معصوم بچیوں پر دنیا کے بیشتر ممالک میں ہونے والے ظالمانہ پُر تشدد واقعات
اور سانحات کے پیش نظر عالمی سطح پر بچیوں کو بااختیار بنانے اور ان کے
مسئلوں کے تدارک کے لئے ترکی، کینیڈا اور پیرو کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی نے 19 ؍ دسمبر 2011ء کو یہ تجویز پاس کی تھی کہ ہر سال کے 11 ؍
اکتوبر کو بین الاقوامی سطح پر ’’عالمی یوم بچیاں ‘‘ انعقاد کیا جائے گا
اور 11 ؍ اکتوبر 2012 ء کو پہلا عالمی یوم بچیاں (World day of the Girl
child )کا انعقاد کیا گیا ۔ لیکن افسوس کہ جن مقاصد کے حصول اور مسئلہ کے
تدارک کے لئے اقوام متحدہ نے اتنا اہم فیصلہ کیا تھا ، وہ مقاصد پورا ہونا
تو دور بچیوں کے ساتھ مسلسل ظالمانہ رویئے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ بچیوں
کے ساتھ ہونے والی تفریق،تعلیم کی کمی ، غذا کی کمی،قانونی اختیار،طبی
سہولیات،کم عمرمیں شادی اور جنسی تشدد وغیرہ جیسے مسئلوں کو اہمیت دی گئی
تھی۔معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اور رویۂ کو عالمی سطح
پر محسوس کیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں یونیسیف کے ذریعہ نشاندہی کئے گئے بچیوں
کے مسئلوں میں اس وقت میرے خیال میں سب سے اہم مسئلہ بچیوں کی آبرو ریزی کا
مسئلہ ہے ۔ بچیوں کی آبروریزی کے بعد شواہد مٹانے کے لئے جس بے رحمی اور بے
دردی کے ساتھ بچیوں کوقتل کیا جا رہا ہے ۔یہ اس وقت کا بڑا ہی نازک اور
حساس مسئلہ ہے ۔ خاص طور ہمارا ملک بھارت ان دنوں ایسے مسئلے کا مرکز بنا
ہوا ہے ۔دنیا کے مختلف ممالک میں اترا کھنڈ کے پوڑی ضلع میں واقع ایک
ریزارٹ کی ایک ملازمہ جوان بچی انکتا بھنڈاری کو صرف اس وجہ کر ہلاک کر دیا
گیا کہ وہ ریزارٹ کے بھاجپائی مالک کے مہمانوں کے لئے جنسی ہوس کی شکار
ہونے سے انکار کر دیا تھا ۔ ا س سانحہ پر ہنگامہ بڑے پیمانے پر ہوا ۔ایسا
ہی ہنگامہ اتر پردیش کے ہاتھرس میں ہونے والے سانحہ کو لے کر ہوا تھا ۔غم و
غصہ اور احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ بھی رہا ۔گوا کے سمندری ساحل پر دو
نابالغ بچیوں کا اجتمائی آبروریزی کے بعد ان کی چیخ کی بازگشت ابھی پوری
طرح تھمی نہیں ہے۔ایسے دلدوز اور دلخراش واقعات اور سانحات کا سلسلہ رُکنے
کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ لیکن افسوس کہ حکومت کی جانب سے ایسے غیر
انسانی،غیر قانونی اور غیر ذمّہ دارنہ حرکت و عمل پر ایک ٹوئیٹ پر بھی
اظہار افسوس نہیں کیا جاتا ہے۔ جب کہ ملک میں ہر چہار جانب حکومت کی جانب
سے ’’ بیٹی پڑھاؤ ،بیٹی بچاؤ‘‘ کے نعروں کے بڑے بڑے بورڈ دیکھنے کو ملتے
ہیں۔ لیکن حکومت کا عمل ٹھیک اس کے برعکس ہے۔ بیٹی کی آبرو اور جان بچے گی
تبھی تو وہ آگے بڑھے گی ۔اب تو بے شرمی اور بے حیائی کی انتہا یہ ہو رہی ہے
کہ سیاسی رسوخ رکھنے والے اور اونچی ذات کے زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں
ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ۔ یاد کیجئے جموں کے کٹھوہ کا وہ دل دہلا دینے
والا سانحہ ،جس میں آٹھ سال کی معصوم بے گناہ بچی آصفہ کو اغوأ کر ایک مندر
کے اندر مسلسل سات دنوں تک تین درندے نما لوگ زنا بالجبر کرتے رہے اور جب
وہ آخری سانس لینے لگی تو اسے پتھروں سے کچل کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا
تھا ۔ اس انسانیت سوز سانحہ پر شرمندہ اور نادم ہونے کی بجائے ان مجرموں کی
حمایت میں جلسے جلوس نکلنا شروع ہوئے تھے ۔ حکومت اتر پردیش ہاتھرس سانحہ
پر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے مسلسل جھوٹ کا سہارا لیتی رہی اور
انتہا تو یہ ہوا کہ کورٹ کے مطالبہ پر جھوٹاحلف نامہ دے کر انسانیت، قانون
، عدلیہ اور آئین کو بھی شرمسار کیا ۔جس کی بھرپور مذمت ہوئی تھی ۔ہر جانب
بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوئے ،دیش اور دنیا میں تھو تھو ہوئی اور اقوام متحدہ
کے جنرل سکریٹری انٹونیوگوٹیرس کو یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا کہ بھارت
بیمار ذہنیت کا غلام ہے جہاں زانیوں کے بچانے کے لئے ریلی نکالی جاتی ہے ۔
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کا یہ بیان پورے ملک بھارت کو شرمسار کر دینے
والا تھا ۔ توقع تھی اس بیان کے بعد حکومت کچھ ایسی کاروائی ضرور کرے گی کہ
پھر ایسے شرمندہ کرنے والے بیان کا سامنا نہ ہو ۔لیکن افسوس کہ ایسا کچھ
نہیں ہوا اور حکومت کی سرپرستی میں پھر وہی سب کچھ ہوا جو ذلت و رسوائی کا
باعث بنا ۔ گودھرا (گجرات) فساد کے دوران بلقیس کے ساتھ جو ظلم و تشدد ہوا
تھا اور زانیوں کو قرار واقئی کی سزا ملی تھی لیکن افسوس کہ فرقہ پرست
حکمرانوں نے بے شرمی اور بے حیائی کی حدیں پار کرتے ہوئے ان مجرمین کو
سنسکاری (مہذب)قرار دے کر جیلوں سے رہا کر دیا ۔ ان کی رہائی انھیں پھول
مالا پہنایا گیا اور مٹھائیاں بانٹی گئیں ۔ زانیوں کی ایسی طرف داری اور
عزّت افزائی سے ظاہر ہے ایسے مجرمین کے حوصلے بڑھنے کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے
کہ ہم کچھ بھی غلط کرینگے ، حکومت ہماری حمایت میں کھڑی ہے وہ بچا لے گی ۔
اس لئے ہمارے مہذب سماج میں آبرو ریزی کے سانحات رونمأ ہوتے ہیں اور معصوم
بچیوں کی دلدوز چیخوں کی بازگشت ملک کے در و دیوار سے ٹکراتی ہیں تو ان کا
ذمّہ دار کون ہے اورہوگا ۔اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم اور تشدد کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔
ہاتھرس، گودھرا ، احمد آباد، بلند شہر،بلرام پور،اعظم گڑھ ، مراد آباد ،سہارنپور،بھدوہی،
بدایوں،جونپور ،اناؤ، لکھیم پور ،گوا ، سمستی پور ، دمکاوغیرہ میں معصوم
بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد کا سلسلہ جاری ہے،جنھیں سن کر انسانیت چیخ اٹھتی
ہے ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو ( NCRB) کی سالانہ رپورٹ 2021 ء کے مطابق اس
سال ملک بھر میں جنسی زیادتیوں کے 31,677 کیس درج کئے گئے جو حقیقی تعداد
سے کم اس لئے ہیں کہ دیہی علاقوں میں یا بعض شہروں میں اسکول ،کالج ، ٹیوشن
جانے والی بچیوں کے خلاف ہراسانی ، چھیڑ خانی یا جنسی تشدد کی خبریں بہت ہی
کم درج کرائی یا کی جاتی ہیں ۔ تھامسن رائٹرس فاؤنڈیشن کے ذریعہ چند سال
قبل کئے گئے ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کو دنیا بھر میں لڑکیوں کے
لئے سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیاتھا ،جہاں روزانہ اوستاََ 93 لڑکیوں کی
عزت و آبرو لوٹی جاتی ہے ۔ تھامسن کے سروے 2019 ء کے مطابق اس سال بھارت
