دنیا بھر میں ماہ ربیع الاول میں خصوصی تقاریب اور محافل
ہورہی ہیں۔ ان محافل میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی فضیلت، ان کا مقام
و مرتبہ، سیرت طیبہ، درود و سلام اور ان سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اد
دنیا میں حضور اکرم کی تشریف آوری انسانیت پر خدا کا بہت احسان اور نعمت
کبری ہے۔ بلاشبہ یہ محافل بہت مقدس ہوتی ہیں کیونکہ ان میں اس ہستی کا ذکر
ہوتا ہے جو محبوب رب العالمین ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اور
مرتبہ کے حوالے سے جب اﷲ تعالیٰ نے فرمادیا ورفعنا لک ذکرک اور جنہیں مقام
محمود کا مرتبہ ملا ان کی شان میں کوئی بھی انسان اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا
ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ صرف ایسی محافل منعقد کرنا اور ان شرکت کافی یا
ہمارے ذمہ کچھ اور بھی یے۔ محبت رسولﷺ کا تقاضا کیا ہے؟ جب ہم قرآن حکیم کو
دیکھتے ہیں تو حضور اکرم کے حوالے سے ہمیں سورہ آل عمران کی آیت 31 میں یہ
حکم ملتا ہے کہ "اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو
تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اﷲ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے
گا اور اﷲ بخشنے والا مہربان ہے" یعنی خدا سے محبت کا ایک ہی طریقہ ہے
فَاتَّبِعْونِی، حضور اکرم کی اتباع اور پیروی کرنا۔ اس سے اگلی آیت میں
کہا کہ اﷲ اور رسول اﷲ کی پیروی کرو۔ پھر سورہ نساء کی آیت 80 میں وضاحت کی
کہ جو رسول اﷲ کی اتباع کرے گا وہ ایسے ہی جیسے وہ خدا کی اتباع کرتا ہے۔
اسی سورہ نساء کی آیت 59 میں اﷲ کی اطاعت کے ساتھ رسول اکرمﷺکی اطاعت کا
حکم دیا ہے۔ سورہ احزاب کی آیت 21 میں واضح کردیا کہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ
بہترین نمونہ ہے۔ ان آیات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ہمارے لئے
یہی حکم ہے کہ رسول اکرم کی پیروی کریں۔ جس طرح انہوں نے زندگی بسر کی، ہم
بھی ویسا ہی کریں۔ ہم حضورکی پیروی کرلیں گے تو محبت کے دعوے بھی سچے ہوں
گے۔ اب اگر ہمیں یہ علم ہوجائے کہ رسول اﷲ کا راستہ کون سا ہے، انہوں نے
زندگی کیسے بسر کی، اور اگر ہم بھی اس راستے پر چلیں تو حضور کی پیروی
ہوجائے گی۔ بہت سادہ سی بات ہے۔
حضورﷺنے زندگی کیسے بسر کی؟ اس بارے میں صحیح مسلم میں حدیث مبارکہ ہے کہ
رسول پاک کے اس دنیا سے تشریف لے جانے بعد ایک شخص حضرت عائشہ صدیقہؓکے پاس
آیا اور پوچھا کہ رسول اﷲ کا خلق اور عادات کیسے تھیں؟ انہوں نے کیسی زندگی
بسر کی۔ حضرت عائشہؓ نے جواب میں فرمایا " آپ کا خلق قرآن تھا " حضور مجسم
قرآن تھے۔ وہ قرآن حکیم کی عملی تفسیر تھے۔ تو گویا اگر ہم بھی قرآن حکیم
کے مطابق زندگی بسر کریں تو حضور کی خود بخود پیروی ہوجائے گی۔
حضورﷺنے کیسی زندگی بسر کی؟ آئیے اس حوالے سے قرآن حکیم پر غور کرتے ہیں
کیونکہ قرآن حکیم کسی بھی شک و شبہ سے بالا اور ایک مسلمان کے لئے حرف آخر
ہے۔ قرآن کی سورہ یونس کی آیت 15 میں ہے "(اے نبیِ مکرّم) فرما دیں: مجھے
حق نہیں کہ میں اس(قرآن) کو اپنی طرف سے بدل دوں، میں تو فقط جو میری طرف
وحی کی جاتی ہے (اس کی) پیروی کرتا ہوں۔ اسی سورہ کی آیت 109 میں رسول اکرم
سے کہا گیا کہ "آپ اسی کی اتباع کریں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے" سورہ
احزاب کی دوسری آیت میں ہے کہ " آپ اس (فرمان) کی پیروی جاری رکھیئے جو آپ
کے پاس آپ کے رب کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے" سورہ اعراف کی آیت 203 میں کہا
کہ آپ "فرما دیں: میں تو محض اس (حکم) کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی
جانب سے میری طرف وحی کیا جاتا ہے یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے دلائل
قطعیہ (کا مجموعہ) ہے اور ہدایت و رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے
ہیں" سورہ الانعام کی آیت 50 میں ہے کہ "میں تو صرف اسی (حکم) کی پیروی
کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے" اسی سورہ کی آیت 157 میں ہے کہ "اور
یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی
پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے" سورہ ال?حقاف
کی آیت پر غور کریں جس میں گیا یے کہ "میں صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو
میری طرف بھیجی جاتی ہے" اور سورہ الزخرف کی آیت 43 ملاحظہ ہو فرمایا کہ
"پس آپ اس (قرآن) کو مضبوطی سے تھامے رکھیئے جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے،
بیشک آپ سیدھی راہ پر (قائم) ہیں" ان تمام آیات سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ
رسول اکرم قرآن حکیم کی پیروی کرتے تھے اور اگر ہم بھی قرآن کی پیروی کریں
تو رسول اکرم کی پیروی ہوجائے گی اور خدا کا حکم بھی پورا ہوجائے گا۔
ساری بحث کا نچوڑ سورہ ا عراف کی آیت 157 میں یوں ہے کہ جو لوگ اس نورِ
(قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے
والے ہیں۔ ہمارا محبت رسول کا دعوی تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب ہم قرآن حکیم
کو زندگی کا نصب العین بنائیں۔ قرآن حکیم پر غور و فکر کریں، قرآنی تعلیمات
کو عام کریں۔ رسول اکرم ﷺکی حدیث مبارکہ ہے کہ تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں
جو قرآن سیکھیں اور دوسروں کو سکھائیں۔ اس ماہ ربیع الاول میں ہم اپنے آپ
سے عہد کریں کہ قرآن حکیم کو سمجھیں گے، اس پر غور و فکر کریں گے اور اس کی
تعلیمات پر عمل کریں گے۔ قرآن فہمی اور دوسروں تک خدا کے اس آخری پیغام کو
پہنچائیں گے۔ اس سے رسول اکرم ﷺکی پیروی بھی ہوجائے اور ہمارا عشق رسولﷺکا
جذبہ بھی سچا جانا جائے گا۔ یہ انسانیت کے نام خدا کا آخری پیغام ہے جو
ہمیں ختم المرسلین کی وساطت سے ہمیں ملس ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے خوب
کہا ہے کہ
نوع انسان را پیام آخرین
حامل او رحمۃ للعالمین
|