اس میں کوئی شک نہیں کہ بدعنوانی کسی بھی ملک کے سیاسی
سماجی ماحول کو خطرے میں ڈالتی ہے اور معاشی اور معاشرتی ماحول کو کمزور
کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں انسداد بدعنوانی پر زور دیا جاتا ہے
اور اسے معاشرے کے لیے ایک ناسور سمجھا جاتا ہے۔اس ضمن میں جہاں چین کی
اقتصادی ترقی اور معاشی پالیسیوں سے سیکھا جا سکتا ہے ، وہاں کرپشن کے
خاتمے کے لیے بھی کچھ سبق ضرور حاصل کرتے ہوئے عملی اقدامات کیے جا سکتے
ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ چینی حکام کی مضبوط انسداد بدعنوانی پالیسیاں اور
شفافیت کا ایک ایسا کڑا نظام ہے جو بلا تفریق سب کا احتساب کرتا ہے۔اس کا
سہرا چینی صدر شی جن پھنگ کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اپنی مدت صدارت کے آغاز
ہی سے ملک کی پائیدار اقتصادی سماجی ترقی کے لیے انسداد بدعنوانی کو نمایاں
اہمیت دی اور ملک گیر سخت اقدامات اپنائے ۔ انہوں نے اس بات پر ہمیشہ زور
دیا ہے کہ ملک اور قوم کی بقاء کے لیے بدعنوانی کا جڑ سے خاتمہ لازم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایسا مضبوط نگران نظام تشکیل دیا گیا ہے جس میں
قوانین و ضوابط کی بہتری سے سرکاری اداروں میں بدعنوانی کی حوصلہ شکنی کی
جا رہی ہے۔یہ نظام اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے کہ سرکاری عہدے
دار بدعنوانی کے مرتکب ہونے کی جرات ہی نہ کر پائیں اور نہ ہی کبھی اُن کے
دل میں بد عنوانی کی خواہش جنم لے پائے ۔
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی حالیہ 20 ویں قومی کانگریس کے دوران بھی بتایا
گیا کہ مرکزی کمیٹی نے گزشتہ دس سالوں میں بدعنوانی کے خلاف جنگ کو بھرپور
طریقے سے فروغ دیا ہے، جس نے اندرون اور بیرون ملک وسیع پیمانے پر توجہ
مبذول کروائی ہے۔ چینی حکام کے نزدیک انسداد بدعنوانی جامع ترین خود انقلاب
ہے. جب تک بدعنوانی کی جڑ اور عناصر موجود ہیں، بدعنوانی کے خلاف جنگ ایک
لمحے کے لیے بھی نہیں رک سکتی ہے، اور چین کو ہر حال میں بدعنوانی کے خلاف
طویل جنگ جیتنا ہوگی۔یہ بات قابل زکر ہے کہ سی پی سی کی 18ویں قومی کانگریس
کے بعد سے اب تک انضباطی معائنہ اداروں کی جانب سے 4.648 ملین سے زائد
مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور 25 ہزار بیورو سطح کے عہدیداروں کے ساتھ
ساتھ 182000 سے زیادہ کاؤنٹی سطح کے عہدیداروں کو سزائیں دی گئی ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف چائنا نے عوام کو اولین حیثیت دیتے ہوئے عوام کے مفادات
کو نظر انداز کرنے والے مختلف مسائل کو مضبوطی سے دور کیا ہے، اور عوام کے
آس پاس موجود " بدعنوانی " کو سختی سے دور کیا گیا ہے، جس سے لوگوں کے
احساس اطمینان میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
یہاں اس حقیقت کا ادراک بھی لازم ہے کہ سی پی سی 96 ملین سے زیادہ پارٹی
ممبران کے ساتھ ، دنیا کی سب سے بڑی مارکسی حکمران جماعت ہے۔ملک کی 1.4
بلین کی آبادی کے ساتھ اس طرح کی تنظیم کو منظم کرنا اور دنیا کے سب سے بڑے
سوشلسٹ ملک پر حکمرانی کرنا یقیناً چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔ پارٹی کو سیلف
گورننس، اصلاحات اور کھلے پن، مارکیٹ اکانومی اور بیرونی ماحول جیسے امور
بھی درپیش ہیں۔ ایسے میں ملکی ترقی کا جاری عمل حکام کی نااہلی، غیر فعالیت
اور بدعنوانی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین میں اول تو ، انسداد بدعنوانی کے لیے ایسے
نظام اور طریقہ کار کو بہتر کیا گیا ہے جس کے تحت کوششوں کی ہم آہنگی سے
نمایاں فرق پڑا ہے۔ ان میں سی پی سی کی مرکزی کمیٹی کی متحد قیادت، مختلف
سطحوں پر پارٹی کمیٹیوں کی کمانڈ اور کوآرڈینیشن، نظم و ضبط کے معائنہ
کمیشنوں اور نگرانی کمیشنوں کی تنظیم اور ہم آہنگی، فعال محکموں کے درمیان
موثر تعاون اور لوگوں کی شرکت اور حمایت شامل ہے۔دوسرا ، ملک میں بدعنوانی
کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے کی مہم زور وشور سے جاری ہے۔یہ مہم اس بات کو
یقینی بناتی ہے کہ پارٹی کے ارکان اور عہدیداروں کو طاقت کے غلط استعمال سے
روکا جائے، وہ اپنے صاف ضمیر اور سیاسی شعور کی وجہ سے بدعنوانی کی کوئی
خواہش نہ رکھتے ہوں۔ تیسرا، چین نے اپنے نظم و ضبط اور تادیبی کارروائیوں
کو سختی سے برقرار رکھا ہے۔ بدعنوان عناصر کو کڑی سزائیں دی جاتی ہیں۔ چین
کے نزدیک بدعنوانی سے سختی سے نمٹنا اس باعث بھی لازم ہے کہ یہ پارٹی کے
نظریات، رہنما ضوابط ، اصولوں اور پالیسیوں کے نفاذ میں رکاوٹ ہے اور
حکومتی بنیادوں کو کمزور کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اہم شعبوں میں انسداد
بدعنوانی کے کام کو مزید آگے بڑھانے کے لیے اعلیٰ قیادت کا وژن بدستور
برقرار ہے، عزم غیر متزلزل ہے اور نظم و ضبط کی پاسداری شرط اول ہے۔یہی وہ
پالیسیاں ہے جو ایک ترقی پزیر ملک ہونے کے باوجود چین کو عروج کی جانب لے
جا رہی ہیں اور دیگر ترقی پزیر ممالک کے لیے ایک روشن مثال ہیں کہ اگر
کرپشن کے خاتمے کا عزم مصمم ہو تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے اور سماج
استحکام اور ترقی کی جانب بڑھتا ہے ، بصورت دیگر کرپشن ملک کی جڑوں کو
کھوکھلا کرتے ہوئے قوموں کو زوال پزیر کر دیتی ہے۔
|