قبر کی کھڑکی

 آج کام سے واپسی پر خاصی دیر ہوگئی تھی- اوپر سے تیز بارش اور ہوا کی وجہ سے ڈرائیو کرنا محال ہو رہا تھا- اوقات کار تو بے شک شام چھ بجے تک ہی تھے مگر وہ اکثر اوور ٹائم کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جاتا- تنخواہ خرچوں کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے برابر لگتی- جانے اب کہاں اور کیسے ہاتھ پاؤں مارے- وہ سوچوں میں گم ڈرائیو کر رہا کہ اچانک احساس ہوا جیسے غلط راستے کی جانب نکل پڑا ہے- گھر کا راستہ تو قدرے بارونق تھا مگر اس سڑک پر دور دور تک سناٹا ہی سناٹا تھا- اس نے گاڑی کی رفتار ہلکی کی اور ادھر اُدھر نظر دوڑائی تاکہ اندازہ ہو سکے کہ کس طرف نکل آیا تھا- عجیب بات تھی دور دور تک کسی کا نام و نشان تک نہ تھا- نہ کوئی آمدو رفت، نہ کوئی گھر نہ مکان! اچانک اس کی نظر ایک چھوٹی سی کٹیا پر پڑی- گاڑی کی لائٹ پڑنے سے اس اندھیری کٹیا کی کھڑکی ہلکی سی جگمگا اٹھی تھی- ایسا لگا جیسے اس جھونپڑی کے پرانے بوسیدہ پردوں سے کوئی جھانک رہا ہو- اس نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور اس جھونپڑی کی طرف بڑھ گیا- دروازہ کافی ٹوٹا پھوٹا تھا تو شاید بند نہ ہوتا ہو- اس نے ہلکی سی دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا- اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی مگر جواب ندارد- ''میں غلطی سے اس طرف نکل آیا ہوں, کیا آپ مجھے راستہ بتا سکتے ہیں؟'' پھر سے ٹوٹے ہوئے دروازے پر دستک دی مگر وہی خاموشی- کچھ دیر انتظار کے بعد اندر جھانکا مگر اندر صرف اندھیرا تھا- تذبذب کے عالم میں دو قدم اندر بڑھادیئے--‘‘تم اتنی جلدی یہاں کیسے آگئے؟‘‘ اندھیرے میں کسی کی سرگوشی سنائی دی تو وہ ایک دم اچھل پڑا-‘‘کک کون؟-‘‘‘‘میں, تمہاری قبر! مگر ابھی تو تمہارا وقت نہیں آیا تو یہاں کیسے؟ جاؤ ابھی کچھ وقت باقی ہے-‘‘ کک کیا--- یہ کیا بکواس ہے؟‘‘ وہ گھبرا کر واپس پلٹا اور تیزی سے گاڑی سٹارٹ کی- جیسے وہ جانتا ہو کہ کس راستے پر جانا ہے-‘‘پاپا سکول کے پروجیکٹ کے لیے فنڈ جمع کروانا ہے-‘‘ بجلی کا بل اس بار بھی پچیس پزار آگیا ہے-‘‘‘‘-ابا کی دوائیاں ختم ہو گئی ہیں’’آوازیں جیسے کانوں پر ہتھوڑے برسا رہی تھیں- ایک مڈل کلاس آدمی کیسے عزت بچاتا پھرتا ہے- اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے بجلی چمکی- پریشانیوں میں گھرا وہ خیالوں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ سامنے سے آتی گاڑی نظر نہ آسکی- مگر کمال مہارت سے سامنے والے نے گاڑی کو دوسری طرف گھما دیا- اس کی گاڑی کو ہلکی سی ٹکر لگی اور وہ سڑک کے ایک طرف جا نکلی- سامنے والی گاڑی سڑک کے دوسری جانب جا ٹکرائی- خوش قسمتی سے اسے کوئی خاص چوٹ نہیں لگی- وہ تیزی سے اتر کر دوسری گاڑی کی طرف بڑھا- ڈرائیور ذخمی حالت میں بے ہوش پڑا تھا اور اس کا موبائل روشن تھا- ٹوٹے ہوئے شیشے سے گاڑی کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ موبائل کی دوسری جانب کوئی مخاطب تھا-‘‘یہ شور کیسا تھا تم ٹھیک تو ہو- مال آج ہی پہنچانا ہے، دیکھو کوئی گڑبر نہ ہو جائے- ہیلو- جواب کیوں نہیں دیتے؟ ہیلو، ہیلو ڈھائی کروڑ تمہاری ذمہ داری ہے، تمہیں معلوم ہے ناں؟