بے چارے عوام !پاکستان کے عوام
انتہائی صابر وشاکر ہیں ۔غیر جانبداری کے ساتھ مشاہدہ کیاجائے تو اس نتیجے
پر پہنچنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی کہ پاکستانی قوم انتہا درجے کی صابر
قوم ہے ۔اورصرف صابر ہی نہیں بلکہ شاکر بھی ہے۔ان کاصبر اس حد کوچھورہاہے
کہ جس سے آگے بڑھنے والاصابر نہیں کہلاتابلکہ اُسے کچھ
اورکہاجاسکتاہے۔حکومت سے لے کر عام دکاندار تک ،سیاست دانوں سے لے کر
بیوروکریسی تک ،جنرلوں سے لے کر پولیس کے سپاہی تک ۔سب کے سب دامے درمے
سخنے اس قوم کااستحصال کررہے ہیں اوریہ قوم صبر کاپیکر بنی اپنااستحصال
کروارہی ہے ۔صرف استحصال ہی نہیں کروارہی بلکہ اس پر شاکر بھی ہے۔مثال کے
طور پر حکومت نئے ٹیکس لگاتی ہے توساتھ ہی کہاجاتاہے کہ اس کابوجھ غریب
آدمی پر نہیںپڑے گا۔مگر ٹیکس جس پر بھی لاگوہوچاہے وہ صنعتکار ہویاتاجر، اس
اضافی ٹیکس کی رقم کابوجھ بالآخر غریب صارف پر ہی جاپڑتا ہے ۔اورہم عوام
بادل ناخواستہ لاگوہونے والے اضافی ٹیکس کی رقم اداکرنے پر مجبورہوتے
ہیں۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ کوہی لے لیجئے ۔اس کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں ،احتجاج
ہورہے ہیں، ٹائر جلائے جارہے ہیں ،سڑکیں بلاک ہیں ،روڈ بند ہیں،تنگی صرف
اورصرف عوام کوہی ہورہی ہے۔جو اس کے ذمہ دار ہیں وہ چین کی بانسری بجارہے
ہیں۔سب اچھاکی رپورٹس مسلسل اورتواتر کے ساتھ اوپر جارہی ہیں۔حکمران خوش
ہیں کہ عوام خوش حال ہیں۔تاجر حضرات اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال کرتے ہیں
،بازار بند ہوتے ہیں ،عوام روز مرہ کی ضروریات زندگی خریدنے سے محروم رہتے
ہیں ،اوردیہاڑی دار طبقہ سارادن فارغ رہنے پر مجبور ہوجاتاہے،شام کو اس کے
گھر میںفاقہ ہوتاہے اورتاجر راہنمااعلان کرتے ہیں کہ جب تک مطالبات تسلیم
نہ ہوئے بازار بند رہیں گے ۔جس کے گھر میںدوچار ماہ کاراشن موجودہے اسے
کیاپڑی کہ کسی بھوکے کی شام کی بھوک کی فکر کرے ۔کوئی سیاسی پارٹی احتجاج
کی کال دے دیتی ہے ،کسی کے خلاف دھرنادیناہوتاہے یاکسی کادھڑن تختہ کرنے
کاپروگرام ہوتاہے ۔بات کوئی بھی ہوپھر راستے بند ،بازار بند، کاروباری
مراکز بند اورغریب کوشام کی روٹی کی فکر ۔مگر لیڈروں کو کیاپڑی ہے کہ وہ
غریب کے بجھتے ہوئے چولہے کاسوچیں ۔کیونکہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں غریب
کیلئے ہی توکررہے ہیں۔کسی وزیر کاقافلہ گزرناہے یاکسی وزیر نے غریبوں کے
