کیا مدر سری دور دوبارہ آ سکتا ہے۔؟

مادرانہ نسب علم الانساب کی رو سے ایک ایسا نظام ہے جہاں نسب کا دارومدار عورت کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسے سماجی نظام سے ہم آہنگ ہوتا ہے جس میں ہر شخص اپنی ماں کے نسب کے ساتھ شناخت رکھتا ہے۔ ان سماجوں میں خاندانوں کی وراثت اہم ذمے داریاں یا خطابات خواتین کی جانب سے ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ یہ پدرسری نسب کی عین ضد ہے جہاں تمام اختیارات مرد کے پاس ہوا کرتے ہیں۔
مرر سری نظام میں تین طرح کے معاشرے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ معاشرہ جس میں شادی کے بعد بیوی کو شوہر کے ہاں جنا ہوتا ہے مثلاً شمال مشرق نیوگنی کے ٹربرینڈ جزائر کے باشندوں میں اس کا رواج ہے۔ دوسرے وہ معاشرے جن میں شادی کے بعد شوہر اور بیوی دونوں اپنے انہی گھروں میں رہتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے۔ مثلاً لکشادیپ کے کورل جزائر میں مسلمانوں میں یہ رواج ہے۔ تیسری طرح کے وہ معاشرے ہیں جن میں شوہر شادی کے بعد بیوی کے گھر جاتا ہے، مثلاً امریکا کے دیسی باشندوں کے ہوپی، زونی اور ایروکواس قبائل۔ان میں سے زیادہ ترکا ماننا یہ نہیں تھا کہ ماقبل از تاریخ میں عورت کی پوجا کی جاتی تھی لیکن وہ اس بات کے قائل تھے کہ عورت معاشرے کی سربراہ تھی اور یہ ایک مادرپدر آزاد معاشرہ تھا۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے آثارقدیمہ کی کھدائیوں سے ملنے والے نسوانی خدوخال کی حامل مورتیوں کو بطور شہادت پیش کیا۔

دنیا کی بہت سی تہذیبیں ایک‘‘زنان شاہی دور’’کا حصہ تھیں۔ پدرانہ نظام ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا اور یہ تصور کیا جاتا تھا کہ عورتیں درختوں کی مانند پھل کو جنم دیتی ہیں جب وہ پک جاتے ہیں۔ وہ اسی وجہ سے برتر سمجھی جاتیں۔ مرد بستی کے بالکل کناروں پر رہتے تھے، وہ محض ایک مزدور کی حیثیت رکھتے تھیاور عورتوں کے مرکز کے عبادت گزار! جو زندگی کا سرچشمہ تھیں۔ پدرانہ نظام کی دریافت، جنسی تعلق صرف بچے جنم دینے کے لیے، رفتہ رفتہ‘‘مردوں کا بچوں کے سرپرست’’ہونے کے نظریے نے بھی طاقت پکڑ لی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ماہرین آثارقدیمہ نظریات‘‘ماقبل از تاریخ’’کو اپنی خیال آرائیوں کی جولان گاہ بنائے ہوئے تھے کیوں کہ‘‘تحریر شدہ تاریخ’’سے ملنے والے نتائج ایسے واضح تھے کہ اس بات کا انکار ممکن ہی نہ تھا کہ ایک پدرانہ معاشرے کا انکار کیا جاسکے۔

‘‘تاریخ کے لکھے جانے سے پہلے، معاشرے کا مرکز و محور عورت تھی جسے اپنے‘‘پراسرار پیدائشی عمل’’کی وجہ سے برتر اور پوجا کے قابل سمجھا جاتا تھا کیوں کہ مرد جنسی عمل سے تو واقف تھا لیکن ابھی یہ نہ جانتا تھا کہ بچے کی پیدائش کس عمل کا نتیجہ ہے چناں چہ وہ اس عمل کو درختوں پر پھول اور پتے لگنے کے عمل سے تشبیہ دیتا۔ اور جیسے ہی یہ پھل و پھول لے آتے وہ سمجھتا تھا کہ عورت ہی اس امر پر قادر ہے کہ بچے پیدا کر سکتی ہے۔ کسی خاص صلاحیت کی بنا پر یہ عورت ہی تھی جس نے سب سے پہلے زراعت کا پیشہ ایجاد کیا اور کھیتی باڑی پر قادر ہوگئی۔

مادر سری نظام میں عورت کی حیثیت آقا یا مالک کی نہیں تھی اور یہ نظام چونکہ مضبوط روایات پر مبنی نہیں تھا اس لیے یہ جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ اس تاریخی عمل نے آہستہ آہستہ پدرسری کے نظام کو اُبھارا اور اس نے مساوات کی جگہ عدم مساوات کے اصول پر مرد کی برتری کو قائم کرکے عورت کو اپنی ماتحت کرلیا۔

مرد چوں کہ پیدائش پر قادر نہیں تھے چناں چہ دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہ حالت ہزاروں سالوں پر محیط رہی۔ پھر آج سے کم و بیش ہزاروں سال قبل ایک بڑی تبدیلی واقع ہوئی، اچانک ہی مردوں کو یہ اس بات پر حاصل ہو گیاکہ پیدائش کے عمل میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں اور اگر وہ عورت کے ساتھ ہمبستری نہ کریں تو افزائش نسل نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے عورتوں کی حیض کی حالت میں کم زوری کا فائدہ اٹھایا۔اس لئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مادرسری کے نظام کا احیا ہو سکتا ہے اور کیا مادرسری کلچر کے تحت دنیا سے جنگوں اور خونریزی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور کیا جو نظام امن کو قائم کرکے انسان کی زندگی کو پرمسرت بنا سکتا ہے؟

آج کے دور میں ہم عورت کو جس بے بسی اور بے کسی کے عالم میں دیکھتے ہیں عورت معاشرے میں مرد کے تعصبات کا شکار ہے، وہ روایت کی زنجیروں میں بندھی ہوئی ہے اور اب یہ زنجیریں آہستہ آہستہ ٹوٹ رہی ہیں۔ عورت تاریخ میں اس دور کو حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے جب معاشرے میں مادرسری نظام تھا۔ خاندان سازی کے لئے جوڑے بناتے وقت عورت کی رائے اور مرضی کو ترجیح حاصل ہوتی تھی۔ایسا ممکن تو ہے، مگر اس نظام کو واپس لانے کے لیے مذہبی، سیاسی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور فطری بندھنوں کو توڑنا ہو گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مرد کی ذہنیت کو بدلنا ہو گا کہ وہ عورت کو برابر کا مقام دے جو مادرسری نظام میں موجود تھا۔ اور اب لگتا یوں ہے کہ عورت اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے ایک بار پھر اپنی پوری صلاحیتوں کیساتھ کوشان ہے۔
 

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.