جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو
ساری دنیا کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ کہ اللہ نے ہمارا محافظ
پیدا کر دیا ۔ ان کا سینہ فخر سے تن گیا تھا۔ خصوصاً بھارت کے مسلمانوں نے
تو بجا طو پر آس لگائی تھی کہ پاکستان کے قیام سے ان کو یقینی تحفظ میسر آ
جائے گا۔
1965ءکی جنگ شروع ہوئی تو پاکستانی قوم کا جذبہ جہاد دیدنی تھا ۔گویا
باندھے ہوئے شیر کھول دیئے گئے ہیں۔ اور خصوصاً لاہوریوں کا جذبہ جنوں تو
بپھرے ہوئے دریا کو شرما رہا تھا۔ کہ امڈا پڑتا تھا ۔ان کے جذبہ شوق کو
دیکھ کر مردے بھی کفن پھاڑ رہے تھے ۔ 6ستمبر کی صبح بھارتی توپوں کے گولے
واہگہ روڑ سے سیدھے بادامی باغ کی طرف آ رہے تھے۔ اور شوق شہادت سے سرشار
لاہوری پٹھے ”سڑکو سڑک“ اڑے چلے جا رہے تھے ۔ جیسے برسات کے بعد پروانے (کسی
رخنے سے ) بے تحاشہ نکل پڑے ہوں۔ لاوڈ سپیکروں پر اعلانات ہوتے رہے ۔”بھائیوں
سڑک چھوڑ دو۔ توپوں کے گولے آ رہے ہیں“ لیکن کون سنتا یہاں تو نہ ڈر کو
کوئی جانتا تھا اور نہ خود خوف کو قریب پھٹکنے کی جرا ت تھی۔ بعد میں جب
فضائی معرکے شروع ہوئے تو لوگ چھتوں پر چڑھ جاتے اور پتنگ بازی کے مزے
لوٹتے اور جب ہمارے سیبرطیارے کسی بھارتی کینبرا یا نیٹ کومار گراتے تو بو
کاٹا کے ساتھ اللہ اکبر کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی تھی ۔
جنگ کے دوران لوگوں نے من پسند کھانوں کی دیگیں پکا پکا کر اگلے مورچوں تک
پہنچائیں ۔ اسلحہ گولہ بارود اور فوجی ضروریات کے دوسرے سامان کو لادنے
اتارنے کے لیے نوجوانوں کی رضاکارانہ خدمات دن رات میسر تھیں ۔زخمیوں کے
لیے خون دینے والوں کی لمبی قطاریں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ بھیڑ لگی
رہتی تھی ۔ جہاد فنڈ ”ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک “ کی ریل پیل تھی۔ عورتوں نے
اپنے زیورات دفاعی فنڈ میں دے دیئے ۔ بہنیں گھروں میں فوجی بھائیوں کے لیے
تحفوں کے پیکٹ تیار کرتیں اور یہ تحفے گرم مورچوں تک پہنچائے جاتے ۔جنگ ختم
ہو گئی لیکن قوم کو جذبہ اخوت سے مالا مال کر گئی۔ قوم کی روح کو جذبہ جہاد
سے سرشار کر گئی۔
ہم فوجی وردی میں بازار چلے جاتے تو بوڑھے ،جوان اور بچے بچھ بچھ جاتے ۔ وہ
والہانہ محبت اور پیار آج بھی یاد آتا ہے تو بدن میں روح رقص کرنے لگتی ہے۔
مہینوں بعد تک دوکاندار بازار میں فوجیوں سے پھل فروٹ تو معمولی بات تھی ۔
کسی بھی چیز کی قیمت تک نہ لیتے ۔بلکہ تحفہ کے طور پر اصرارکر کے خود محبت
سے پیش کرتے تھے۔
یہ بھی لاہورہی کی بات ہے ۔ وہ چھوٹا سا بچہ اپنے ابا کے ساتھ سڑک کے کنارے
کھڑا تھا ۔ دونوں ہاتھوں سے تحفے کا پیکٹ سینے سے چمٹا رکھا تھا ۔ ان کے
پاس سے ہم گزرنے لگے۔ تو اس کے ابا نے ہمیں اشارہ کیا کہ آپ یہ پیکٹ اس سے
لے لیں ۔میں نے مروت میں یونہی انکار کر دیا۔ تو اس نے کہا ” یہ روئے گا ۔
سارا دن روئے گا۔آپ یہ لے لیں“وہ ننھا فرشتہ ۔ وہ دنیا کا سب سے خوبصورت
پھول سا بچہ میری نظروں کے سامنے بار بار آن کھڑا ہوتا ہے۔ اس کی چمکتی
آنکھوں میں امیدوں کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ اور وہ مجھے پیار سے دیکھ رہا
ہوتا ہے۔
جب سردیوں میں جنگی مشقوں کے لیے جانے والی ہماری فوجی گاڑیاں سڑکوں سے
گزرا کرتیں ۔ تولوگ اپنے چھوٹے بچوں کو لئے سڑک کے کنارے کھڑے ہو جایا
کرتے۔ اور گزرتی گاڑیوں کا والہانہ خوشی کے ساتھ نظارہ کیا کرتے ۔ اپنے
فوجی بھائیوں کو دیکھتے اور فضا میں ہاتھ لہرا لہرا کر سلام کرتے ۔اور ہم
بھی خوش ہو کر اسی جذبے سے جواب دیا کرتے تھے۔
1965ءکی جنگ کے بعد پاکستانی قوم کی تصویر ایک بہادر قوم کی صورت میں ابھر
کر دنیا کے سامنے آئی ۔اس سے پہلے جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا تعارف دنیا
میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ برطانیہ تک کے لوگ لاہور کو بھارت کا شہر سمجھتے
تھے۔
1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے دوران ہوائی حملوں کے خدشات کے پیش نظر مدینہ
منورہ میں بلیک آوٹ کیا گیا۔ تو مسجد نبوی کا خادم چیخ پڑا ”خبردار روضہ
رسول کی بتیاں مت بجھاؤ ۔پاکستانی فوج کے ہوتے ہوئے دنیا میں کسی کو جرات
ہو ہی نہیں سکتی ۔کہ وہ روضہ رسول کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھ بھی سکے “۔
اوہ !آج یہ منظر کیوں بدل گیا ؟ بچے کی آنکھوں میں مایوسی کے سائے منڈلا
رہے ہیں۔ وہ بڑ بڑا رہا ہے۔ ”میں کشمیری یتیم ہوں۔ میرا باپ عقوبت خانے میں
شہید کر دیا گیا۔ میری بہنوں کو بھارتی فوجی اٹھا کر لے گئے ۔ میرا دادا آپ
کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ وہ بھی چلا گیا۔آپ ہمیں بھول گئے ۔آپ خود
کسی کے غلام بن گئے ۔ کوئی غلام کسی کو بھلا کیسے آزاد کروائے گا؟
“۔۔۔۔۔۔۔اور آج میں خود رو رہا ہوں ۔ |