لیے مراعات کااعلان کرنے کیلئے جلسہ کرناہے۔ پھر راستے بند ،کام ٹھپ ،پولیس
اورانتظامیہ وزیر کوپروٹوکول دینے میں مصروف ،جرائم پیشہ افراد کو کھل
کھیلنے کی کھلی چھٹی ،مرا کون غریب عوام ۔حکومت نے عدلیہ پر حملہ
کردیایاکسی وکیل کی توہین ہوگئی۔ وکلاءحضرات ہڑتال پر ہیں ،موکل بے چارے
سارادن کچہری میں مارے مارے پھرے ،عدالت میں بلائی پر بلائی ہورہی ہے وکیل
صاحب دستیاب نہیں ۔کیونکہ بار ہڑتال پر ہے ،پساکون غریب عوام ۔حالانکہ بار
کی طرف سے اعلان کردہ ہڑتال کی کال پر لبیک کہنے والے وکلاءحضرات کواگرکوئی
نیاکلائینٹ دستیاب ہوجائے توفی الفور وکالت نامہ پُر کرلیاجاتاہے، فیس وصول
کرلی جاتی ہے ،لفافہ تیار کرلیاجاتاہے اوراگر ضروری ہوتوعدالت میںجمع بھی
ہوجاتاہے ،مگر پرانے کلائینٹ کی تاریخ پیشی پر حاضری کی بجائے ہڑتال ہوتی
ہے۔ چاہے اس کے بدلے انصاف کے متمنی کوپندرہ بیس دن کی تاریخ ہی کیوں نہ مل
جائے ۔پرواہ نہیں ۔وکلاءراہنما احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کررہے
ہوتے ہیں کہ ”تمہیں اس ملک کے عوام کوانصاف دیناہوگا،وگرنہ ہم غیر معینہ
مدت کی ہڑتال کریں گے “اورانصاف کے حصول کیلئے ان کے ہتھے چڑھاہواپیچھے
کھڑا یہ دعویٰ سن رہاہوتاہے اورخون کے گھونٹ پی کر صبر کی ناکام کوشش
کررہاہوتاہے۔حکومت کہتی ہے کہ جمہوریت میں ہم سب کی بقا ہے کسی کوجمہوریت
کے خلاف سازش نہیں کرنے دی جائے گی ،جمہوریت ہے توہم ہیں جمہوریت نہیں
توکچھ بھی نہیں ۔اورکسی ایم این اے، ایم پی اے، وزیر یامشیر کی طرف سے اپنی
جگہ پرکیے گئے ناجائز قبضہ کوواگزار کروانے کی فکر میں غلطاں، فائل بغل میں
دبائے یہ سنہرے الفاظ سن کر پچھتارہاہوتاہے کہ وہ اس ملک میں پیداہی کیوں
ہوا۔الغرض ہم ہر وہ کام کررہے ہیں جونہیں کرناچاہئے اورہراس کام سے اجتناب
برت رہے ہیں جوکرنے کابلکہ ضروری کرنے کاہے۔ابھی تازہ تازہ خبر ملاحظہ
فرمائیں :رمضان المبارک میں عوام کوریلیف دینے کے لئے رمضان بازار لگائے
گئے ہیں ،جن میں ناجائز منافع خوری کرتے ہوئے چار ہزار تین سو دکاندار
گرفتارہوئے جن کوایک کروڑ اکیس لاکھ روپے کاجرمانہ کیاگیاہے۔اب بتاﺅ اس ملک
کے حالات کیسے ٹھیک ہوسکتے ہیں ۔کہنے کامقصدیہ کہ ہرایک ،چاہے دکاندار ہے
یاسیاستدان،بیوروکریٹ ہے یاچپڑاسی ،افسر ہے یامعمولی کارندہ ،عوام
کااستحصال کررہاہے ۔عوام کولوٹ رہاہے ۔عوام کاخون نچوڑرہاہے۔اورساتھ ہی
