے اس بل کے خلاف الارمنگ جاری کر دی ہے پر امید ہیں کہ بہت جلد اس بے ہودہ ایجنڈے کی تنسیخ ہو جائے گی یا کم از کم اس کو صرف خواجہ سرا کی حد تک محدود رکھا جائے گا۔ یاد رکھیے اس قانون کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے عظیم گناہ کو پاکستان جیسی مسلمان ریاست میں جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ اور سب ہی پاکستانی یا تو لاعلمی کی وجہ سے خاموش ہیں یا پھر جبراً خاموش کروا دیے گئے ہیں۔ ان ہم جنس پرستوں کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ جس طرح چاہیں یہ اپنے من پسند گناہ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔






 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 114655 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.