ایک نیکی

شریف تھانیدار عمرہ کی سعادت حاصل کر نے کے بعد چہرے پر سفید نورانی داڑھی ماتھے پر محراب ہاتھ میں تسبیح اور جائے نماز کھجوروں کے ساتھ مجھے ملنے آیا ہوا تھا مجھے شریف کو اِس روپ میں دیکھ کر بہت اچھا لگا اُس کے چہرے اور جسم پر عاجزی انکساری کا رنگ غالب تھا وہ بات بات پر جھک رہا تھا کانوں کو ہاتھ لگا رہا تھا آسمان کی طرف دیکھ کر رب ذوالجلال کا شکریہ ادا کر رہا تھا نیکی اچھائی بھلائی اُس کے باطن میں اُتر کر اُس کو بدل چکی تھی غرور تکبر اقتدار کا نشہ اُس سے کوسوں دور تھا بدلہ ہوا شریف مجھے بہت خوشی ہو رہی تھی میں امبر مبروم کھجوروں کے ساتھ آب زم زم سے اپنا گلا تر کر رہا تھا اور سر سے پاؤں تک بدلے ہوئے کڑک تھانیدار کو دیکھ رہا تھا جو تحسین آمیز نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا پروفیسر صاحب میں تو آج بھی اﷲ کا شکر ادا کر تا ہوں کہ ہمسائے کے لڑکے کی مدد کے لیے آپ میرے پاس تھانے آئے اور ایک نیکی سے میری زندگی بد ل گئی اگر میں نے آپ کی بات نہ مانی ہو تی اُس چھوٹی سی نیکی کو نہ کیا ہو تا تو آج بھی شراب کباب شباب گناہوں کی دلدل میں غوطے کھا رہا ہوتا پتہ نہیں میرے والدین کی کون سی نیکی تھی جو آپ میری زندگی میں آئے دور میری زندگی بد ل کر رہ گئی شریف مجھ سیاہ کار کی بہت تعریفیں کر رہا تھا اور میں ہمیشہ کی طرح خدا کا شاکر عاجز کہ وہ کس طرح مُجھ کشت غبار کو عزت دیتا ہے شریف کے ساتھ ساتھ میں بھی خو ش ہو رہا تھا کہ کس طرح شریف کی زندگی میں وہ ٹرننگ پوائنٹ آیا اور شریف کی زندگی ہی بدل گئی مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب ہمارے دوست کے بیٹے کو پولیس اٹھا کر لے گئی اُس بیچارے نے مجھے دعا کے لیے فون کیا ساتھ یہ بھی درخواست کی کہ میں بہت شریف چھوٹا آدمی ہوں پولیس میں کوئی جان پہچان بھی نہیں ہے آپ خود یا اپنے کسی دوست کو میرے پاس بھیج دیں جس تھانے کا دوست نے ذکر کیا وہاں پر میرے جاننے والا بھی لگا ہوا تھا لہذا میں نے خود جانے کا فیصلہ کیا پھر میں دوست کے ساتھ اُس تھانے گیا تو جا کر پتہ چلا کہ میرا جاننے والا تو کب کا جا چکا ہے اب اُس جگہ دوسرا بندہ آگیا ہے اب میں نے تھانیدار صاحب سے ملنے کی کو شش کی تو شریف صاحب سے ملاقات ہوئی شریف صاحب طاقت اقتدار کے نشے میں جھول رہے تھے بیچارے میرے دوست کو اور اُس کے بچے کو خوب لتاڑا دھمکیاں دیں کہ میں تمہارے سارے خاندان کو حوالات میں بند کر دوں گا تمہاری اور تمہارے بیٹے کی ایسی کی تیسی کیونکہ ہمارا لڑکا تھانیدار صاحب کے رحم و کرم پر تھا اِس لیے ہم خاموشی سے شریف صاحب کی بڑھکیں اور دھمکیاں سنتے رہے جب خوب بول چکے تو میں نے عرض کی جناب اب اِس کا حل کیا ہے یہ لڑکا بے گناہ ہے اِس کو معاف کر دیں تو فرعون نما تھانیدار بولا تفتیش میں جب جوتے پڑیں گے تو یہ لڑکا سب کچھ سچ اگل دے گا جب تھانیدار کہ منہ سے مسلسل آگ کے گولے نکل رہے تھے تو چپکے سے اٹھا دور باہر جاکر پولیس کے اعلی آفیسر کو فون کیا کہ میں کسی دوست کی مدد کے سلسلے میں فلاں تھانے میں اِس ایس ایچ اورصاحب کے رحم و کرم پر ہوں تو پولیس والا دوست ناراض ہوا سر آپ خود ہی کیوں چلے گئے آپ پاکستان کے پولیس کلچر سے واقف ہی ہیں آپ یہیں پر انتظار کریں میں کچھ کرتا ہوں