میں ہونے والے جنسی ظلم و تشدد کے واقعات میں 11 فیصد پسماندہ یعنی دلت
لڑکیوں کی تعداد تھی ۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے بموجب بھارت میں ہر سولہ
منٹ پر ایک ریپ ہوتا ہے ۔ عصمت دری کے بڑھتے واقعات میں دنیا کے ٹاپ 10
ممالک میں ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے ۔اس کی جہ صرف یہ ہے کہ مسلم
ممالک میں زانیوں کی حمایت نہیں کی جاتی ے بلکہ انھیں سر عام سنگ سار کیا
جاتا ہے ،تاکہ لوگ عبرت لیں اورایسے اندوہناک ظلم وتشدد کے مرتکب نہ ہوں ۔ٹاپ
10ممالک میں ڈنمارک ، فن لینڈ ، اسٹریلیا ، کینیڈا ، نیوزی لینڈ ، ، بھارت
، برطانیہ ، امریکہ ، سوؤیڈن، اور جنوبی افریقہ ہے اور بھارت اس فہرست میں
پانچویں نمبر پر ہے ۔
ایسے شرمناک سیاسی و سماجی حالات میں ہر حساس ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ
ہم کیسے بے رحم اور بے حِس سماجی عہد میں جی رہے ہیں ۔ کیا ہم پھر اس دور
میں پہنچ گئے ، جب حیوان اور انسان میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔ راجستھان میں
چھہ ماہ کی بچی سے زنا ہو رہا ہے؟ گجرات میں چودہ ماہ کی بچی کو ہوس کا
نشانہ بنایا گیا ۔ مظفر پور کے شیلٹر ہوم میں معصوم بچیوں کے ساتھ سیاست
دانوں کی عیاشیوں کے قصے عام ہیں۔ سیاست دانوں اور افسران کے ظلم و بربریت
کا شکار ہونے سے انکار کئے جانے پر ان بچیوں کی بے رحمانہ پٹائی بلکہ قتل
تک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور قتل کرنے کے بعد رات کے اندھیرے میں
ان بچیوں کو دفن کر دیا جاتا تھا ۔ ایسے بڑھتے جرائم اور ظلم و تشدد پر چند
سال قبل سپریم کورٹ نے حکومت کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے ان سے سوال کیا تھا
کہ’ ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے ؟ آپ اس طرح بچوں کے ساتھ ایسا سلوک کیسے کر
سکتے ہیں ۔ یہ آجکل روزانہ کا مسئلہ بن گیا ہے ۔
‘
ایسے المناک ،شرمناک اور دردناک منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے اس سال کے ’عالمی
یوم بچیاں‘ پر اقوام متحدہ اس جانب خصوصی توجہ دے اور دنیا کی وہ تمام
تنظیمیں جو انسانی حقوق کی بازیابی کے لئے متحرک اور فعال ہیں ،وہ بھی ایسے
مسئلوں کے تدارک کے لئے لائحہ عمل تیار کرے کہ آج کی یہی بچیاں کل کسی
خاندان اور سماج کے لئے اہم کردار ادا کرینگی۔اس سال یعنی 2022 ء کاعالمی
یوم بچیاںWorld day of the Girl Child) ) کے انعقاد کا کئی لحاظ سے اہمیت
اس لئے بھی ہے کہ انعقاد کا یہ دسواں سال ہے اور اس سال کی تھیم ’’ اب
ہمارا وقت ہے ،ہمارے حقوق ، ہمارا مستقبل ‘‘ "Our time is now -our rights
our future ) ) تجویز کی گئی ہے ۔اب دیکھنا ہے اس تھیم پر دنیا باالخصوص
ہندوستان گزشتہ دس برسوں کے محاسبہ کے بعد ملک کی معصوم بچیوں کے مسائل کے
تدارک کے لئے اور ان کے بہتر مستقبل کے لئے کیا لائحہ عمل تیار کرتا ہے ۔ملک
و قوم کی گواہ بننے والی آج کی بچیوں کو کس قدر اعلیٰ تعلیم، تحفظ و تربیت
نیز ان کی بہتر زندگی اور سہولیات کے لئے حکومت اور سماجی تنظیمیں کیا کیا
اقدام کرتی ہیں ۔آج 11 ؍ اکتوبر 2022 ء کو ملک بھر میں اس’’ عالمی یوم بچیا
ں ‘‘کے انعقاد اورکیا لاحۂ عمل تیار کیا جاتا ہے۔اس کا انتظارہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
|