خوشبو

پرانے شہر کی تنگ و تاریک بوسیدہ شکستہ گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک پرانے چھوٹے سے محلے کے چھوٹے سے شکستہ حال گھر کے دروازے سے گزرتے ہوئے ہم لوگ پرانے چھوٹے سے کمرے میں داخل ہو ئے تو حیران کن مسحور کن خوشبو نے ہمارا استقبال کیا میں اِس خوشگوار سواگت کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا کیونکہ ہم گلی اور محلے کے گندگی کے ڈھیر وں سے گزرتے ہوئے آئے تھے محلے اور گلی کے پرانے گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے فضا میں عجیب سی بے کیف سی بد بو پھیلی ہو ئی تھی غربت کی چکی میں پستے لوگ جو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے میں مصروف تھے جنہیں زندگی کی بقاکے لیے روزانہ مزدوری کرنا پڑتی یا گھروں پر فا قوں کا راج تھا غربت بھوک کا عفریت بیچاروں کو چاٹتا جا رہا تھا زندگی کے لالے پڑے ہوئے تھے اِن حالات میں صفائی ستھرائی کی کس کوہوش تھی اوپر سے حکومت وقت کی ازلی بے حسی کہ شہر کے پوش علاقوں میں کیونکہ بااثر طاقتور صاحب اقتدار لوگ بستے ہیں اِ س لیے وہاں پر کارپوریشن کے صفائی کے عملے کی دوڑیں لگتی نظر آتی ہیں کیونکہ اِن غربت کی چتا پر جھلستے لوگوں میں کوئی افسر طاقتور انسان نہیں رہتا اِس لیے اِن علاقوں کی کوئی بھولے سے بھی خبر نہ لیتا آپ جب ایسے گلی محلوں یا گھروں میں جاتیں ہیں تو چاروں طرف غربت لاچارگی بے بسی بیماری ہی ٹپکتی نظر آتی ہے ایسے علاقوں کے چھوٹے سے پرانے شکستہ حال گھر کے چھوٹے سے کمرے سے مسحور کن خوشبو کا آنا حیران کن تھا میں یہاں پر اسی سالا بوڑھی عورت سے ملنے آیا تھا جو مہینوں پہلے فالج کا شکار بے حس و حرکت لیٹی تھی اب وہ سرک سرک کر موت کی دہلیز پر آگئی تھی لواحقین بھی اب اُس کے مرنے کا انتظار کر رہے تھے آپ جب بھی ایسے محلے کے پرانے گھر کے ٹوٹے پھوٹے کمرے میں داخل ہوں جہاں پر بستر مرگ پر کوئی لاعلاج بوڑھا مریض زندگی کی آخری سانس لے رہا ہو تو آپ کو ایسے کمرے سے مسحور کن خوشبو نہیں بلکہ مختلف دوائیوں پرانے کپڑوں کی بد بو آتی ہے اوپر سے مریض پتھر کا بنا چھت کی طرف دیکھ رہا ہویا آنکھ بند کئے بے حس و حرکت پڑا ہو تو کمرے کے درودیوار سے وحشت سی ٹپکتی نظر آتی ہے دل و دماغ پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے اعصاب بکھرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ آپ ڈرل پوری کر کے فوری ایسے کمرے سے نکلنے کی کو شش کرتے ہیں لیکن یہاں تو حالات ہی کچھ اور تھے اِس کمرے کی خوشبو سے مجھے ایک اور خوشبو یاد آگئی تلاش حق کے ابتدائی دنوں میں مجھے جہاں بھی کسی درویش کا پتہ چلتا میں دیوانوں کی طرح اُس کے پاس پہنچ جاتا میری اِس تلاش کے کچھ ساتھی بھی تھے جو میری ہی طرح روحانی پیاس بجھانے کے لیے جگہ جگہ گھومتے تھے کوئی نیک اﷲ کا ولی ہے تو وہ دوسروں کو بتاتا اِس طرح میرے ایک دوست نے مجھے بتایا یار تم جس طرح کے بابے درویش ڈھونڈتے ہو ایسا ایک مجذوب فلاں شہر میں سڑک کے کنارے پڑا رہتا ہے وہ ہر وقت اپنی ہی مستی میں گم ہو تا ہے اُس مجذوب کو لوگ پاگل دیوانہ کہتے ہیں وہ اِس دنیا کا بندہ نہیں ہے دوست بتانے لگا آجکل اُس کی ٹانگ کا زخم بہت خراب ہو گیا ہے اگر اُس کا علاج نہ ہوا تو ذہر اُس کے سارے جسم میں پھیل کر اُس کے جسم کوپھوڑے میں تبدیل کر دے گالہذا ہمیں فوری طور پر اُس کی مرہم پٹی کرنی چاہیے