پھر میں نے چند منٹوں بعد ہی رنگ بدلتا دیکھا کہ شریف تھانیدار صاحب بھیگی بلی بنے مراثی بنا مجھے تلاش کرتا ہوا میرے پاس آیا اور بولا پروفیسر صاحب آپ بھی کیا کر تے ہیں آپ اپنا تعارف تو کروا دیتے مجھے معاف کردیں میں نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ہم پولیس والے سارا دن لوگوں کو ملزم سمجھ کر ایک ہی ڈنڈے سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں جناب مجھے معاف کردیں آئیں میرے کمرے میں اب تھانیدار میں نہیں آپ ہیں پھر بہت عزت سے مجھے لاکر بٹھایا دودھ پتی کا حکم دیا میرا دوست تھانیدار سے میراثی کے اِس سفر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا میرے پولیس والے دوست نے میرے روحانی سلسلے کے بارے میں بھی بتا دیا تھا اِس لیے شریف بو لا جناب ہم خود پیرو ں فقیروں کو ماننے والے ہیں میری بیٹی کی شادی نہیں ہو رہی بیٹا آوارہ ہے بہت تنگ کرتا ہے کوئی وظیفہ بتائیں جو میری بیوی کر لے یہ میری تھانیدار شریف سے پہلی ملاقات تھی اﷲ کے فضل سے بیٹی کی شادی ہو گئی اور شریف کی بیوی ضد کر کے میرے پاس شکریہ ادا کرنے آئی اِس طرح میرا شریف کے خاندان سے عقیدت و احترام کا رشتہ استوار ہو گیا پھر شریف معطل ہو گیا تو مجھے کہا میں سفارش کروں اﷲ نے مدد کی تو شریف بحال ہو گیا اسطرح اب شریف اور میرا تعلق کافی گہرا ہو گیا تھا جب بحال ہوا تو مٹھائی لے کر میرے پاس آیا اور بولا جناب آپ نے کبھی کوئی کام نہیں کہا اگر میرے لائق کوئی کام حکم ہو تو ضرور حکم کرنا میں تعمیل کروں گا تو میں نے شریف سے کہا یار ایک نیکی کاکام ہے اگر تم ایمانداری سے کرو تو میں بہت شکر گزار ہوں گا ایک یتیم بیٹی اپنی بیوہ ماں کے ساتھ تمہارے ہی علاقے میں رہتی ہے محلے کے اوباش جوان لاوارث سمجھ کر بیٹی کو بہت تنگ کر تے ہیں کہ اِن کے سر پر کون ہے تم اُس بیٹی کے گھر جاؤ اور محلے کے چوہدری کو کہو کہ یہ میری بہن اور بیٹی ہے آئندہ کوئی اِن کو تنگ نہ کرے لیکن یہ آپ نے خود جانا ہے تو شریف خوشدلی سے بولا جناب آپ بے فکر ہو جائیں پھر شریف اپنے لشکر کے ساتھ محلے میں جا کر لوگوں کو بتا آیا اُس باجی کو میں نے فون کر کے شریف کے بارے میں بتا دیا تھا شریف ایک ماہ بعد میرے پاس آیا اور بولا جناب آپ کے حکم کی تعمیل ہو گئی تھی لیکن کرامت یہ ہوئی کہ مجھے نیند کی گولی کے بغیر نیند نہیں آتی تھی جس دن سے میں یتیم بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر آیا ہوں اب میں پرسکون نیند سوتا ہوں پھر وقت گزرتا رہا شریف بیوہ عورت کے سر پر ہاتھ رکھتا رہا بقول شریف کے جب سے میں نے یہ نیک کام کیا ہے میری زندگی میں انقلاب آگیا ہے پھر شریف نے ریٹائر منٹ لے لی اور اپنے بیٹے کے ساتھ چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جو دنوں میں چل نکلا آج عمرے کے بعد شریف میرے سامنے بیٹھا تھا جب جانے لگا تو بولا پروفیسر صاحب صرف ایک نیکی نے میری زندگی بدل دی اﷲ نے مجھے گناہوں سے نکلا کر صراط مستقیم پر ڈال دیا جب شریف چلا گیا تو میں سوچھنے لگا کیا ہمارے نامہ اعمال میں کوئی ایک ایسی نیکی ہے جو شریف نے کی اور وہ واقعی شریف ہو گیا ایسی ایک نیکی دونوں جہانوں میں سرخرو کر دیتی ہے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.