‘‘ اس کا ہاتھ موبائل تک جاتے جاتے رک گیا- وہ خاموشی سے ایک طرف رکھے بیگ کو دیکھنے لگا- اس کی زپ کھولتے ہی اس کی آنکھیں چندھیا گئیں- اس نے بیگ اٹھایا اور فوراً اپنی گاڑی میں آبیٹھا- بجلی کا بل، بچوں کے سکول کے فنڈز، مکان کے لیے لیا ہوا قرض، ابا کی کڈنی ٹرانسپلانٹ--- اماں ابا کی حج کی خواہش--- ایک عام آدمی نہ بے ایمان ہے نہ ہی دھوکے باز, بس حالات سے مجبور ہے- ملک تو آزاد ہے مگر حالات اسے پنجوں میں جکڑے پنجرے میں غلام بنائے ہوئے ہیں، وہ بھی کیا کرے- گھر پہنچ کر وہ اپنے کنبے کے تمام اخراجات پلک جھپکنے میں پورے کرنا چاہتا تھا- اس کے ہاتھ میں جتنی رقم سما سکتی تھی تھدیوں کی صورت الماری کے پچھلے حصے میں چھپا دی- رات کاٹنا محال ہوگیا- سفید پوش کی یہی خرابی ہے کہ وہ خود حالات کا شکار ہو کر ابدی نیند سو جاتا ہے مگر زندگی بھر اس کا ضمیر نہیں سوتا- ملک آزاد ہے مگر ضمیر سے آذادی، کیسے؟ سب کے سوتے ہی اس نے بیگ اٹھایا اور فوراً اسی جگہ واپس پہنچا- ڈرائیور اب تک ذخمی پڑا تھا- موبائل مسلسل بج رہا تھا- اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل آف کیا اور 1122 پر ایمبولینس کو کال کی اور 1915 پر ٹریفک پولیس کو اطلاع دی- عجیب بات تھی کہ پولیس کی وین چند منٹوں میں پہنچ گئی- جبکہ ایمبولینس کا کوئی نام و نشان نہ تھا- صرف دو ہی اہلکار تھے جو تیزی سے اس کی طرف بڑھے-‘‘یہ تو مرچکا سر!‘‘‘‘کیا نہیں، مگر ابھی تو وہ سانس لے رہا تھا-‘‘ وہ بوکھلا گیا-‘‘اس کے ساتھ کوئی سامان بھی تھا؟ رپورٹ درج کرنی ہوگی چلو ہمارے ساتھ-‘‘ سامان تو اس کے ہاتھ میں ہی تھا- ان کے ساتھ چلتے چلتے وہ تفصیلاً بتانے لگا اور وہ دونوں سر ہلاتے رہے- حیرت انگیز طور پر وہ پولیس اہلکار اسے اسی جھونپڑی کے سامنے لے آئے جہاں وہ راستہ بھول کر آگیا تھا-‘‘ تو تم نے فون پر کیا کیا باتیں سنیں؟‘‘ جی بس یہی جو میں نے آپ کو بتایا- مگر ہم یہاں کیا کر رہے ہیں، پولیس سٹیشن کیوں نہیں جا رہے؟‘‘‘‘کسی اور سے اس کا ذکر کیا؟‘‘‘‘نہیں جی بس پولیس کو ہی کال کی تھی اور ایمبولینس کو بھی-‘‘‘‘ہمم--- نشے میں دھت ایک کار ڈرائیور نے معصوم شہری کو کچل ڈالا- اور وہ شرابی ڈرائیور ڈرگ سمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا مگر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھاگنے کی کوشش میں پولیس کی گولی سے جاں بحق ہو گیا- لکھ لیا؟‘‘‘‘جی سر!‘‘ تین فائر ہوئے، ایک ٹانگ پر ایک بازو پر اور ایک سیدھا دل کے قریب- ایک سفید پوش ضمیر کا غلام ہونے کی وجہ سے آزاد ملک کی بے لگام آزادی کی نذر ہو گیا- وہ مٹی کہہ رہی تھی- کہا تھا ناں تمہاری قبر، سوئے ہوئے معاشرے میں جاگا ہوا ضمیر لیے یہاں تم جیسے اور بھی اپنی ایمانداری کی بھینٹ چڑھ چکے- وہ جھونپڑی اس کی قبر ہی تھی بس اس قبر میں ایک کھڑکی تھی جو آنے جانے والوں کو وقت سے پہلے اپنا مقام دکھا دیتی- ایسا لگا جیسے اس جھونپڑی کی مٹی کو بنانے کے لیے پانی نہیں بلکہ اس جیسوں کا خون ملایا گیا تھا-

Attiya Rubbani
About the Author: Attiya Rubbani Read More Articles by Attiya Rubbani: 20 Articles with 14953 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.