لہذا اُس مجذوب کو میرا دوست اپنے گھر لے آیا تو میں نے بھی اُس باکمال درویش کے کمرے میں جانا شروع کر دیا ساتھ میں ہم کوئی کمپوڈر وغیرہ لے جاتے جو اُس درویش کے زخم کی صفائی کر تا وہاں پر میں نے اور دوستوں نے ایک حیران کن بات محسوس کی کہ زخم پرانا اور گہرا ہو گیا تھا بلکہ خراب ہو گیا تھا لیکن زخم سے پرانے زخم کی بدبو بلکل بھی بہ آتی جس کمپوڈر کو ہم لے کر گئے وہ بھی روحانیت کا قائل ہو گیا کہ اتنا پرانا زخم لیکن بد بو بلکل نہیں بلکہ ہم جب بھی اُس کے کمرے میں داخل ہو تے ایک خاص قسم کی خوشبو محسوس ہوتی مجذوب کے پرانے مٹی میں لتھڑے کپڑے مٹی میں لپٹے لمبے بال جن کو دیکھ کر لگتا مجذوب مہینوں سے نہیں نہایا لیکن بد بو کی بجائے ایک خاص خوشبو مجذوب اور اُس کے کپڑوں سے آتی ہم دوست کئی دن تک مجذوب کا علاج کرتے رہے آہستہ آہستہ زخم ٹھیک ہو تا گیا تو ایک دن مجذوب نے اپنا چولا اٹھا یا اور کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گیا لیکن اُس کے جانے کے بعد بھی اُس کمرے سے وہی مسحور کن ایمانی حلاو ت بھری خوشبو گھر والوں کو حیرت میں مبتلا کر تی رہی کہ مجذوب تو چلا گیا لیکن اُس کے بدن سے پھوٹنے والی خوشبو اب بھی باقی تھی اب ہم اِس خوشبو کی طرف آتے ہیں دو سال پہلے فضل قادری جو ایک سرکاری دفتر میں کلرک کی جاب کر تا تھا میرے پا س اپنی بوڑھی والد ہ کو لے کر آیا اور بولا جناب ہم نسل در نسل اولیاء اﷲ کو ماننے والے ہیں والد صاحب فوت ہو گئے اب میں میری والدہ بیوی اور دو بچے ہیں میری کل کائنات میری بوڑھی والدہ ہیں سر میر ایک مسئلہ ہے میری ماں ڈاکٹروں حکمیوں پر بلکل بھی اعتماد نہیں کرتیں یہ صرف روحانی علاج اور دم پر یقین کرتی ہیں یہ جب بھی بیمار ہو تی ہیں میں کسی سے جا کر دم کرواتا ہوں تو یہ ٹھیک ہو جاتی ہیں اب پتہ نہیں یہ اِن کا نفسیاتی مسئلہ ہے یا کوئی اور با ت یہ دم سے ہی ٹھیک ہو تی ہیں آپ کے پاس بہت رش ہو تا ہے میری والدہ بوڑھی ہیں آپ پلیز اِن کو جلدی دم کر دیا کریں انہوں نے کوئی بات تو نہیں کرنی ہوتی اب ان کی یادداشت بھی کم ہو گئی ہے میں نے ماں جی کو دم کیا جب وظیفہ بتا نے لگا تو بیٹا بولا یہ صرف ایک وظیفہ کرتی ہیں اُس کے علاوہ اِن کی زبان پر کچھ نہیں چڑھتا صرف اور صرف درود شریف ہی پڑھتی ہیں اِن کا یہی اسم اعظم ہے جو انہوں نے بچپن سے آج تک کیا ہے یہ سن کر میں نے ماں سے کہاآپ درود شریف ہی پڑھیں اورمجھے بھی دعاؤں میں شامل رکھیں اُس کے بعد مہینے میں ایک دو بار وہ اپنی ماں کو دم کرانے کے لیے میرے پاس لے آتا ماں مجھے دیکھتے ہی سر پر ہاتھ رکھ لیتی میں دم کر دیتا وہ چلی جاتیں آ ج صبح فضل میرے پاس آیا تو بولا سر آپ کی بوڑھی مرید بیما ر ہے آپ کے پاس نہیں آسکتی کیا آپ میرے ساتھ چل کر میری ماں کو دم کریں گے میں غریب منت ہی کر سکتا ہوں تو میں اِس کمرے میں ماں جی کو دم کر نے آگیا جہاں درود شریف کی خوشبو پھیلی ہو ئی تھی ماں جی نے ساری زندگی درود شریف سے محبت کی جو خوشبو بن کر اُن کے جسم سے اب پھوٹتی ہے میں قریب ہوا ماں کی آنکھوں میں آشنائی کے جگنو ٹمٹمائے ماں نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا تو میں نے اُن کا دوسرا ہاتھ اُٹھا کر اپنے سینہ پر رکھ لیا ماں مجھے اور میں ماں کو دم کر رہا تھا چاروں طرف درود شریف کی خوشبو پھیلی تھی ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.