نوجوان نے خودکشی کے لیے راوی میں چھلانگ لگا دی پھر۔۔ لوگوں کو خودکشی سے روکنے کی ڈیوٹی پر مامور غوطہ خور کے انکشافات

image
 
ہر انسان کسی نہ کسی پیشے سے وابستہ ہوتا ہے جس طرح اس دنیا میں ایک مزدور کا ہونا ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے گھر بنا سکے، ایک کسان کا ہونا ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے کھانے کے لیے فصل اگا سکے اسی طرح ایک پیشہ غوطہ خوری کا بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں-
 
 
عام طور پر لوگ تیراکی اور غوطہ خوری کو تفریح طبع کے لیے اپناتے ہیں مگر آج ہم آپ کو دریائے راوی کے کنارے موجود ایک ایسے بزرگ انسان کے بارے میں بتائیں گے جو کہ غوطہ خوری کے پیشے سے تفریح طبع کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے وابستہ ہے-
 
ان کا کہنا ہے کہ وہ اب تک دریائے راوی سے 2000 کے قریب لاشیں اور لگ بھگ ساڑھے آٹھ سو افراد کو زندہ نکال چکے ہیں۔ حکومت پنجاب میں باقاعدہ طور پر غوطہ خور کے طور پر ملازمت کرنے والے ان صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ دریائے راوی کے کنارے روزانہ ڈيوٹی دیتے ہیں- اس میں ان کے ذمے یہ بھی کام ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں کہ کوئی خودکشی کی نیت سے راوی میں چھلانگ نہ لگا دے اور اگر کوئی ایسا کر دیتا ہے تو وہ فوری طور پر غوطہ لگا کر اس کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں-
 
کام کی ابتدا کیسے کی؟
ان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے والد راوی کے کنارے کشتی چلاتے تھے اور انہوں نے ہی ان کی غوطہ خوری کی تربیت بچپن ہی میں کر دی تھی- والد کے انتقال کے بعد انہوں نے ان کی گدی سنبھال لی اور اسی کام کو بطور پیشہ اپنا لیا- ان کا کہنا تھا کہ ان کی عمر اس وقت 63 سال ہے اور تیرہ چودہ سال انہوں نے اس کام کی تربیت حاصل کی اس کے بعد سے اب تک ان کو یہ کام کرتے ہوئے چالیس سال ہو گئے ہیں-
 
image
 
ان کو اطلاع کیسے دی جاتی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کا کوئی عزیز رشتے دار پانی میں ڈوب جاتا ہے تو لوگ ان سے غوطہ لگانے کے لیے رابطہ کرتے ہیں ایسے افراد کو وہ اپنے سوشل سروسز کے ڈی سی او کی اجازت سے مدد کرتے ہیں-
 
ان کا دعویٰ ہے کہ آج تک وہ کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوئے اور جس کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے وہ پانی میں سے اس کو تلاش کر کے زندہ یا مردہ ضرور نکال کر لائے ہیں۔ تاہم اس کام کا وہ کسی فرد سے کوئی معاوضہ وصول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے لیے ان کو ان کے دفتر سے ملنے والی تنخواہ ہی کافی ہے-
 
سیلاب زدگان کی مدد
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے سیلاب کے نتیجے میں بہہ کر آنے والے کئی افراد کی جانیں بچائيں یہاں تک کہ سیلاب کے زمانے میں بھارت سے بہہ کر آنے والے سکھوں میں سے کئی کو انہوں نے زندہ بچایا اور کچھ کی لاشیں بھی نکالیں- وہ یہ سارا کام فی سبیل اللہ کرتے ہیں کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ پیسہ عارضی چیز ہے جب کہ اس کے بدلے میں ملنے والی دعائیں ان کی زندگی اور دین دنیا دونوں کو کامیاب بنا سکتی ہیں-
 
اپنی زندگی کے یادگار واقعات
اپنی چالیس‎ سالہ زندگی کے یادگار واقعات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک دن انہوں نے ایک نوجوان کو پانی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کرتے دیکھا۔ جس کو دیکھتے ہی وہ اس کو بچانے کے لیے دوڑے اور انہوں نے غوطہ لگا کر اس کو بچانے کی بہت کوشش کی-
 
مگر وہ نوجوان چھلانگ لگانے کے بعد ایک بار بھی اوپر نہیں آیا انہوں نے پانی کے اندر اس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد مایوس ہو کر باہر آگئے- تین دنوں کے بعد اس نوجوان کی لاش ہیڈ بلوکی کے مقام سے ملی-
 
image
 
ان کا کہنا تھا کہ جب اس کڑیل جوان کی لاش انہوں نے نکالی تو آنسو ان کی آنکھوں سے رواں تھے ان کو اس بات کا شدید دکھ تھا کہ وہ اس نوجوان کو بچا نہ سکے-
 
اسی طرح ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کو اطلاع ملی کہ بکر منڈی کے نالے میں ایک آدمی نے اپنی عورت کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے نالے میں پھینک دیا ہے-
 
اس کی لاش کی تلاش بھی ان کی زندگی کا یادگار واقعہ ہے ان کا کہنا تھا کہ نالے کے اندر ہر طرف کانچ پھیلے تھے اور اس کی مٹی دلدلی تھی مگر اس کے باوجود انہوں نے بہت کوشش کے بعد اس عورت کا صرف سر نکالا باقی جسم ان کو نہیں مل سکا مگر وہ اس واقعے کو نہیں بھول سکتے-
 
حکومت سے اپیل
اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب کی نوجوان نسل اس پیشے کو اپنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ اس وجہ سے ان کی حکومت وقت سے ہی درخواست ہے کہ ان کی ان خدمات کے سبب ان کے بچوں کو کسی سرکاری محکمے میں ملازمت فراہم کی جائے کیوں کہ اب وہ ریٹائر ہونے والے ہیں اور ان کو زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے-
 
امید ہے سرکار ان کی ان خدمات کے عوض جس کے سبب وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کو بچاتے ہیں کوئی نہ کوئی انعام سے ضرور نوازہ جائے گا-
YOU MAY ALSO LIKE: