کسی بے آسرا سے ہم ،سہارے بانٹ لیتے ہیں
خوشی کے روز آؤ، چاند تارے بانٹ لیتے ہیں
مجھے مایوس آنکھوں کی نمی اچھی نہیں لگتی
میرے کاندھے پر سر رکھو ،خسارے بانٹ لیتے ہیں
کسی کو میں سہارا دوں ،کسی کو تم سہارا دو
ہمارے گرد ہیں لاکھوں بچارے ،بانٹ لیتے ہیں
وہ جب مشورہ کررہے تھے تو ان کے ذہن میں لازمی وہ سارا منظر گھوما ہوگا وہ
منظر نہیں بلکہ حقیقت ایک تلخ حقیقت اور حقیقت بھی پوری زندگی پر محیط، ایک
مسلمان ہونے کے ناطے اپنے محبوب پیغمبر ﷺ کا ابدی پیغام اپنی آنے والی
نسلوں تک پہنچانے کی جدوجہد اور اس ملک پاکستان کے غریب ترین طبقہ میں شرح
خواندگی کی اضافے کی جدوجہد جس طبقہ کے لیے ہمارے اچھے عصری اداروں میں
کوئی جگہ نہیں، انہیں معاشرے کا ایک بے ضرر اور بہتر فرد بنانے کی جدو
جہداور اپنی نسلوں کو ایک امت وحدہ بنانے کی جدوجہد اور اس کے بدلے میں
عالمی سامراج اور طاقتور استعمار سے لیکر اپنے معاشرے اور اپنی حکومت کی
طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کی تلخ حقیقت ،وہ معاشرے کا سب سے کمزور
سمجھا جانے والا طبقہ جسے ’’بھیک منگا ‘‘ ’’دو ٹکے کا ملّا‘‘کہا جاتا ہے جی
بالکل وہی ملّاں آج اپنے پروردگار کے حضور گڑگڑا کر آہ وزاری بھی کررہا تھا
اور عملی طورپر میدان میں اترنے کا مشورہ بھی ،اس کی آنکھوں میں آنسو اور
اُن آنسوؤں میں جھلملاتی پر عزم نگاہیں ،وہ زبان جو قال اﷲ وقال الرسول کی
صدائیں بلند کرتی سیلاب سے متاثرہ پاکستانی خاندانوں کے لیے آواز لگارہی
تھی۔
پورے ادارے میں ایک ایمرجنسی لگ گئی ادارے کا ہر فرد اپنے متاثرہ بہن
بھائیوں کے لیے جو بن سکا وہ کرنے لگا،ایک سپرٹ تھی ،ایک ولولہ تھا ،ایک
جذبہ تھا جو بالکل بے سروسامانی کے عالم میں نظر آیا بات بات میں جب بڑوں
کی طرف سے کہا جاتا کہ آپ کام شروع کریں اﷲ مدد کرے گااور ہم اپنے حصے کا
دیا جلائیں گے تو یقین کریں سب میں بجلی کوند جاتی ،تمام تقاضے دوسرے نمبر
پر چلے گئے اور تو اور طالب علموں کا جذبہ بھی دیدنی تھا ساری رات ٹرک لوڈ
کروانا اور صبح وقت پر کمرہ امتحان میں پہنچنا، تصور کریں کیا عالم ہوگا
،شعبہ بنین کے ساتھ ساتھ شعبہ بنات کی طرف سے بھی آوازیں آنا شروع ہوگئیں
کہ ہمیں بھی خدمت کا موقع فراہم کیا جائے ،جی جناب یہ وہ لوگ ہیں جنہیں
ہمارے ہی معاشرے کی ایلیٹ کلاس تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور یہی بوریا نشین
سب سے پہلے سیلاب زدگان کی اشک شوئی کرنے ،انہیں دوبارہ زندگی کی طرف
لوٹانے کے لیے پہنچے اور دنیا نے تسلیم کیا کہ جب بھی کوئی قدرتی آفت آجائے
یا ملکی سا لمیت کا مسئلہ ہو تو یہ اہل مدارس ہی ہیں جو سب سے پہلے میدا ن
عمل میں اترتے ہیں اور بے لوث اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں ۔
جامعہ دارالتقوی کے شعبہ رفاہی امور میں آ ج کل سرگرمیاں معمول کی روٹین سے
ہٹ کر ہورہی ہیں ،باقی شعبوں کے افراد بھی اب اس کا حصہ بن چکے ہیں اور
اپنی دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شعبہ رفاہی امور میں بھی خدمات سر انجام
دے رہے ہیں جامعہ کا شعبہ رفاہی امور پہلے ہی عوامی فلاح و بہبود کے بے
شمار منصوبوں پر کام کررہا ہے جس میں متعدد واٹر فلٹریشن پلانٹ لگانا،
مستحق افراد خصوصاً طلباء میں ادویات کی مفت فراہمی ، مستحق گھرانوں تک
ماہانہ راشن ،رمضان المبارک میں مستحق افراد کے لیے رمضان راشن پروگرام،میت
کے لیے غسل اور کفن کا انتظام اب غسل او ر کفن کے انتظام کو مزید وسیع او