ساتھ عوام کی خدمت کادعویدار بھی ہے۔صبح سے لے کر شام تک اورشام سے لے کر
صبح تک نہ جانے کتنے جھوٹ بولے جاتے ہیں ،کتنے جھوٹے دعوے اوروعدے کیے جاتے
ہیں ۔روزانہ بے شمار جھوٹ بولے جاتے ہیں اورعوام سننے پر مجبور ہیں۔بولنے
والے کو بھی پتاہوتاہے کہ وہ کیابول رہاہے اورسننے والے کو بھی علم ہے کہ
وہ کیاسن رہاہے۔ مگر پھر بھی بولے گئے ہر جھوٹ کے ساتھ نئی امیدیں وابستہ
کرلی جاتی ہیں ،نئے خواب استوار کرلےے جاتے ہیں اورنئی امنگیں جی اٹھتی ہیں
۔بولے گئے اتنے جھوٹوں میں اگرکوئی ایک آدھ سچ سننے کوملے توبڑاعجیب
لگتاہے۔مثال کے طور پر کسی پرائیویٹ چینل پر ایک حکومتی ممبر اسمبلی نے
کہاکہ” کرپشن ہماراحق ہے ،جس طرح دوسرے لوگ کرپشن کررہے ہیں ہم بھی اپنے حق
کااستعمال کررہے ہیں“ انہوں نے کہاکہ” جو شخص کرپشن نہیں کرتاوہ اپنے ساتھ
ظلم کرتاہے“۔یہ سچ ایساہے کہ جھوٹ نگری میں بڑا عجیب محسوس ہورہاہے ۔جب یہ
سچ بولاجارہاتھاتو”موقع واردات “پر موجود اینکر پرسن سمیت سبھی مہمان بھی
حیرا ن وپریشان ہورہے تھے کہ یہ کیساشخص ہے جو” غلط بات“ کررہاہے بلکہ
لائیو پروگرام میں کررہاہے۔شاید کئی ایک ویورز بھی پریشان ہوئے ہوں مگر
میںقطعاً نہ توپریشان ہوااورنہ ہی حیران ۔کیونکہ میں ہر وقت سچ کامتلاشی
رہتاہوں اورایک سچ بولاجارہاتھااس لیے میرے حیران ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی
۔بلکہ میں خوش ہورہاتھاکہ چلو کافی دنوں کے بعد کوئی ایک آد ھ سچ توسننے
کوملا۔بات ہورہی تھی اس صابر وشاکر قوم کے صبر وشکر کی ۔اطلاعات کے مطابق
پچھلے 48گھنٹوں میں ہم نے کراچی میں 47لاشیں اٹھائی ہیں ،صبر اس لیے کرگئے
کہ ان کی موت لکھی ہی اسی طرح گئی تھی اورشکر اس لیے کہ گھنٹوں کے حساب سے
ایک موت کم ہوئی ہے۔اللہ تیراشکر ہے ۔اگر 48گھنٹوں میں پچاس اموات بھی
ہوجاتیں توہم کیاکرلیتے؟ہمارے خیال کے مطابق اس ساری صورت حال سے ایک بات
بالکل واضح اورنوشتہ دیوار ہے ۔وہ یہ کہ ایسا وقت بہت جلد آنے والاہے جب
یہی سارے ”صابروشاکر“ عوام” جابر“ بن جائیں گے اوراپنے تمام حقوق سمیت اپنے
ملک کاامن وسکون اشرافیہ سے بزور طاقت چھین لیں گے ۔یقین کیجئے کہ یہ
استحصالی طبقہ اُس وقت نہ توصبر کرسکے گااورنہ ہی شکر کیلئے ان کے ہاتھ کچھ
بچے گا۔رہے نام اللہ کا!
بس ایک مخلص قائد کی ضرورت ہے ،اِس قوم کوجیسے ہی مخلص قیادت دستیاب
ہوگئی،تواس کے صرف چند لمحے بعد ہی یہ انہونی ہوکررہے گی۔دیکھئے ایساکب
ہوتاہے؟ |