دبستان حیات سے ایک ورق

ایک مخلص دوست جنید اقبال صاحب
انسانی زندگی کا سفر اکیلے ہی شروع ہوتا ہے۔پھر آخر میں انسان اکیلا ہی رہ جاتا ہے ،لیکن سفر حیات میں بہت سے لوگ ہمسفر بنتے اور بچھڑتےہیں۔اکثر تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کا مصداق بن جاتے ہیں۔لیکن بعض شخصیات اپنے کردار اور اخلاق کی وجہ سے خانہ دل کے کسی گوشہ میں جگہ بنالیتی ہیں ۔جن کا ذکر خیر ان کے کسی کارخیرکے صدقےچلتا ہی رہتا ہے۔

میرے سفر حیات میں بے شمار لوگوں سے میل ملاقات رہی۔ان کی شخصیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ان میں جو پسند آگیا۔ اسے دل کے کسی گوشہ میں سجا لیا۔انہی لوگوں میں سے ایک دوست مکرم جنید اقبال صاحب ہیں۔ان کی سدا بہار مسکراتی پُروقار شخصیت ،انسانی ہمدردی،مہمان نوازی،شرافت ونجابت کا میں نے ہمیشہ ہی بغیر کسی لالچ اور مطلب کے اپنے دل سےاحترام کیاہے۔سوچا موصوف کا ذکر خیر کردیا جائے۔کہتے ہیں کسی کی عدم موجودگی میں اس کی تعریف کرنا بھی صدقہ جاریہ ہوتا ہے۔

تعارف
مکرم جنیداقبال صاحب کا تعلق ضلع گجرات کے ایک معروف سیاسی گھرانے سے ہے۔موصوف کے والد محترم کسی دور میں قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔نیز ان کی قریبی رشتہ داری چوہدری ظہورالہی کے خاندان سے بھی بتائی جاتی ہے۔

سینیگال میں آمد
آپ کو کئی ممالک میں مختلف بنکوں میں خدمت سرانجام دینے کی توفیق ملی۔غالباً ۱۹۹۸ میں آپ کی تقرری اسلامک بنک کے مینجر کے طور پرسینیگال میں ہوگئی۔

پہلی ملاقات
سینیگال میں پاکستانی احباب کی ایک قلیل تعدا دتھی۔اس لئے اس لئے کوئی بھی خبر ہو تو فوری اطلاع مل جاتی تھی۔ دیگر پاکستانی دوستوں کے زریعہ سےمکرم جنید اقبال صاحب کی آمد کی بھی خبر مل گئی۔
سینیگال میں بھی ہرسال چودہ اگست کو یوم آزادی کی تقریب پاکستان ایمبیسی میں منعقد ہوتی ہے۔جس میں سب پاکستانی احباب کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔اسی نسبت سے اس تقریب کا انعقاد تھا۔جس میں خاکسار بھی شریک تھا۔یہیں مکرم جنید اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہیں میرا غائبانہ تعارف ہوچکا تھا۔مل کر بہت خوش ہوئے۔

چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کا ذکر خیر
انہوں نے بتایا کہ ۔چوہدری ظفراللہ خان صاحب جن دنوں لاہور میں وکالت کرتے تھے۔ان دنوں ان کے ماموں مکرم چوہدری صاحب کے ساتھ شعبہ وکالت سے وابستہ تھے۔پھر جب چوہدری صاحب دیگر ملی خدمات میں مصروف ہوگئے تو یہ دفتر بند کردیا گیا۔جس کے بعد چوہدری صاحب نے وہ ساری کتب میرے ماموں صاحب کو عنائت فرمادیں جو آج تک ہمارے پاس بطور یادگار ہیں۔اس کے علاوہ چوہدری صاحب کی دیگر کئی ایک نوازشات کا بھی ذکر فرمایا۔

اس طرح محبت واخوت کا ایک سلسلہ چل نکلا۔اکثر ایک دوسرے کے گھروں میں آمدورفت کا سلسلہ چلتا رہا۔بہت ہی مخلص،ملنسار اور بے ضرر انسان تھے۔انہیں اگر کوئی کام کہہ دیا جائے تو اس کی تعمیل اعزاز گردانتے تھے۔

اخلاق حسنہ
میں نے انہیں بہت ہی مخلص ،ہمدرد اور انسان دوست وجود پایا۔دونوں میاں بیوی باوجود معاشی کشائش اور مرتبہ کے سب دیگر پاکستانی حضرات کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے اور کسی بھی پاکستانی کی مدد کرکے خوشی و مسرت محسوس کرتے۔الغرض بہت ہی انسانیت نواز دوست تھے۔

خوابیدہ قسمت کھل گئی
میرے پاس ایک نوجوان کام کرتا تھا۔جس کی تعلیم صرف مڈل تک تھی۔ایک روز میں نے جنید صاحب کو کہا۔میرے اس نوجوان کو اپنے بنک میں کوئی جگہ دلادیں۔کہنے لگے ٹھیک ہے۔کل بھیج دیں۔میں نے اگلے روز اسے ان کے پاس بھیج دیا۔انہوں نے اسے ملازمت دے دی۔بعدازاں اس نوجوان نے ہمت کی اور بعض امتحانات پاس کرلئے۔الحمدللہ آج کل وہ نوجوان اسی بنک میں ایک اچھے عہدہ پر فائز ہے اور دنیاوی لحاظ سے اپنے معاشرہ میں خاصی خوش حال زندگی بسر کررہا ہے۔جب کبھی اس سے بات ہوتی ہے وہ ہمیشہ ہی مکرم جنید صاحب کے لئے رطب اللسان ہوتا ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست گر نہ بخشد خدائے بخشندہ۔

کیا آپ حج کرنا چاہتے ہیں
کرم جنید اقبال صاحب کے پاس ایک ڈرائیور تھا۔جس کا نام مسٹر سوہ تھا۔ایک روز وہ مکرم جنید صاحب کی اہلیہ کو کہیں بازار لے کر جارہا تھا۔رستہ میں بیگم صاحبہ نے کہا۔سوہ کیا آپ حج کرنا چاہتے ہیں۔سوہ نے کہا۔ہم غریبوں کی قسمت میں حج کی سعادت کہاں ممکن ہے۔اس پر بیگم صاحبہ نے کہا۔یہ پیسے لو اور اپنا پاسپورٹ بنواؤ ،میں تمہیں حج پر بھیجوں گی۔اس پر مسٹرسوہ نے گاڑی روک دی اور وہ کافی دیر تک خوشی سے روتا رہا۔اس کے بعد ان کی شفقت سے اس ڈرائیور کو حج بیت اللہ کی سعادت مل گئی۔ فجزاھم اللہ

نوٹ ۔زندگی میں بے شمار لوگ ملتے ہیں پھر حسب حالات بچھڑ جاتے ہیں۔لیکن بعض دوستوں کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات امر ہوجاتے ہیں۔

یہ دوست میری متاع حیات ہیں۔ان کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتا ہوں۔جہاں رہیں خوش رہیں۔


 

munawar
About the Author: munawar Read More Articles by munawar: 47 Articles with 60060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.