رمنظم کرنے کے لیے ترتیب وار پورے لاہور میں حلقے بنائے جارہے ہیں اس سلسلہ
میں شعبہ رفاہی امور کو ہر علاقے کے مقامی رضا کار بھی درکار ہیں جو اس
فلاحی خدمت میں ادارے کے معاون بنیں اور غسل و کفن کے شعبہ کو اپنی خدمات
پیش کریں ۔
ان شاء اﷲ عنقریب فری ڈسپنسریز بھی قائم کی جارہی ہیں جہاں مستحق افراد کا
مفت علاج ہوگا اس سلسلہ میں بھی ہمیں کچھ ڈاکٹرز درکار ہیں جو ڈسپنسریز میں
ایک مخصوص وقت کے لیے اپنی خدمات سر انجام دیں ،اسی طرح میت گاڑی اور
ایمبولینسز لینے کا بھی ارادہ کرلیا گیا ہے اور بھی بہت سارے پروگرامز ہیں
جو ان شاء اﷲ اپنے اپنے وقت پر شروع کرلیے جائیں گے ۔
جامعہ دارالتقوی نے’’ ابتدائی امداد سے مکمل بحالی تک‘‘کے سلوگن کے تحت اﷲ
تعالیٰ کی بھر پور مدد اور آپ حضرات کے تعاون سے سیلاب زدگا ن کی امدا د کا
بیڑا اٹھا یا اور الحمد ﷲ ادارے کے افراد دن رات محنت کرکے حقیقی مستحق
افراد تک لوگوں کی امانتیں پہنچا رہے ہیں باوجود اس کے کہ نا مساعد حالات
ہیں ،روڈ بند ،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں،کشتیوں کا سفر،غیرمحفوظ علاقوں میں مستحقین
تک پہنچنا اورسب سے مشکل کام دور دراز اور مشکل ترین علاقوں میں حقیقی
مستحق افراد تک پہنچنا اور ان کے مسائل سن کر اس کے مطابق انہیں امداد دینا
جس میں ہمارے افراد نے پوری جانفشانی اور ہمت سے کام لیا، ادارے کے بڑوں کی
مکمل توجہ اور نگرانی میں اﷲ تعالیٰ نے ساتھیوں کے لیے بہت سی آسانیاں بھی
فرمائیں اور کام کی نوعیت بہت شاندار رہی ،بعد میں پاک فوج اور رینجرکے
جوان رہنمائی اور حفاظت کے لیے ساتھ ساتھ رہے جس کی وجہ سے کوئی ناخوش گوار
واقعہ پیش نہیں آیا،اسی طرح ڈی سی صاحب لاہور نے بھی بھر پور تعاون اور
رہنمائی کی ۔
اب تک پنجاب ،سندھ ،بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں سکھر
،مورو،دادو،شہداد کوٹ،گوٹھ سردار محمد رند ،ڈیرہ مراد جمالی ،صحبت پور،
ڈیرہ اﷲ یار، صالح پٹ، تونسہ ، راجن پور، فاضل پور، وھوا، بستی روجھان، عمر
کوٹ ،جلووالی ،کالام ، سوات ،مدین ،ٹانک تک ہمارے آپریشنز اپریٹ ہوچکے ہیں
الحمدﷲ۔
سیلاب متاثرین کو اب تک کروڑوں روپے کی امداد فراہم کردی گئی ہے جس میں
ہزاروں گھرانوں تک راشن کی فراہمی ،ہزاروں لیٹر پانی ،لاکھوں کی
ادویات،لاکھوں من آٹا، نقد رقم، خشک دودھ، واٹر کولر،سلنڈرزکی
فراہمی،خیمے،واٹر پروف ترپالیں،ٹینٹ،مچھر دانیاں،مچھروں سے حفاظت کے لیے
موسپل، چٹائیاں، جن دیہاتوں میں بجلی کا نظام معطل ہوچکا ہے وہاں موم بتیاں
فراہم کی گئیں،پلاسٹک کی بالٹیاں اور کھانے پینے کے لیے برتن فراہم کیے
گئے،جوس کے ڈبے ،بچوں کے کھلونوے ،کپڑے اور جوتیاں ،ان کے ساتھ ساتھ بے
شمار گھروں کی جزوی اور کلی تعمیر کی گئی الحمدﷲ۔ اب باقی امور ان شاء اﷲ
مساجد اور مدارس کی تعمیر کا سلسلہ ابتدائی مراحل میں ہے یہ اعدادو شمار
تادم تحریر ہیں اور ان شاء اﷲ آپ سب کی محبتوں سے چلتا رہے گا ۔
یہ کارگزاری ان بوریا نشیں خدامست لوگوں کے صرف ایک ادارے کی ہے جو تحدیث
بنعمت کے طور پر بیان کردی گئی ہے اس سے اندازہ لگائیں کے ملک کے طول و عرض
پر پھیلے ہزاروں مدارس اور ان سے وابستہ لاکھوں افراد کیسے اپنے سیلاب
زدگان پاکستانیوں کے لیے جدو جہد کررہے ہوں گے۔
اﷲ تعالیٰ سب کی کاوشوں کو قبول فرمائے ،ذخیرہ آخرت بنائے آمین ثم آمین۔
اس بزمِ جنوں کے دیوانے ہرراہ سے پہنچے یزداں تک
ہیں عام ہمارے افسانے دیوارِ چمن سے زنداں تک
سوبار سنوارا ہے ہم نے اس ملک کے گیسوئے برہم کو
یہ اہل ِجنوں بتلائیں گے کیا دیا ہے ہم نے عالم کو
|